دوسرا مصنوعی سورج

ظہیر اختر بیدری  منگل 26 مارچ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

چین رواں برس اپنا دوسرا مصنوعی سورج بھی تیار کرلے گا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چینی سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ مصنوعی سورج سے سستی اور لامحدود توانائی کا حصول ممکن اور آسان ہو جائے گا۔ مصنوعی سورج کی مشین HL-2M اس سال تیار ہوجائے گی ۔ 100 بلین ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت تک جانے والی مشین کے ذریعے ہائیڈروجن کو شفاف توانائی میں تبدیل کیا جائے گا۔

اس مشین کے ایک پروجیکٹ لیڈر نے بتایا کہ توقع کی جا رہی ہے کہ نیا سورج 100 ملین ڈگری سیلس سے زیادہ درجہ حرارت تک جائے گا، یہ ہمارے قریب ترین ستاروں کی گرمی سے 6 گنا زیادہ گرم ہوگا ۔ دنیا کو توانائی کی شدید کمی کا سامنا ہے ۔ اس حوالے سے خود ہمارے ملک کا حال یہ ہے کہ روزانہ 10-10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کرنا پڑ رہی ہے۔ پسماندہ ملکوں میں توانائی کی کمی زیادہ ہے، اس کمی کو پورا کرنے کا فی الوقت کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے، بڑے بڑے ڈیم بناکر بجلی کی کمی کو پورا تو کیا جا رہا ہے لیکن پھر بھی کمی کا ازالہ ممکن نہیں ہو رہا ہے۔

بیسویں صدی کے نصف دوم سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان خصوصاً اسپیس ٹیکنالوجی میں جو حیرت انگیز اور ناقابل یقین ترقی ہوئی ہے اس نے دنیا کی ہیئت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ چین اس حوالے سے تیزی سے پیش رفت کر رہا ہے۔ معیشت کے شعبے میں ساری دنیا کو پیچھے چھوڑنے کے بعد چین نے خلائی شعبے میں جو پیش رفت کی ہے وہ دراصل ایک نئی دنیا کی نوید ہے جو انسانی محنت اور عقل کی مرہون منت ہوگی ۔

مصنوعی سورج ایک ایسا کارنامہ ہے جو دنیا میں بجلی کی کمی کو ماضی کی بات بنا دے گا۔ بجلی کا استعمال جس تیزی سے بڑھتا گیا، اس تیزی سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ نہ ہوسکا۔ اب چین کے مصنوعی سورج کی بدولت بجلی دنیا کی ضرورت کے مطابق ہی نہیں دنیا کی ضرورت سے اس قدر زیادہ پیدا ہوگی کہ اس کے استعمال کے نئے نئے طریقے تلاش کرنا پڑیں گے۔

انسان جہاں ان پر امن ذرایع سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے وہیں اس سے زیادہ جنگوں، ہتھیاروں کی تیاری جیسے انسان دشمن شعبوں میں بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام کے کارندے ساری دنیا میں جنگ کا ماحول پیدا کر رہے ہیں مثبت اور پرامن میدانوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ منفی اور جنگی ماحول میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے امریکا کا کردار منفی ہی نہیں قابل شرم بھی ہے۔

دنیا کے مختلف ملکوں میں امریکا نے اپنے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں جن کے بدلے وہ ان ملکوں سے بھاری معاوضہ وصول کر رہا ہے ۔  تازہ اطلاع کے مطابق امریکی صدر نے بیرون ملک قائم فوجی اڈوں اور ان فوجی اڈوں میں تعینات فوجیوں کے معاوضے میں بھاری اضافہ کردیا ہے۔ جنگ اور ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت دنیا کے انسانوں کا ایسا المیہ ہے کہ ان بلاؤں کو ختم کیے بغیر نہ دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے نہ ترقی ہوسکتی ہے۔

چین کا شمار دنیا کے پسماندہ ترین ملکوں میں ہوتا تھا اور جس کے عوام افیون کے نشے میں ہمیشہ دھت رہتے تھے ۔ چین نوآبادیات کا ایک عرصے تک شکار رہا ہے جب ماؤ اور ان کے ساتھیوں نے لانگ مارچ کا آغاز کیا تو چینی عوام میں بڑے پیمانے پر بیداری پیدا ہوئی اور وہ اس غلامی کی زندگی سے آزادی کے لیے کمربستہ ہوئے ، لانگ مارچ ماؤ اور ان کے ساتھیوں کی ایسی تحریک تھی جس سے اہم قومی مفادات جڑے ہوئے تھے۔ لانگ مارچ کی اہمیت اور اس کے اثرات پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ ہم مختصر طور پر لانگ مارچ کے حوالے سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ چین کی آزادی میں اس کا بہت بڑا کردار ہے ۔ دنیا کی تاریخ کا یہ انوکھا مارچ جہاں جہاں سے گزرتا عوام میں بیداری اور آزادی کے جذبات پیدا ہوتے۔ لانگ مارچ کی قیادت چینی عوام میں بے حد مقبول ہوئی۔

لانگ مارچ نے چینی عوام میں بیداری ہی نہیں پیدا کی بلکہ سامراجی ملکوں سے آزادی حاصل کرنے کا جذبہ بھی پیدا کیا۔ پاکستان نے 1947 میں نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کی چین ہمارے آزادی حاصل کرنے کے دو سال بعد یعنی 1949 میں آزادی کی نعمت سے ہکمنار ہوا۔ یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ ہم سے دو سال بعد آزادی حاصل کرنے والا ملک چین نہ صرف اقتصادی طور پر آج دنیا کا مثالی ملک بنا ہوا ہے بلکہ سائنس ٹیکنالوجی اور تحقیق کی دنیا میں چین کی پیش رفت کا عالم یہ ہے کہ وہ آج دوسرا مصنوعی سورج بنانے جا رہا ہے۔

یہ سائنس کے شعبے میں ایسی ترقی ہے جو دنیا کی بجلی کی ضرورت کا ہی مسئلہ حل نہیں کرے گی بلکہ ایسے ایسے شعبوں میں دنیا کو آگے لے جائے گی جہاں ایک نئی اور ترقی یافتہ دنیا عوام کی منتظر ہوگی۔ یہ کس قدر اہم بات ہے کہ چین جیسا ماضی کا پسماندہ ترین ملک آج مصنوعی سورج بناکر دنیا کو ترقی کی ایک نئی سمت کی طرف لے جا رہا ہے اور ہم اپنی توانائیوں کا ایک بڑا حصہ بجلی چوروں کو پکڑنے اور لائن لاسز کو پورا کرنے میں استعمال کر رہے ہیں۔

چین میں بھی کرپشن کا ناسور چینی معاشرے کو کھوکھلا کر رہا تھا۔ چینی قیادت کو اندازہ تھا کہ اس ناسور کو ختم نہ کیا گیا تو یہ ناسور چینی سماج کو تباہ و برباد کردے گا۔ چین میں کرپشن کا یہ ناسور صف اول کی قیادت تک پہنچ گیا تھا۔ چینی قیادت کو اندازہ تھا کہ اگر اس ناسور کو بڑھنے سے سختی سے نہ روکا گیا تو یہ ناسور چینی سماج کو گھن کی طرح کھا جائے گا، سو انھوں نے اس کے خلاف سخت ترین کارروائی کرتے ہوئے چینی سماج کے صف اول کے چار سو ایلیٹ کو سزائے موت دے دی ۔

ایلیٹ کی اتنے بڑے پیمانے پر پھانسیوں نے چینی ایلیٹ کو خوفزدہ کردیا اور کرپشن کی لعنت سے چینی معاشرے کو بڑی حد تک چھٹکارا مل گیا۔ دوسری طرف پاکستان پر نظر ڈالیں تو یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ ہمارے حکمران طبقے نے اربوں کھربوں کی کرپشن کا ارتکاب کرکے پاکستان کی معیشت کو کھوکھلا کردیا اور ہماری اربوں کی کرپشن کے الزام میں گرفتار حکمران ایلیٹ کا عالم یہ ہے کہ جیل کو ان کے لیے 5 اسٹار ہوٹل سے زیادہ آرام دہ بنادیا گیا ہے ان کے ناز نخروں کا عالم یہ ہے کہ ایک فرد کے لیے 24 گھنٹے 21 ڈاکٹرز تعینات ہیں اور 24 گھنٹے ایمرجنسی ڈکلیئر کردی گئی ہے۔

یہ اس ملک کی ایلیٹ کا حال ہے جو سر سے پاؤں تک اربوں ڈالر کے قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ چین میں بھی کرپشن نے ڈیرے ڈال دیے تھے چینی معاشرہ تیزی سے تباہی کی طرف جا رہا تھا چینی دور اندیش قیادت نے طے کرلیا کہ اگر اس ناسور کو سختی سے ختم نہ کیا گیا تو یہ ناسور پورے ملک کو کھا جائے گا سو اس نے بلا کسی تکلف اور جھجک کے اعلیٰ ترین ایلیٹ کے چار سو کرپٹ لوگوں کو پھانسیاں لگا دیں یوں اس بلا کو چینی معاشرے کو کرپشن سے زہریلا کرنے سے روک دیا گیا۔

نہ چین میں کرپٹ ایلیٹ کو جیلوں میں 5 اسٹار ہوٹلوں کے لوازمات فراہم کیے گئے نہ 21 ڈاکٹروں کی پلٹنوں کو ایلیٹ کی نگہداشت کے لیے مقرر کیا گیا نہ برسوں تک کیس چلا کر بالواسطہ طور پر اشرافیہ کی مدد کی گئی ایک طرف 21 ڈاکٹر ہیں دوسری طرف 400 پھانسیاں ہیں۔ یہی انصاف ہے یہی ترقی کا راز ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔