مخلوق خدا کا کنبہ!

حاجی محمد حنیف طیّب  جمعـء 29 مارچ 2019
دُکھی انسانیت کی خدمت مقصودِ عبادت اور منشاء اسلام ہے۔ فوٹو: فائل

دُکھی انسانیت کی خدمت مقصودِ عبادت اور منشاء اسلام ہے۔ فوٹو: فائل

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں باہمی تعارف و پہچان کے لیے انسانوں کو جس طرح مختلف قبیلوں، قوموں اور خاندانوں میں پیدا کیا، اسی طرح بعض انتظامی و تکوینی حکمتوں اور آزمائشوں کے تحت، ان میں مال و دولت اور پیشہ و منصب کے اعتبار سے تفاوت رکھا۔

کسی کو مال دار بنایا تو کسی کو نادار، کسی کو حاکم تو کسی کو محکوم، لیکن ربّانی تعلیمات اور الوہی ہدایت سے بے خبر انسانوں نے اس تفاوت کو عزت و بڑائی کا معیار بنا لیا۔ مادی وسائل کی فراوانی اور جاہ و منصب کے نشہ میں مست لوگوں نے غریب و مفلس اور محکوم لوگوں کو نہ صرف ذلیل و حقیر جانا بل کہ ان بے کسوں کو ہر طرح کے مظالم اور تشدّد کا نشانہ بھی بنایا۔

حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس عالم میں جہاں اور بہت سی خرابیاں تھیں، وہاں ایک بہت بڑا فساد یہ تھا کہ دنیا میں ہر طرف غریب و مفلس، مسکین اور بے کس لوگ نہ صرف معاشی و معاشرتی عزت سے محروم تھے بل کہ وہ ظلم کی چکی میں پس رہے تھے اور کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا۔ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کی چابیاں رکھنے کے باوجود فقراء کی دل جوئی کے لیے ساری زندگی فقر و فاقے میں گزاری۔ آپؐ نے خندقیں کھودیں، بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھے، مہینوں تک کاشانۂ مقدس میں آگ نہ جلی، قرض لیا اور ہر وہ کام کیا جس کا عام طور پر غرباء کو سامنا کرنا ہوتا ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ نیکی کرے۔‘‘ (العلل المتناہیۃ )

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’ بیواؤں اور محتاجوں کی خدمت و اعانت کرنے والا، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر ہے یا اس نیکوکار کے برابر ہے جو عمر بھر دن کے روزے اور ساری رات عبادت کرے۔‘‘ (بخاری)

حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو نصیحت فرمائی، مفہوم: ’’ اے عائشہ کسی بھی محتاج و ضرورت مند کو مایوس نہ لوٹانا، خواہ کھجور کی گٹھلی ہی کیوں نہ دے سکو، مزید یہ کہ غریب اور محتاج لوگوں سے محبت کیا کرو اور ان سے قربت حاصل کیا کرو۔ بے شک (اس کے صلے میں) اللہ تعالیٰ روزِ قیامت تمہیں اپنے قرب سے نوازیں گے۔‘‘ (ترمذی )

مذکورہ بالا روایت ہمیں متوجہ کر رہی ہیں کہ رب کریم کی رضا کے طلب گارو! اس کے بندوں سے محبت کرو۔ اس کی مخلوق کی مدد کرو، پریشان حال لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرو کہ یہی مقصود عبادت اور یہی منشاء دین اسلام ہے۔

حضرت عبدالقادر جیلانیؒ سے منسوب ہے کہ آپ نے عالم کشف میں باری تعالیٰ سے پوچھا کہ یا بارِی تعالی! تُو کہاں رہتا ہے ؟ میں تجھے ملنا چاہتا ہوں۔ بارگاہ الوہیت سے جواب آیا اگر مجھے پانا چاہتا ہے تو شکستہ خاطر لوگوں کی دعوت کیا کر۔ ان کی دعوت سے تُو مجھے اپنے قریب پائے گا، ایک ماں کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہوتی ہے باری تعالیٰ کو اس سے کئی گناہ زیادہ اپنی مخلوق سے محبت و شفقت ہوتی ہے، وہ ذات اسی سے زیادہ پیار کرے گی جو اس کے بندوں کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ سمجھتے ہوئے ان کی دل جوئی اور غم خواری کرے گا، اس لیے تاج دار کائنات ﷺ نے انسانوں میں اُس شخص کو افضل و بہتر قراردیا جو خالق کائنات کے بندوں کا زیادہ خیرخواہ اور نفع بخش ہوتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔

ایک مرتبہ مسجد نبوی میں سرکار دوعالم ﷺ تشریف لائے تو آپؐ نے غریب مہاجر صحابہؓ کوایک طرف حلقہ باندھے دیکھا۔ آپؐ بھی انہی کے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ میں بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کر ان کے قریب کھڑا ہوگیا۔ سرکار ﷺ نے فرمایا: فقراء مہاجرین کو بشارت ہوکہ وہ دولت مندوں سے چالیس برس پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ اس خوش خبری سے ان فقراء کے چہرے خوشی سے چہک اُٹھے۔

غریبوں کے والی، فقیروں کے غم گسار آقا ﷺ کی عادت کریمہ یہ تھی کہ سرکا ر دوعالمؐ مساکین کی عیادت فرماتے، فقراء کے پاس مجلس کرتے اور کوئی غلام بھی دعوت دیتا تو اسے قبول فرماتے۔ تاج دار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ وہ شخص (کامل) مومن نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھا لے اور اُس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھو کا پڑا ہو۔‘‘ (بیہقی )

امام حسنؓ سے پوچھا گیا کہ ارشاد رسول ﷺ میں پڑوسی سے کون مراد ہے ؟ امام حسنؓ نے فرمایا: چالیس گھر سامنے اور پیچھے، چالیس گھر دائیں اور بائیں۔ (ادب المفرد)

معلم انسانیتؐ نے ہمسایوں کا اس قدر خیال رکھنے کی تعلیم دی کہ کوئی بھوکا نہ سوئے۔ لیکن آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اتنے بے نیا ز اور بے پروا ہیں کہ ہمسائے کی بھوک دور کرنا تو دُور کی بات ہے، ہمیں سال ہا سال تک اتنا بھی پتا نہیں ہوتا کہ ہمارے دائیں بائیں یا فلیٹس کی صورت میں اوپر نیچے کون رہتا ہے؟ آج کے مشینی دور نے دنیا کو تو گلوبل ولیج بنا دیا ہے لیکن پاس رہنے والوں سے غافل کردیا۔

ہمیں مشہور صوفی بزرگ حضرت بشیر حافیؒ کے اس عمل سے بھی راہ نمائی لینی چاہئے جو شدید سردی میں گرم اور موٹے کپڑے دیوار سے لٹکا کر خود عام کپڑوں میں ٹھٹھرتے رہتے تھے۔ اور ارشاد فرماتے کہ میں شہر یا گاؤں کے سارے محتاجوں اور ضرورت مندوں کو گرم کپڑے مہیا تو نہیں کرسکتا البتہ ان کی تکلیف کو محسوس کرنے کے لیے اپنے اوپر بھی ان جیسی کیفیت طاری کر رہا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔