بھارت کے آیندہ عام انتخابات اور مودی کے امکانات

شکیل فاروقی  منگل 26 مارچ 2019
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا انسانیت سوز سلسلہ نہ صرف انتہائی بے رحمی اور سفاکی کے ساتھ جاری ہے بلکہ ہر روز اس کی شدت اور بربریت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پلوامہ واقعے اور بعدازاں پاک بھارت تصادم اور تناؤ کے بعد اس میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

یہ صورتحال بے حد پریشان کن اور انتہائی تشویش ناک ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ بھارت مودی سرکار کی پاکستان مخالف پالیسیوں اور کارروائیوں کی پے درپے ناکامیوں کا سارا غصہ مظلوم اور نہتے کشمیریوں پر نکال رہاہے۔ گویا کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔ مودی سرکار اور اس کے زیر اثر شدت پسند پاکستان کے ہاتھوں منہ کی کھانے کے بعد اپنے ہوش و حواس گم کر بیٹھے ہیں اور وہ اپنی خفت مٹانے اور آیندہ عام انتخابات میں پاکستان کارڈ کو بھرپور استعمال کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑنے کے درپے ہیں۔

یہ سب کچھ اس بھارت میں ہو رہا ہے جو دنیا بھر میں اپنے سیکولرزم اور امن پسندی کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے اور بڑے فخر سے یہ کہہ کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی مسلسل کوشش کرتا پھر رہا ہے کہ ’’ہم اس دیش کے باسی ہیں جس دیش میں گنگا بہتی ہے‘‘۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں ہولی عام رنگوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں کے خون سے کھیلی جا رہی ہے۔ سب سے قابل مذمت اور انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ چند بکاؤ اور ضمیر فروش بھارتی مسلمان میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کی پیروی کرتے ہوئے مودی سرکار اور بی جے پی کے زرخرید غلاموں کا کردار ادا کرکے مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں۔

نہتے، بے گناہ اور مظلوم کشمیری نوجوانوں کو گرفتار، زد و کوب اور قتل کرکے بھارت کے ظالم اور جابر حکمران اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آزادی کے متوالے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبانے اور کچلنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یہ ان کی بھول اور خودفریبی ہے۔ گزشتہ سات عشروں کا طویل عرصہ اس خام خیالی کو جھٹلانے کے لیے کافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت کے بڑھتے ہوئے ظلم و تشدد سے مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کے جذبات کے شعلے سرد ہونے کے بجائے مزید بھڑکیں گے۔ کیونکہ بقول اقبال:

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں

نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

غاصب بھارتی حکمرانوں کو جان لینا چاہیے کہ آزادی اب کشمیریوں کا مقدر بن چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کا مقدمہ روز اول ہی سے کمزور ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ یہ قبضہ قطعی ناجائز اور جابرانہ ہے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے الحاق کی دستاویز پر دستخط سے پہلے بھارت کشمیر میں کوئی مداخلت کرے لیکن بھارت نے ان کی اس ہدایت پر کوئی عمل نہیں کیا۔ اس کے بجائے بھارت نے مہاراجہ کی اجازت کے بغیر کشمیر میں اپنی فوجیں بھیج کر مداخلت اور جارحیت کا ارتکاب کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے جموں اور کشمیر میں فوجی مداخلت کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرائے تھے۔

تب سے آج تک بھارت کشمیر کے حوالے سے یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرکے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کر رہا ہے کہ کشمیر پر اس کا دعویٰ مہاراجہ ہری سنگھ کی الحاقی دستاویز کے تحت ہے جوکہ سراسر حقیقت کے منافی اور کورا جھوٹ ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزی کرکے بھی بھارت قانون کی خلاف ورزی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں کے حوالے سے کبھی بھی مخلص نہیں رہا۔ اس لحاظ سے اس کی حیثیت ایک جابر اور جارح ملک کی ہے۔

چنانچہ بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اس حوالے سے بھارت کے ایک سابق وزیر داخلہ گلزاری لال نندا کے اس بیان کا بھی حوالہ دیا جاسکتا ہے جو انھوں نے Central Labour Laws (Extension of Jammu & Kashmir) Bill پیش کرتے ہوئے بھارتی لوک سبھا میں کہا تھا کہ اس بل کا مقصد حکومت کی جانب سے جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو آہستہ آہستہ ختم کرنا ہے جس کے بعد جموں اور کشمیر کی حیثیت دیگر ریاستوں جیسی ہوجائے گی۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے ارادے شروع ہی سے بدنیتی پر مبنی تھے۔ بھارت جو دنیا بھر میں جمہوریت کا دعویدار ہونے کا ناٹک رچا رہا ہے عملاً بدترین فسطائیت Fasicsm کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایک جانب وہ کشمیریوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ڈھا رہا ہے تو دوسری جانب وہ ان کی آواز کو دبانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کر رہا ہے۔ جموں کشمیر نیشن فرنٹ (JKLF) پر لگائی گئی حالیہ پابندی اس سلسلے کا تازہ ترین ثبوت ہے، لیکن حریت پسندوں کی آواز کو دبانا اب ممکن نہیں۔ بقول شاعر:

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر

لہو پکارے گا آستیں کا

فاشزم (Fasicsm) کا مطلب محض آواز حق کو کچلنا نہیں ہے۔ جھوٹ پر جھوٹ بولنا بھی Fasicsm میں شامل ہے۔ اس لحاظ سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سب سے بڑے Fasicst(فاشسٹ) کہلانے کے مستحق ہیں۔ وہ اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے اپنے تمام مخالفین کو ملک کے غدار قرار دے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک اختلاف رائے ملک سے غداری ہے۔

2014 میں وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد سے ہی مودی نے اپنی آیندہ الیکشن مہم کا آغاز کردیا تھا۔ گزشتہ 5 مارچ کو انھوں نے اپنے ایک بھاشن میں بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کے لیڈروں کو پاکستان کے پوسٹر بوائز (Poster Boys) تک کہہ ڈالا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہاں بھارت میں مودی کو گالیاں دیتے ہیں اور اس کے بعد پاکستان میں اپنے حق میں تالیاں بجواتے ہیں۔ پاکستان کارڈ دراصل مودی کی موجودہ الیکشن مہم کا سب سے بڑا حربہ اور سیاسی کھیل کا ٹرمپ کارڈ ہے۔

اس سے قبل بھارت کے صوبے گجرات کی اسمبلی کے الیکشن کی مہم کے دوران ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے بھی مودی نے پاکستان کارڈ استعمال کرتے ہوئے یہ بھونڈا الزام لگایا تھا کہ پاکستان گجرات اسمبلی کے انتخابات میں دخل اندازی کر رہا ہے۔ مودی سرکار کے اشارے پر بھارتی فضائیہ کا بالا کوٹ پر حالیہ ناکام حملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ مودی جی اپنی پروپیگنڈا مہم پر بھارتی جنتا کی خون پسینے کی کمائی بے دھڑک خرچ کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ممبئی کی لوکل ریل گاڑیوں کو اپ گریڈ کرنے کے منصوبے پر مہاراشٹر سرکار نے بڑے پیمانے پر اشتہاری مہم چلائی تھی جس میں مودی کی تصویروں کو نمایاں طور پر چھاپا گیا تھا۔

اسلام دشمنی مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی کا دوسرا مکروہ حربہ ہے جسے آر ایس ایس کی پشت پناہی حاصل ہے چنانچہ اب آر ایس ایس اور بی جے پی بنارس کی ’’گیان واپی‘‘ مسجد کو شہید کرنے کا مذموم منصوبہ بنا رہے ہیں حالانکہ 12 اکتوبر 1968کو طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت اس مسجد کے وجود کو تسلیم کرلیا گیا تھا۔ اس موقع پر 23 مارچ 1940 کی قرارداد پاکستان کے حوالے سے یہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے کہ ہندوؤں کی عدم برداشت نے ہی قائد اعظم کے زیر قیادت برصغیر کے مسلمانوں کو یہ سمجھنے پر مجبور کردیا تھا کہ ہندو راج میں مسلمانوں کے حقوق پامال کردیے جائیں گے۔

پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینے اور میڈیا کے ذریعے جھوٹ کا پروپیگنڈا کرنے کے باوجود بی جے پی کا سیاسی ستارہ گردش میں نظر آرہا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت بھارت کی سب سے گھنی آبادی والے صوبے اترپردیش میں اس کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ ہے۔ بہوجن سماج پارٹی(BSP) کی روح رواں دلت سیاستدان مایا وتی اپنی کمر کس کر بھارت کے آیندہ عام انتخابات میں مودی کے خلاف اکھاڑے میں اتر چکی ہیں۔ انھوں نے ہر قیمت پر مودی اور ان کی جماعت بی جے پی کے دانت کھٹے کرنے کا اٹل فیصلہ کرلیا ہے۔

یہ طے بات ہے کہ اگر بی جے پی اترپردیش میں چناؤ ہار جاتی ہے تو پھر اس کا پورے بھارت میں جنازہ نکلنا یقینی ہے۔ بھارت کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں اکیلے اترپردیش کی سیٹیں سب سے زیادہ ہیں جن کی کل تعداد 80 ہے۔ ادھر مغربی بنگال میں ممتا بینرجی جب کہ دہلی میں اروند کجریوال بھی مودی کی بی جے پی کو ٹف ٹائم دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔