دوموہنے محاورے

سعد اللہ جان برق  جمعـء 29 مارچ 2019
barq@email.com

[email protected]

بعض الفاظ اور نام یاجملے بڑے ’’سیاسی‘‘ ہوتے ہیں، مطلب یہ کہ جناب ’’شیخ‘‘ کا نقش قدم یوں بھی ہوتا ہے۔ بتاتے کچھ ہیں، دکھاتے کچھ ہیںاور اپنے اندر رکھتے کچھ اور ہیں جیسے مثلاً وہ پرندہ جس کے سر پر پیر ہوتے ہیں کہ آپ ڈھونڈیں گے کوئی ایسا پرندہ جس نے اپنے پیرسر پر رکھے ہوتے ہیں اور وہ سامنے ہی ہوتا ہے اور سر پر پیر بھی رکھتا ہے لیکن پھر بھی کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔

پشتو میں ہمیں بچپن میں ’’بیس انگلے‘‘ سے ڈرایا جاتا تھا، چپ ہو جاؤ ورنہ ’’بیس انگلا‘‘ آ جائے گا۔ یہ کرو وہ نہ کرو ورنہ ’’بیس انگلا‘‘ آکر تجھے اٹھا لے گا اور ’’بیس انگلا‘‘ وہ خود ہوتا تھا بلکہ بچہ بھی ہوتا تھا۔ اس طرح ایک اورعجوبے کابھی ذکر ہوتا تھا یعنی یہ مت کرو ورنہ کانوں کے بیچ ’’سر‘‘ آ جائے گا۔ اچھا یہ بتاؤ وہ کون ہے جس کا سر اس کے کانوں کے بیچوںبیج ہے۔ باز آ جاؤ ورنہ سر کانوں کے بیچ کر دوں گا۔

ایسا ہی ایک جملہ فارسی کا بھی ہے کہ ’’غم نہ داری بز بخر‘‘ یعنی اگر کوئی غم نہیں رکھتے تو بکری خرید لو۔ مطلب تو یہ ہے کہ غموں سے مالامال ہو جاؤ گے کہ ’’بز‘‘ تمہیں بزدار کر کے غموں کا پینڈورا بنا دے گی، اور اسی مطلب کو لے کر منشی پریم چند نے اس پر ایک افسانہ بھی لکھا ہے کہ ’’غم نہ داری بزبخر‘‘۔۔۔ اور پھر اس نے اپنا بکری خریدنے اور اس کے آفٹر شاکس یا سائیڈ ایفکٹ کی تفصیل بتائی ہے، بکری کے لیے پتے توڑتے ہوئے اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی لیکن کلائمکس یہ نہیں بلکہ یہ تھا کہ پڑوس والوں نے باقاعدہ نوٹس دیا کہ یا تم  یہاں رہو گے یا تمہاری ’’بز‘‘ یعنی بکری رہے گی جو ہر وقت  کسی لیڈر کی طرح ’’بیان بیان‘‘ کرتی رہتی ہے لیکن اسی جملے ’’غم نہ داری بزبخر‘‘سے ایک اور شخص نے کچھ اور مطلب لیا تھا کیوں کہ ’’بہ خر‘‘ کا مطلب ’’خریدو‘‘ بھی ہوتا ہے اورگدھے یعنی ’’خر‘‘ کے اوپر بھی ہوتا ہے۔

بخر اور بہ خر کے اس جملے کا دوسرا مطلب جس نے لیا تھا اس کے پاس ’’بز‘‘ اور ’’خر‘‘ پہلے سے موجود تھے، ڈھونڈنے یاخریدنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ یوں کہئے کہ منشی پریم چند نے پڑوسیوں کے لیے نوٹس دینے پر ’’بز‘‘ یعنی بکری بیجنا چاہی، منڈی دور تھی لیکن جب اس نے بکری کا رسہ کھول کر لے جانا چاہا توبکری نے تعاون سے صاف انکارکر دیا، اپنے پاؤں ’’سیخ‘‘ کر کے کھڑ ی ہو جاتی تھی، وہ جب رسی کھینچتا تو گلے پر زور پڑ جاتا اور وہ ’’دھرنا‘‘ دے بیٹھتی تھی، پھر اسے ’’غم نہ داری بز  بخر‘‘کی ہدایت کسی بزرگ کی طرف سے ملی کہ غم نہ کر۔ بکری کو گدھے پر ڈال ۔ اس نے ’’بزبخر‘‘ کیا یعنی ’’بز‘‘ کی ٹانگیں باندھ کرگدھے پر ڈال دیا، یاد رہے کہ گدھے پر ڈالا تھا ’’گدی‘‘ پر بٹھایا نہیں صرف اتنا تھا کہ ’’بز‘‘ کو باندھ کر گدھے پر گدی کی طرح بٹھایا یا ڈال دیا۔

اور منڈی کو چل پڑا، ظاہر ہے کہ ’’بز‘‘ تو بیان دینے سے باز رہ ہی نہیں سکتی  جب کہ گدھے کو اس بیان بیان سے چڑ تھی چنانچہ آخرکار گدھا کوئی پاکستانی عوام تو تھا نہیںجو اتنے بیان بیان برداشت کرتا، چنانچہ آخر کار دولتیاں جھاڑ کر اور اچھل کود کر اس ’’بز‘‘ کو گرایا اور یہ جا وہ جا ہو گیا، مالک بھی اس کے پیچھے دوڑ پڑا لیکن بیان زدہ ’’خر‘‘ آسانی سے قابو میں کہاں آنے والاتھا، کبھی یہاں کبھی وہاں بھاگتا رہا لیکن کالانعام تھا، بیانوں سے کہاں تک بھاگتا، پکڑ میں آ ہی گیا، لیکن واپس اس مقام  پر آئے تو ’’بز‘‘ ندارد۔ وہ پیر وغیرہ ہلا کر اپنے بندھن توڑ چکا تھا، اور بہت دوردکھائی دے رہا تھا ،مالک نے عجلت میں یہ بھی نہ سوچا کہ کالانعام کو کہیں باندھ دے اور جلدی میں بکری کے پیچھے لپک پڑا، اب ’’بز‘‘ کو پکڑنا بھی آسان نہ تھاچنانچہ  اس نے بھی خوب خوب ورزش کرائی اور بیان بیان کرتی بز کو پکڑ کر واپس لے آیا، یہ دیکھ کر ہاتھوں کے طوطے بٹیروں کے ساتھ بکری کی رسی بھی چھوٹ گئی کہ کالانعام یعنی بیان بیان گزیدہ وہاں نہیں تھا، پھر بچارا کبھی گدھے کے پیچھے ایک طرف اورکبھی ’’بز‘‘ کے پیچھے دوسری طرف دوڑتے دوڑتے ہلکان ہو گیا۔ اور اس بزرگ کو بے نقط کی سنانے لگا جس نے ’’بزبخر‘‘کا قول زریں ارشاد فرمایاتھا۔ لیکن پشتو میں ’’بز‘‘ کے ساتھ ایک اور پرابلم ہے۔ بکری کو عام طور پر ’’چیلئی‘‘ کہا جاتا ہے لیکن بعض علاقوں میں بیزہ یا بزہ کہا جاتا ہے اور اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ بندر کو بھی ’’بیزو‘‘ کہا جاتا ہے جب کہ ’’بز‘‘ یا بزہ کا جمع ’’بیزو‘‘ ہوتا ہے یعنی ایک ہو تو بیزہ اور زیادہ ہوں تو بیزو جب کہ بندر اکیلا بیزو ہوتا ہے۔

چنانچہ ایک علاقے میں کسی گاؤں کے قریب ایک قافلہ اترا تو قافلے والوں کو دودھ کی ضرورت پڑگئی ۔ ایک آدمی کو بیجھا گیا کہ قریبی گاؤں سے دودھ لائے، اب دودھ کا معاملہ یہ ہے کہ بکریوں کا دودھ پتلا ہونے کی وجہ سے نا پسندیدہ یا چائے کے لیے تو بالکل نا موزوں ہوتا ہے اور وہ آدمی جس گھر کا دروازہ بھی کھٹکھٹاتا اور دودھ کا پوچھتا تو جواب ملتا دودھ ہے تو سہی لیکن بیزو کا ہے۔ مطلب یہ کہ بکریوں کا لیکن وہ شخص سمجھتا کہ بندریوں کا کہا گیا، وہ لاحول پڑھ کر دوسرے گھر میں پوچھتا۔ وہاں سے بھی جواب ملتا۔ ہاں مگر ’’بیزو‘‘ کا ہے، گویا سارے گاؤں میں صرف ’’بیزو‘‘ کا دودھ دستیاب تھا جو تھا توبکریوں کا لیکن اس کے خیال میں بندریا کا تھا۔ آخر خالی ہاتھ لوٹ آیا، قافلے والوں نے وجہ پوچھی تو بولا ، عجیب لوگ ہیں، بیزو (بندریوں)کا دودھ بھی دوہتے ہیں۔ چنانچہ قافلے والوں کو بغیر بیزو کے دودھ کے کالی چائے پینا پڑی۔

اس لیے ہمیں اکثر اس قسم کے ذومعنی جملوں یا اقوال زریں سے بڑی الجھن ہوتی ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ ’’بزبہ خر‘‘سے کیا مراد لیں، بز خریدو یابز کو گدھے پر بٹھاؤ۔ یا ’’بیزو‘‘ کا دودھ بکری کا ہے یابندرکا۔

اصل میں یہ ’’بز‘‘ اور ’’خر‘‘ کے الفاظ ہی سارے فساد کی جڑ ہیں اور اتفاق سے اکثر حکایات میں انھی دو جانوروں کا ذکر ہوتا ہے۔ ’’بزدل‘‘ کا ایک مطلب تو سب کو معلوم ہے لیکن اس پر بھی ایک حکایت ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک لڑکے کو قتل کرنے کے لیے ایک قصائی کے حوالے کیا۔ کیوں؟ وہ الگ کہانی ہے۔ اور یہ تاکید کی کہ لڑکے کا دل نکال کر بادشاہ کے پاس لایا جائے۔ بادشاہ لوگ چونکہ انسانوں کے دلوں سے کھیلتے رہتے ہیں، اس لیے ان کوپتہ ہوتا ہے کہ انسان کا دل کیسا ہوتا ہے۔ قصائی کو لڑکے پر رحم آیا، اسے کسی نے بتایاکہ فلاں مقام پر ایک عورت رہتی ہے ، اس کی بکری اپنا بچہ چھوڑ کر مر گئی تھی اور اس نے بکری کے بچے کی پرورش کی ہے۔ قصائی نے عورت سے وہ بکرا خریدا ، اسے ذبح کیا اور اس کا دل بادشاہ کو دکھا کر لڑکے کو بچا لیا۔ لیکن اس بات کا جواب کسی کے پاس بھی نہیں کہ انسان ہر خوشی اور غم کے موقع پر بکرے کو کیوں کاٹتا ہے اورکیا اس پر بکرا ’’ڈرپوک‘‘ نہیں ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔