بدعت کی روک تھام اور پیشے کی حرمت

سعد اللہ جان برق  منگل 26 مارچ 2019
barq@email.com

[email protected]

اب تو سنا ہے ’’نیب‘‘ والوں نے وہ کام سنبھال لیاہے جس کی ہمیں ’’چنتا‘‘ ہورہی تھی کیونکہ ہم دیکھ رہے تھے کہ پاکستان کے کچھ لوگ اور ادارے بری طرح ’’کام کرنے‘‘ کی بدعت میں مبتلا ہورہے ہیں اور اپنا ’’پشتنی پیشہ‘‘چھوڑ کر ننگ خاندان ثابت ہورہے ہیں اور اگر یہ’’کام کرنے‘‘ کا رجحان اسی طرح بڑھتارہا تو ایک دن خدانخواستہ وہ بھی آجائے گا جب لوگوں کو’’کام کرنے‘‘کی بری لت پڑجائے گی اور ملک میں اپنے قدیمی معززانہ پیشے کا وجود تک باقی نہیں رہے گا جو ہماری پہچان ہے، ہمارا نشان ہے اور مان وسمان ہے۔

اس معزز پیشے اور ملکی قومی اور وطنی قابل فخر پیشے کے بارے میں ہم نے آپ کو ایک حکایت تو سنائی تھی لیکن آپ کی سمجھ دانی اور یاداشت دانی پر ہمیں پکاپکا بھروسہ ہے کہ گجنی کے عامر خان سے بھی اعلیٰ درجے کی ہے، اس لیے دوبارہ دہرانے میں کوئی حرج بھی نہیں بلکہ موضوع کے اعتبار سے یہ حکایت نہایت ہی حسب حال، حسب ضرورت اور حسب مضمون ہے۔

قبیلہ خیرماراں اور سرداربھکاریاں کشکول گل کشکول کے گھر سے بے تحاشا شوروغل اور ٹکاٹک لٹالٹ اور ٹساٹس کی آوازیں بلند ہوئیں اور ساتھ نہایت ہی باوضو گالیوں گھونسوں کے پس منظر میں چیخوں کی صدائیں بھی سننے میں آئیں۔تو پڑوسی’’خیردین خیرمار‘‘ دریافت حال کے لیے پہنچا ، کیادیکھتاہے کہ اس کا پڑوسی سردارکشکول گل کشکول اپنے جواں جہاں بیٹے پر بے تحاشا لاٹھیاں برسارہا اور اس کا بیٹا مجبورجان کبھی ایک کونے میں اور کبھی دوسرے کونے میں ہائے وائے کرکے پناہ لینے میں مصروف تھا۔

خیردین خیرمار نے جھپٹ کر کشکول گل کشکول کی لاٹھی پکڑکر اسے روکا اور شانت ہونے کی کوشش کرنے لگا، کافی دیر بعد جب کشکول کا میٹر کچھ نیچے ہوگیا تو ’’خیرمار‘‘ کے اس اصرار پر یوں محوگفتار ہوگیا۔اور اپنے بیٹے مجبورجان محروم کے بارے میں دس بارہ بے وضو گالیوں میں لپیٹ کر انکشاف کیا کہ اس نے خاندانی پیشے کو اپنے آباواجداد اور قوم کے وقار کو مٹی میں ملانے کی کوشش کی ہے۔خیرمار کے پوچھنے کشکول گل کشکول نے کہا کہ آج میں نے اس ناہنجار، نابکار اور غدار کو اپنی ان بے گناہ بے خطا آنکھوں خاندانی پیشے اور قومی وقار کو مٹی بلکہ گوبر بلکہ گٹر میں ملاتے ہوئے دیکھا ہے کہ اس نے ایک مسافر کا سامان بس کی چھت پر چڑھایا اور اس نے اسے اجرت دی۔ ہائے میں مرکیوں نہ گیا بس کے نیچے آکر چپلی کباب کیوں نہیں ہوگیا اور یہ ننگ خاندان،  ننگ قوم،ننگ ملت اسی جگہ چٹ پٹ کیوں نہیں ہوگیا۔ خیرمار نے کچھ کہنا چاہا لیکن کشکول نے روکتے ہوئے کہا، ذرا دیکھو سوچو سمجھو آج اس نے ایک مسافر کا سامان بس پر چڑھایا،کل کو اسی بری عادت میں مبتلا ہوکر باقاعدہ مزدوری کرنے لگے گا اور خاندان، قوم اور خاندانی باعزت پیشے کو رسوا  کردے گا۔ہمارا خاندان ایک جدی پشتی اور تاریخی بھکاری خاندان ہے اور میرے پاس باقاعدہ شجرہ موجود ہے کہ

’’سترپشت‘‘ سے ہے پیشہ’’آباگداگری

کوئی بھی کام باعث عزت نہیں ہمیں

خیرمار نے کشکول گل کشکول سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے اپنے پیشے کی عزت،حرمت اور قدامت پر روشنی ڈالتے ہوئے مجبورجان محروم کو ملامت کیا اور پھر پوچھا کہ آخر ایسی کیا مجبوری آن پڑی تھی کہ تم نے آبائی پیشے کوبٹہ لگاتے ہوئے اس جرم عظیم کا ارتکاب کیا۔

مجبورجان محروم نے بیان صفائی دیتے ہوئے کہا کہ اس دن اڈے کے قلیوں اور مزدوروں نے سامان چھوڑ ہڑتال کی ہوئی تھی اور وہ اڈے کے ’’ان‘‘ اور آوٹ پر بیٹھ کر باہر کے باربرداروں کو بھی اندر نہیں آنے دے رہے تھے، میں تو معمول کی ڈیوٹی پر تھا اور مجھ پر اور میرے پیشے پر ان کو مکمل یقین تھا، اس لیے اندر جانے دیا گیاتھا، اچانک وہ بوڑھا آدمی رکشے سے اترا رکشے والے نے سامان نیچے پھینکا اور کرایہ لے کر یہ جا وہ جا ہوگیا۔اس بوڑھے مسافر میں اتنا دم بھی نہیں تھا کہ خود کو بس پر چڑھاسکے، میں تو بھیک مانگنے اس کے قریب گیا لیکن اس کی منت زاری سے مجبور ہوکر میں نے سامان بس پر چڑھادیا اور اس نے مجھے مزدوری پکڑا دی، مجھے کیاپتہ تھا کہ باباجی دیکھ لے گا۔

اس پر باباجی نے پھر لاٹھی گھمائی اور بولا ،کم بخت اگر وہ مزدوری دے بھی رہاتھا تو وہیں پھینک دیتے اور اس’’مال حرام‘‘ کو قبول کرکے اپنے پیشے کو رسوا نہ کرتے۔خیردین خیرمار کے بہت سمجھانے پر سردارکشکول گل کشکول مان گیا ورنہ وہ تو اپنے اس غدارقوم ننگ خاندان،ننگ دیں ننگ ملت بیٹے کو گھربدر،پیشہ بدر دنیابدر کرنا چاہتا تھا۔اس کا موقف درست بھی تھا، کسی چیز کی لت بہت بری چیز ہوتی ہے اور عادت اس سے بری اور محنت تو سب سے بری بلکہ برائی کی ماں ہے۔

کہانی آپ نے سن لی لیکن اپنی خالی کھوپڑی کو’’سوچ‘‘ سے تھکانے کی ضرورت نہیں بلکہ آگے آگے دیکھیے ہوتاہے کیا۔خدا کے فضل، بزرگوں کی دعاؤں، لیڈروں کی محنت اور حکومتوں کی دیانت سے۔اور ساتھ ہی امریکا کی آشیرواد، آئی ایم ایف کی امداد اور این جی اوز کی بہتات کے باعث اپنے یہاں بھی نظریہ کشکول گل کشکول مکمل طور پر نافذ اور زیر عمل تھا۔ اداروں میں لیڈروں اور وزیروں اور منتخب نمائندوں نے ’’چن‘‘ کر ایسے دانے بھرے ہوئے تھے جن کو سب کچھ آتاتھا۔سوائے کام کرنے کے۔

ہم صرف ایک مثال دیتے ہیں حالانکہ ہر ہر جگہ جہاں کام کرنے کا شبہ ہو یہ سلسلہ چل رہاہے لیکن اس میں خطرناک خطرناک خطرناک مقام’’کرک‘‘ تھا جہاں کم بختوں نے قومی روایات کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے تیل اور گیس کے ذخائر دریافت کرلیے۔ذرا سوچیے یہ کتنا بڑا انرتھ ہوجاتا۔ملک تیل میں خودکفیل ہوجاتا اور ہمیں اپنا قابل فخر خاندانی پیشہ چھوڑ کرکام کا چسکہ پڑجاتا۔اور اپنے بہت سارے دوستوں شاہوں بادشاہوں ولی عہدو کی دوستی بلکہ رشتہ کشکول ٹوٹ جاتاہے۔شاباس لگے رہو اور جہاں کہیں بھی ’’کام‘‘ کی بدعت دکھائی دے ملیامیٹ کردو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔