کیا تاریخ واقعی خود کو دہراتی ہے ؟

سعد اللہ جان برق  بدھ 27 مارچ 2019
barq@email.com

[email protected]

حالانکہ بہت سے لوگ اس بات کو نہیں مانتے، علی عباس جلالپوری نے تو اس پر فلسفیانہ تردیدی مہر لگائی ہے لیکن شعراء کی طرف سے بھی’’نہ مانوں‘‘ کا سلسلہ ہے جیسے:

جھوٹ ہے سب کچھ کہ تاریخ اپنے کو دہراتی ہے

اچھا؟تومیرا’’خواب جوانی‘‘تھوڑاسا دہرائے تو؟

لیکن ہم تو ’’محقق‘‘ ہیں کسی کے طرف دار نہیں ہیں، اس لیے اس پر اپنے ’’خچرراہ‘‘ یعنی ٹٹوئے تحقیق کو دورڑا کر دیکھتے ہیں۔

اسے بس ہماری خوش قسمتی سمجھیے کہ ہم نے آج کل کے حالات پر تھوڑا سا غور کیا اور پھر تاریخ میں غوطہ لگایا تو یہ موتی ہاتھ لگا کہ اگرچہ یہ بات تھوڑی سی رسوائی کی ہے لیکن بالکل سچ ہے کہ ’’تاریخ‘‘اپنے آپ کو نہ صرف دہراتی ہے بلکہ اپنے آپ کو دہرانے کا باقاعدہ مرض اسے لاحق ہے۔

ہم آپ کو ’’شاہنامہ فردوسی‘‘کی ٹائم مشین میں بٹھا کر اس وقت میںلے چلتے ہیں جب ’’ضحاک‘‘ نامی ظالم بادشاہ کی حکومت تھی اور اس کے دونوں کاندھوں پر شیطان نے بوسہ دیا تھا اور پھر ان کندھوں پر دو سانپ اگ آئے تھے، جسے وہ روزانہ دو انسانوں کی کھوپڑیاں توڑ کر ’’مغز‘‘ نکالتا تھا اور ان دو سانپوں کو کھلاتا تھا۔ اور پھر اس نے ایک دن ’’کاوہ‘‘ نام کے ایک لوہار کے دو بیٹوں کو بھی مار کر ان کا مغز ان سانپوں کو کھلایا، اس پر کاوہ لوہار نے اپنی دھونکی کو جھنڈا بنا کربغاوت کا علم لہرایا۔ دھونکی کو فارسی میں ’’درفش‘‘کہتے ہیں اس لیے کاوہ ’’کے‘‘ اس دھونکی پر مشتمل جھنڈے کا نام ’’درفش کاویانی‘‘ پڑگیا اور پھر تین چار ہزار سال سے اسی نسبت سے ایران کے جھنڈے کا نام پڑگیا۔ تازہ صورت حال کا علم نہیں لیکن ’’شاہ ایران‘‘ تک ایران کا قومی جھنڈا درفش کاویانی کہلاتاتھاجیسے ہمارے جھنڈے کا نام ’’پرچم ہلالی‘‘ہے بھارت کا ’’ترنگا‘‘ہے اور برطانیہ کا یونین جیک ہے۔

یہ تو فردوسی کی اساطیری کہانی تھی لیکن اس پر جب ہم نے تحقیق کا ٹٹو دوڑایا تو بات کچھ اور نکلی۔ ضحاک دراصل کوئی بادشاہ نہ تھا بلکہ ’’اساک خانہ بدوشوں‘‘کا ایک ہزار سالا دور حکومت تھا۔ ان گھوڑے والے اساکوں نے جمشید کی حکومت ختم کی تھی لیکن کہانیوں میں اساک لوگوں کی جگہ ’’ضحاک‘‘ نام کا بادشاہ بنایا گیا۔ دراصل ایرانی اور اساک ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے۔

اس لیے اساطیر میں ان کو اہرمن کی پیدا کردہ ظالم دیووں اژدھوں اور بچھوؤں کا نام دیا گیا ہے۔ اب اس ’’کاوہ لوہار‘‘ کی بغاوت پر آتے ہیں ’’لوہار لوگ‘‘ خانہ بدوش اساکوں کے پارٹنر تھے کیونکہ ان کے لیے اسلحہ، زربیں، آہنی ٹوپیاں گھوڑوں کے لیے نعل اور بہت سارا ’’جنگی سامان‘‘ بناتے تھے۔ اور اپنا حصہ پاتے تھے۔ لیکن جب جنگ جوؤں نے بلخ و باختر پر حکومت قائم کی اور چنگیزخان کی جگہ بہادر شاہ ظفر بن گئے، تو بچارے ’’لوہار‘‘ بے کار بے روزگار اور خدائی خوار ہو گئے۔ وہ اساکوں کو اپنی پارٹنر شپ یاد دلا کر مانگتے تھے اور وہ نہیں دیتے تھے چنانچہ ان کی دکانیں سرد پڑگئیں، آخر کہاں تک معمولی آلات اور گھریلو سامان پر گزارہ کرتے۔ آخرکار تنگ آ کر انھوں نے اپنی ’’دھونکی‘‘ کو جھنڈا بنا کر بغاوت کی، ان کا مقصد حکومت حاصل کرنا نہیں تھا کیونکہ اس بغاوت کے بعد حکومت جمشیدی خاندان کے ایک شہزادے فریدون کو ملی۔

لوہاروں کا مقصد و مرام تو جنگ اور اسلحے کی مانگ بڑھانا تھا کہ ان کا بھی کاروبار چلے اور وہ چل گیا۔ دونوں اطراف سے جنگ جو میدان میں آ گئے، وسیع پیمانے پر۔ لوہاروں نے اپنی ’’دھونکیاں‘‘ گرما کر مال تیار کرنا شروع کر دیا۔ اور ان کے وارے نیارے ہو گئے کیونکہ دونوں فریق اسلحہ ان سے بنواتے اور چلاتے تھے بلکہ اس سے دونوں فریقوں میں ایک ایسی طویل جنگ کا آغاز ہوا جو صدیوں تک مختلف خطوں میں پھیلتی اور لڑی جاتی رہی۔ یہ مرتے یا وہ مرتے لوہاروں کو اس سے کیا۔ ان کو تواپنا مال بیچنا تھا وہ بک رہاتھا۔ہماری غیرجانبدارانہ تحقیق کے مطابق اصل حقیقت یہ تھی باقی جو کچھ بھی دیکھا جھوٹ تھا اور جو سنا افسانہ تھا۔ بعد میں اس طویل اور وسیع جنگ کا دائرہ پھیل کر ’’سولہ زمینوں‘‘ تک پھیل گیا۔

ان سولہ جنگوں کی پوری تفصیل بھی کتابوں میں درج ہے۔ جو اساطیری روایات کے مطابق خدائے خیر ’’آہورمزدا‘‘ یعنی یزدان نے ایرانیوں کے لیے بنائیں تھیں جو ہر قسم کی نعمتوں سے بھرپور تھیں۔ لیکن درمیان میں شر یا شیطان نے سولہ خراب اور شر پسند زمینیں بنا کر مقابلہ کیا۔ ان سولہ زمینوں کا نام بنام بھی ذکر ہے جن میں ایرانیوں سے ’’اژدھاک‘‘ برسر پیکار تھے۔ ان سولہ زمینوں کے ناموں کا جو تجزیہ ایرانی اور افغانی علمائے تاریخ نے کیا ہے۔ اس کے مطابق۔ یہ علاقے بحیرہ کیسپین سے ’’ہتیہ ہندو‘‘ یا سپتہ سندھو یعنی ساتویں دریا سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ مجموعی طور پر ان جنگوں کو ’’ایرانی تورانی‘‘ جنگوں کا نام بھی دیا جاتا ہے اور انھی میں پہلوان، نریمان زال رستم اور سہراب کے نام آتے ہیں جو ’’شاہ توران افراسیاب‘‘ سے ہوئی تھیں۔

سہراب کو افراسیاب نے پال پوس کر پھر اپنی بیٹی دے کر اپنے باپ رستم کے مقابل کیا تھا۔ خیر یہ تو اساطیری رنگین بیانیاں ہیں لیکن اساک خانہ بدوشوں اور شہری ایرانیوں کی ’’جنگ‘‘ ایک حقیقت ہے جس میں لوہاروں کا بنایا ہوا اسلحہ نہایت اہمیت رکھتاہے کیونکہ لوہا اور دھاتیں نئی نئی دریافت ہوئی تھیں اور ان کو پگھلانے، اسلحہ بنانے کا کام صرف ’’لوہاروں‘‘ کو آتا تھا۔ بجائے خود لوہا بھی سونے سے کم قیمتی نہیں تھا، ہمارا کام تو تحقیق ہے وہ ہم نے کر لی ’’کاوہ لوہار‘‘ اور اس کی دھونکی کا ذکر بھی ہوا۔ اس سے آگے اب فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں۔ کہ آیا ’’تاریخ‘‘ اپنے آپ کو دہراتی ہے یا نہیں بلکہ یوں کہیے کہ تاریخ میں ’’لوہار‘‘ اپنے آپ کو دہراتے ہیں یا نہیں بلکہ اب تو ’’لوہار‘‘ کہنا بھی مناسب نہیں کہ لوہار تو اور بھی بہت ساری مفید چیزیں بناتے ہیں، اگر خنجر بناتے ہیں تو نشتر بھی بناتے ہیں، اس لیے لوہاروں کو بھی تقسیم کر کے دیکھنا چاہیے۔ ایک تو عام لوہار جو عام چیزیں بناتے ہیں اور دوسرے وہ ’’لوہار‘‘ ۔ اب اس سے آگے کیا بتائیں خود دیکھیے کہ تاریخ اپنے آپ کو کیسے کیسے دہراتی ہے:

کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضاء دیکھ

مشرق میں ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔