دنیا کی روح

عابد محمود عزام  پير 12 اگست 2013

ایک بار فیثا غورث سے کسی نے سوال کیا کہ وقت کی حقیقت کیا ہے؟ فیثا غورث نے جواب دیا، ’’وقت اس دنیا کی روح ہے۔‘‘ کسی دانشور نے ایک بار یاران نکتہ داں سے پوچھا کہ بتاؤ! اس کائنات میں مہنگی ترین چیز کیا ہے؟ کسی نے سونے کو مہنگی چیز کہا، کسی نے ہیرے کو مہنگی شے قرار دیا۔ دانشور کو کسی کا بھی جواب درست نہیں لگا تو خود ہی فرمایا کہ دنیا میں قیمتی ترین شے ’’وقت‘‘ ہے۔ مشہور فرانسیسی فلسفی ادیب والٹیئر نے اپنی کتاب’’زیڈگ۔ تقدیر کا ایک بھید‘‘ میں وقت کے متعلق ایک دلچسپ سوال و جواب کا ذکر کیا ہے۔ کسی نے زیڈگ سے سوال کیا: ’’وہ کون سی چیز ہے جو سب سے زیادہ طویل ہے مگر سب سے مختصر بھی، سب سے تیز رفتار بھی اور سست ترین بھی، سب سے زیادہ تقسیم ہوجانے والی بھی اور سب سے زیادہ کھنچ جانے والی بھی، سب سے زیادہ نظر انداز بھی کی جاتی ہے مگر سب سے زیادہ افسوس بھی اسی کا ہوتا ہے۔

ایسی چیز جو معمولی چیزوں کو ختم کردیتی ہے مگر غیر معمولی چیزوں کو دوام بخش دیتی ہے؟‘‘ زیڈگ نے بلاتردد جواب دیا ’’وقت‘‘ اور مزید کہا:’’وقت سے زیادہ طویل کوئی چیز نہیں کیونکہ یہ ابدیت کا پیمانہ ہے۔ اس سے زیادہ مختصر شے کوئی نہیں، کیونکہ یہ ہماری آرزؤں کی تکمیل کے لیے ہمیشہ ناکافی ثابت ہوتا ہے۔ جو کسی امید کے انتظار میں ہو اس کے لیے اس سے زیادہ سست رفتار کوئی چیز نہیں۔ جو خوشی و مسرت کے لمحات میں ہو اس کے لیے اس سے زیادہ تیز رفتار کوئی شے نہیں۔ طول میں یہ ابدیت تک پہنچتا ہے اور چھوٹا ہونے کی بات ہوتو سیکنڈ کے کروڑویں، اربویں حصے میں بھی تقسیم ہوسکتا ہے۔ ہر شخص اسے نظر انداز کرتا ہے اور سب ہی اس کے ضایع ہونے پر افسوس کرتے ہیں۔ یہ ہر معمولی واقعے کو آیندہ نسل میں منتقل ہونے سے قبل ہی طاق نسیان کے حوالے کردیتا ہے اور ہر ایسے عمل کو لافانی بنادیتا ہے جو واقعی عظیم ہو۔‘‘

قرآن مجید میں جا بجا ’’وقت‘‘ کی قدر و اہمیت کے روشن حوالے ملتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الفجر میں وقتِ فجر اور عشرہ ذوالحجہ کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’فجر کے وقت کی قسم اور دس راتوں کی قسم۔‘‘ سورۃ الضحیٰ میں وقت چاشت کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا: ’’قسم ہے وقتِ چاشت کی اور قسم ہے رات کے وقت کی جب وہ چھا جائے۔‘‘ سورۃ العصر میں عصر کے وقت کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’قسم ہے زمانے کی، انسان خسارے میں ہے۔‘‘

یہ حقیقت ہے کہ گزرا ’’وقت‘‘ واپس نہیں آتا مگر آنے والا ہر لمحہ اور ہر صبح، طلوع ہونے والے سورج کی کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی ’’امید‘‘ کا پیغام ضرور دیتی ہے۔انسان کے پاس سب سے نفیس ترین اور سب سے قیمتی چیز وقت ہی ہے۔ ہم اپنے عمل اور کوشش سے جو بھی حاصل کرنا چاہیں اس کی کامیابی کا راز وقت کے درست استعمال میں ہی پوشیدہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بالکل بجا ہے کہ وقت گزرتے ہوئے واقعات کا ایک دریا ہے، اس کا بہاؤ تیز اور زبردست ہے، جونہی کوئی چیز اس کی زد میں آتی ہے اس کی لہریں اسے اپنے ساتھ بہالے جاتی ہیں۔ پھر اور کوئی شے اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ لیکن وہ بھی اسی طرح بہہ جاتی ہے، صدیاں ریت کے ذروں کی طرح گرتی جاتی ہیں۔

عربی کی مثال ہے’’الوقت سیف قاطع‘‘ وقت کاٹنے والی تلوار ہے۔ حکماء فرماتے ہیں کہ وقت سیال ہے، اسے کسی آن سکون نہیں۔ وقت ہمارے پاس اسی طرح آتا ہے جیسے کوئی دوست چپ چاپ بیش قیمت تحفہ جات اپنے ساتھ لاتا ہے لیکن اگر ہم ان سے فائدہ نہ اٹھائیں تو وہ اپنے تحائف سمیت چپکے سے واپس چلا جاتا ہے اور پھر کبھی واپس نہیں آتا۔ کھوئی ہوئی دولت محنت اور کفایت شعاری سے حاصل ہوسکتی ہے۔ کھویا ہوا علم مطالعہ کے ذریعے پاسکتے ہیں۔ کھوئی ہوئی تندرستی دوا سے مل سکتی ہے لیکن کھویا ہوا وقت لاکھ کوششوں کے باوجود بھی دوبارہ حاصل نہیں ہوسکتا، بعد میں انسان کو یہ سبق حاصل ہوتا ہے’’پن چکی‘‘ اس پانی سے نہیں چل سکتی جو بہہ گیا ہو۔ وقت گزر جانے پر افسوس بے نتیجہ ہے، پھر پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں جُگ گئیں کھیت، وقت کے فوت ہونے پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد ایک جگہ رقمطراز ہیں: ’’عرب کے فلسفی ابوالعلاء معری نے زمانہ کا پورا پھیلاؤ تین دنوں کے اندر سمیٹ دیا ہے۔ کل جو گزر چکا ہے، آج جو گزر رہا ہے، کل جو آنے والا ہے۔ لیکن تین زمانوں کی تقسیم میں نقص یہ تھا کہ جسے ہم ’’حال‘‘ کہتے ہیں وہ فی الحقیقت ہے ہی کہاں؟ یہاں وقت کا جو احساس بھی ہمیں میسر ہے، وہ یا تو ’’ماضی‘‘کی نوعیت رکھتا ہے یا ’’مستقبل‘‘ کی اور انھی دونوں زمانوں کا ایک اضافی تسلسل ہے جسے ہم ’’حال‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ‘‘

یہ سچ ہے کہ ماضی اور مستقبل کے علاوہ وقت کی ایک تیسری نوعیت بھی ہمارے سامنے آتی رہتی ہے۔ لیکن وہ اس تیزی کے ساتھ آتی اور نکل جاتی ہے کہ ہم اسے پکڑ نہیں سکتے، ہم اس کا پیچھا کرتے ہیں، لیکن ادھر ہم نے پیچھا کرنے کا خیال کیا اور ادھر اس نے اپنی نوعیت بدل ڈالی، اب تو ہمارے سامنے ’’ماضی‘‘ ہے جو جاچکا، یا ’’مستقبل‘‘ ہے جو ابھی آیا ہی نہیں، لیکن خود ’’حال‘‘ کا کوئی نام و نشان دکھائی نہیں دیتا، جس وقت ہم نے پیچھا کرنا چاہا تھا وہ ’’حال‘‘ تھا اور جو ہماری پکڑ میں آیا ہے، وہ ’’ماضی‘‘ ہے اور اگر حقیقت حال کو اور زیادہ نزدیک ہوکر دیکھیں تو واقعہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کی پوری مدت ایک صبح شام سے زیادہ نہیں، صبح آنکھیں کھلیں، دوپہر امیدوبیم میں گزری، رات آئی تو پھر آنکھیں بند۔

ہر طلوع ہونے والا دن پکار پکار کر کہتا ہے: ’’اے انسان! میں ایک نوپید مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہے تو کرلے، میں تو اب قیامت تک لوٹ کر نہیں آؤں گا۔‘‘ حدیث میں ہے:’’مومن کے لیے دو خوف ہیں، ایک عاجل ، جو گزر چکا ہے، معلوم نہیں خدا اس کا کیا کرے گا اور ایک آجل جو ابھی باقی ہے، معلوم نہیں اللہ اس میں کیا فیصلہ صادر فرمائے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی طاقت سے اپنے نفس کے لیے دنیا سے آخرت کے لیے جوانی سے بڑھاپے کے لیے اور زندگی سے قبل از موت کچھ نفع حاصل کرلے۔‘‘ وقت سے کام لینے والے اس تھوڑی سی زندگی میں کیا سے کیا بن گئے، اس کے بر خلاف جنہوں نے اپنا وقت ضایع کیا وہ ساری زندگی پچھتاتے رہے۔

الغرض وقت ایک ایسی دولت ہے جو ہر شخص کو یکساں عطا ہوئی ہے۔ جو لوگ اس سرمائے کو معقول طور سے اور مناسب موقع پر کام میں لاتے ہیں،جسمانی راحت اور روحانی مسرت انھیں کو نصیب ہوتی ہے۔ وقت ہی کے صحیح استعمال سے ایک وحشی مہذب بن جاتا ہے، جاہل عالم بنتا ہے، مفلس تونگر بنتا ہے، ناداں دانا بنتا ہے۔ وقت ضایع کرنا ایک طرح کی خودکشی ہے، فرق اتنا ہے کہ خودکشی ہمیشہ کے لیے زندگی سے محروم کردیتی ہے اور اوقات کا ضیاع ایک محدود زمانے تک زندہ کو مردہ بنادیتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔