تحریک انصاف میں نئے اور پرانے کارکنوں کی تقسیم کا خاتمہ بڑا چیلنج

رضوان آصف  بدھ 27 مارچ 2019
آج انہی پرانے ساتھیوں میں سے بہت سے لوگ عمران خان اور اس کی حکومت کی عدم توجہ اور نظر اندازی کا شکار ہیں۔ فوٹو: فائل

آج انہی پرانے ساتھیوں میں سے بہت سے لوگ عمران خان اور اس کی حکومت کی عدم توجہ اور نظر اندازی کا شکار ہیں۔ فوٹو: فائل

 لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے 23 سالہ سیاسی سفر کو تین حصوں میں دیکھنا چاہیے کیونکہ آج دکھائی دینے والی تحریک انصاف اور 25 اپریل1996 ء میں جنم لینے والی پارٹی میں بہت فرق ہے۔

عمران خان نے 23 برس قبل جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو ان کے ساتھ بہت کم لوگ تھے لیکن جتنے بھی تھے وہ سچے، مخلص اور نظریے کے ساتھ وفادار تھے۔ ان میں مرحوم احسن رشید، مرحومہ سلونی بخاری، حامد خان، سابق جنرل سیکرٹری پنجاب امین ذکی، مظہر ساہی، منزہ حسن، میجر(ر) مجیب احمد، جاوید حیدر گردیزی، ڈاکٹر کامران قادر،خالد ظفر سانسی، سجاد حیدر، جمیل شاہ، شبیر سیال،خیبر پختونخوا سے شاہ فرمان، اسد قیصر، سندھ سے ڈاکٹر عارف علوی، دعا خان، فردوس نقوی اور نجیب اللہ ہاورن سمیت دیگر رہنما شامل ہیں۔

ابتدائی سالوں میں تحریک انصاف کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی اجارہ داری تھی اور یہ دونوں پارٹیاں باریاں لے رہی تھیں۔1997 ء میں عام انتخابات میں تحریک انصاف کے تمام امیدوار ہار گئے تو بہت بڑی تعداد میں لوگ تحریک انصاف کو چھوڑنے لگے، موجودہ صوبائی وزیر ہاوسنگ پنجاب میاں محمود الرشید بھی اسی دور میں تحریک انصاف سے چلے گئے تھے اور پھر ایک دہائی کے بعد ان کی دوبارہ پارٹی میں واپسی ہوئی تھی۔

الیکشن ہارنے کے بعد عمران خان نے اپنے کئی سیاسی ساتھیوں کو یہ کہا تھا کہ میں الیکشن ہار چکا ہوں اور لوگ چھوڑ کر جا رہے ہیں آپ میں سے کوئی جانا چاہے تو جا سکتا ہے میں شکوہ نہیں کروں گا لیکن عمران خان کے قریبی ساتھیوں نے اس مشکل وقت میں کپتان کو اکیلے نہیں چھوڑا تھا اور آج انہی پرانے ساتھیوں میں سے بہت سے لوگ عمران خان اور اس کی حکومت کی عدم توجہ اور نظر اندازی کا شکار ہیں۔ 2002 ء کے الیکشن میں تحریک انصاف نے زیادہ ووٹ حاصل کیئے لیکن قومی اسمبلی کی ایک ہی نشست جیت سکی جہاں عمران خان کامیاب ہوئے تھے۔

2002 ء کے الیکشن نتائج کے بعد ایک مرتبہ پھر موسمی پرندوں نے تحریک انصاف کو چھوڑنا شروع کردیا تھا لیکن 2004 ء میں تحریک انصاف دوبارہ سنبھلنا شروع ہوئی اور نئے لوگوں کے ساتھ ساتھ چھوڑ جانے والے بھی واپس آنے لگے، 2007 ء میں اعجاز چوہدری نے بھی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور انہیں جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کا کوآر ڈینیٹر مقرر کیا گیا تھا۔ تحریک انصاف نے عدلیہ بحالی تحریک کے تناظر میں 2008 ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا تھا۔

تحریک انصاف کی فیصلہ کن اڑان 30 اکتوبر2011 ء کو مینار پاکستان میں ہونے والے تاریخ ساز جلسہ سے شروع ہوئی۔ اس جلسہ نے پاکستانی سیاست کا انداز ہی تبدیل کر ڈالا۔ مینار پاکستان جلسہ کے بعد تحریک انصاف بہت تیزی کے ساتھ ایک مضبوط سیاسی پارٹی بننا شروع ہوئی۔ لاکھوں کی تعداد میں نئے کارکن بنے تو سینکڑوں کی تعداد میں اپنے اپنے علاقوں اور حلقہ انتخاب کی معروف شخصیات بھی تحریک انصاف میں شامل ہوئیں۔ عمران خان کے بعد تحریک انصاف میں سب سے بااثر اور متحرک رہنما سمجھے جانے والے جہانگیر ترین اور کپتان کے پنجاب میں سٹار کھلاڑی عبدالعلیم خان، موجودہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور سابق وزیر اعلی کے پی کے پرویز خٹک بھی اسی جلسے کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔

باغی سے داغی تک کا سفر کرنے والے جاوید ہاشمی نے بھی تحریک انصاف میںا سی دور میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اپنے آغاز سے لیکر آج تک تحریک انصاف کو تنظیمی معاملات میں چیلنجز اور اختلافات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔2011 ء کے جلسہ سے پہلے چونکہ پارٹی میں کارکنوں اور رہنماوں کی تعداد کم تھی لہذا لڑائی جھگڑے منظر عام پر کم آتے تھے جبکہ عہدوں کی لڑائی کا فیصلہ بھی ’’کچھ تیرا کچھ میرا ‘‘ کے فارمولہ کے تحت کر لیا جاتا تھا لیکن 30 اکتوبر کے بعد جب بڑی تعداد میں کارکن اور رہنما پارٹی میں شامل ہوئے تو پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی ۔ پرانے رہنما اور کارکن جو کہ خود کو’’نظریاتی‘‘ کہلواتے تھے انہوں نے نئے آنے والوں کے خلاف محاذ بنا لیا ۔

مکمل غیر جانبداری کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ نئے آنے والے بعض رہنماوں نے پرانوں کی نسبت زیادہ محنت کی اور اپنی اسی محنت کے نتیجہ میں وہ عمران خان کی نگاہوں میں مقام بنانے میں کامیاب رہے جو کہ کچھ پرانوں کو ہضم نہیں ہوا تھا ۔کسی بھی سیاسی جماعت میں ’’سب اچھا‘‘ نہیں ہوتا، باہمی اختلافات بھی ہوتے ہیں، دھڑے بندیاں بھی بنتی ہیںاور ایکدوسرے کی ٹانگ بھی کھینچی جاتی ہے لیکن تحریک انصاف میں یہ معاملہ کچھ زیادہ ہی سنگین دکھائی دیتا ہے جہاں سیاسی اختلاف رائے کو ذاتی عناد اور انا کی جنگ سمجھا جاتا ہے۔2012/13 ء میں عمران خان نے انٹرا پارٹی الیکشن کاا علان کیا۔

حامد خان کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تو انہوں نے جہانگیر ترین کو الیکشن لڑنے سے روکنے کیلئے یہ رول بنا دیا کہ پارٹی چیئرمین اور سیکرٹری جنرل ایک صوبے سے نہیں ہو سکتے جبکہ حامد خان نے فوزیہ قصوری کو الیکشن سے روکنے کیلئے یہ رول بنا دیا کہ غیر ملکی شہریت والا بندہ پارٹی الیکشن نہیں لڑ سکتا ۔ جہانگیر ترین نے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر پرویز خٹک کی حمایت کر کے ڈاکٹر عارف علوی کو شکست کروا دی۔

اس انٹرا پارٹی الیکشن میں پرانے رہنماوں اور کارکنوں نے’’نظریاتی گروپ‘‘ اور نئے لوگوں نے’’یونٹی گروپ‘‘ بناکر الیکشن میں حصہ لیا تھا ۔2016 میں جب دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کا وقت آیا تو لاہور میں پرانے رہنماوں کی ایک تقریب میں سیف اللہ نیازی، ڈاکٹر شیریں مزاری، حامد خان وغیرہ کی موجودگی میںشاہ محمود قریشی نے جہانگیر ترین اور چوہدری سرور کے خلاف نامناسب تقریر کی جس کے بعد عمران خان نے پارٹی کو مزید دھڑے بندی سے بچانے کیلئے الیکشن منسوخ کردیا تھا۔

جولائی2018 میں الیکشن جیتنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت تو مشکلات کا شکار ہے ہی مگر بطور سیاسی پارٹی بھی مشکلات بڑھ رہی ہیں، کارکن اور رہنما اپنی ہی حکومت کی عدم توجہ اور نظر انداز کیئے جانے کی وجہ سے ناراض ہیں، حکومتی عہدوں پر تقرریوں کا معاملہ بھی لٹکا ہوا ہے۔ ایسے میں عمران خان نے اپنے قریبی ساتھی سیف اللہ نیازی کو پارٹی کا چیف آرگنائزر مقرر کیا ہے اور انہیں غیر معمولی اختیارات بھی سونپے ہیں۔ سیف اللہ نیازی نے 1998 ء میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی اور تب سے وہ عمران خان کے بہت نزدیک رہے۔

انہیں پارٹی کا ایڈیشنل سیکرٹری جنرل بنایا گیا، بعد ازاں جہانگیر ترین کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے سیف نیازی نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ماضی پر نگاہ ڈالیں تو سیف اللہ نیازی کو ’’نظریاتی گروپ‘‘ کا گاڈ فادر کہا جاتا رہا ہے لیکن ماضی کے برعکس اب سیف اللہ نیازی زیادہ میچور دکھائی دے رہے ہیں۔ اس مرتبہ سیف اللہ نیازی کو غیر جانبداری دکھانا ہو گی گوکہ یہ کافی مشکل ہوگا کیونکہ سیف نیازی کی اپنے گروپ کے ساتھ ایک خاص انسیت اور قربت ہے لیکن اب وہ پوری تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر ہیں اور عمران خان نے بہت بھروسہ اور اعتماد کے ساتھ انہیں یہ ذمہ داری دی ہے۔

سیف اللہ نیازی کو نئے رہنماوں اور کارکنوں کو اپنے قریب لانا ہوگا،ان کا اعتماد خود پر بحال کرنا ہوگا ، تنظیمی عہدوں اور حکومتی عہدوں پر تقرریوں اور نامزدگیوں میں نئے اور پرانے سب کو ملا کر ایک ٹیم بنانا ہی عمران خان کیلئے خوشگوار ہوگا۔ سیف نیازی کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کارکنوں کو اپنی ذات تک رسائی دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سیف نیازی کو جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کے ساتھ ملاقات کر کے پارٹی کے اندر اور باہر یہ پیغام دینا چاہیئے کہ عمران خان کا نیا پاکستان بنانے کی جدوجہد میں ہم سب ایک ہیں اور اب پارٹی میں نئے اور پرانے کی تفریق باقی نہیں رہے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔