اپوزیشن کا اتحاد ؟

مزمل سہروردی  ہفتہ 30 مارچ 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان کے سیاسی منظر نامہ میں عجیب تبدیلی آگئی ہے۔ کل تک ن لیگ خلائی مخلوق کے بیانیہ کے ساتھ چل رہی تھی۔آج پی پی پی دہشت گردوں تنظیموں کے خلاف کارروائی کے بیانیہ پر غیر روایتی سیاست کی کوشش کر رہی ہے۔ کل جب ن لیگ مشکل میں تھی تو پی پی پی تماشا دیکھ رہی تھی۔آج پی پی پی جارحانہ سیاست کرنے جا رہی ہے تو ن لیگ تماشہ دیکھ رہی ہے۔ کل جب ن لیگ لڑ رہی تھی تو پی پی پی ڈیل کے چکر میں تھی، آج جب پی پی پی لڑنے جا رہی ہے تو ن لیگ ڈیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یہ بات بھی باعث حیرانی ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں ابھی تک عمران خان کو اپنا سیاسی حریف نہیں سمجھتی ہیں۔ اس لیے اپوزیشن کا مجوزہ اتحاد عمران مخالف نہیں بن رہا بلکہ اپوزیشن کی جماعتیںاسٹیٹس کو کی حامی قوتوں کے خلاف اتحاد بنانے کی خواہاں ہیں۔

اپوزیشن کی جماعتیں آج جس مشکل میں ہیں وہ اس کا ذمے دار عمران خان کو نہیں بلکہ یہ مضبوط رائے موجود ہے کہ اگر اسٹیٹس کو کی حامی قوتیں نیوٹرل ہو جائیں تو سیاسی میدان میں عمران خان کو شکست دینا مشکل نہیں ہے، مرکز اور پنجاب کی حکومتیں چند دنوں میں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ دونوں طرف ووٹ موجود ہیں۔ سینیٹ میں تبدیلی آسکتی ہے۔بلوچستان میں تبدیلی آسکتی ہے۔ اس لیے اب اپوزیشن قیادت ایک موثر اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

یہ درست ہے کہ آج آصف زرداری اور بلاول کو احساس ہے کہ جب نواز شریف اور مریم نواز انھیں مشترکہ جدوجہد کی پیشکش کر رہے تھے وہ بہترین وقت تھا۔ انھوں نے ایک سنہری موقع کھو دیا ہے۔ آج یہ جدوجہد بہت مشکل ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ میں یہ دونوں جماعتیں مل کر ایسی قانون سازی کر سکتی تھیں جس سے سیاست کا پانسہ پلٹ سکتا تھا۔ آج یہ دونوں جماعتیں مل کر پارلیمنٹ میں مل کر بھی کچھ نہیں کر سکتیں۔ کل یہ دونوں جماعتیں مل کر آئینی ترامیم کر سکتی تھیں جن سے سول بالا دستی کی راہیں ہموار ہو سکتی تھیں لیکن آج یہ دونوں جماعتیں مل کر بھی ایسا کچھ نہیں کر سکتیں۔اس لیے نواز شریف کا موقف ہے کہ اہم سنہری موقع کھو دیا گیا ہے۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ احساس آصف زرداری اور بلاول کو پشیمانی سے باہر نہیں آنے دے رہا۔

سول بالادستی کے لیے ایک بڑے سیاسی اتحاد کے لیے آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمن کو قائل کر لیا ہے۔ بلکہ مولانا فضل الرحمن تو آصف زرداری اور بلاول سے پہلے ہی قائل تھے۔ وہ توانتخابات میں دھاندلی پر اس پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔مولانا کا موقف تھا کہ اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اس حکومت کو قانونی تحفظ فراہم نہیں کرنا چاہیے۔ سیدھا سڑکوں پر آنا چاہیے۔ ایسی پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لیکن اس وقت پی پی پی اس نظام کو چلانے کے لیے کوشاں تھی۔ اس لیے پی پی پی نے سب سے پہلے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا اعلان کر دیا۔ جس کی وجہ سے اپوزیشن تقسیم ہو گئی۔ پی پی پی کے اعلان کے بعد ن لیگ کے پاس بھی پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔مجبورا مولانا فضل الرحمن نے بھی پارلیمنٹ میں بیٹھنے کا اعلان کر دیا۔

مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اے این پی بھی اس اتحاد میں آنے کے لیے تیار ہے۔ بلوچستان سے اچکزئی، بزنجو اور مینگل بھی اس اتحاد میں آنے کو تیار ہیں۔ لیکن سب کو احساس ہے کہ نواز شریف اور ن لیگ کے بغیر یہ اتحاد نا مکمل ہوگا۔ اس وقت پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ن لیگ ہے۔ اور اگر ن لیگ ہی اس اتحاد میں شامل نہیں ہو گی تو یہ اتحاد کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے گزشتہ ایک ماہ سے ن لیگ کو منانے کی کوششیں جا ری ہیں۔ لیکن ن لیگ میں نہ تو نواز شریف اور نہ ہی شہباز شریف ایسے کسی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ پی پی پی کے پاس پنجاب میں عوامی حمایت نہیں ہے۔

باقی سیاسی جماعتوں کے پاس بھی پنجاب میں سیاسی طاقت نہیں ہے۔ اس لیے جب تک پنجاب سے ن لیگ شامل نہیں ہوتی نہ تو یہ اتحاد موثر ہو سکتا ہے اور نہ ہی یہ اتحاد اپنے اہداف حاصل کر سکتا ہے۔ تا ہم جب ن لیگ میدان میں تھی تب باقی سیاسی جماعتیں ن لیگ کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں تھیں۔ اس طرح ن لیگ کو پنجاب میں حمایت حاصل ہونے کے باوجود باقی صوبوں میں سیاسی حمایت حاصل نہیں تھی۔

بلاول کی جیل میں نواز شریف سے ملاقات بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ پی پی پی بالخصوص بلاول اور زرداری نواز شریف کے ساتھ عدم اعتماد کی فضا کو ختم کرنے کے لیے اس وقت ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ ن لیگ اور نواز شریف کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ جو بات ہو گی پکی ہوگی، اس بار وہ پلٹی نہیں کھائیں گے۔ اسی لیے پارلیمنٹ میں شہباز شریف کی مکمل حمایت کی جا رہی ہے اور پارلیمنٹ سے باہر نواز شریف اور مریم نواز کی حمایت کی جا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی جیل میں نواز شریف سے ملنے کی خواہش کا اظہا رکر دیا ہوا ہے۔لیکن نواز شریف کی جانب سے انھیں ابھی گرین سگنل نہیں مل رہا۔ نواز شریف نے ملاقاتیں منسوخ کر کے دراصل مولانا فضل الرحمن کو ملاقات سے روکا ہے۔

ایک رائے یہ ہے کہ نواز شریف اپنی ضمانت کا انتظار کر رہے ہیں۔ انھیں امید ہے کہ اس وقت بلاول اور زرداری جس قدر دباؤ بڑھا رہے ہیں، اس سے ان کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس لیے بلاول اور زرداری کے ساتھ ملنے کے بجائے ضمانت کی کوشش کرنی چاہیے۔ علاج کے لیے باہر جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنے ریلیف کی کوشش کرنی چاہیے۔ میاں شہباز شریف کا بھی خیال ہے کہ اپوزیشن کے کسی اتحاد میں شامل ہونے کے بجائے اپنی مشکلات کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہم نے لڑ کر دیکھ لیا ہے۔ کیا ملا ہے۔

اس لیے اب مزید مشکلات بڑھانے کے بجائے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاہم مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری دونوں کو یقین ہے کہ اول تو نواز شریف کو ضمانت ملنا مشکل ہے۔ اس لیے ضمانت کی منسوخی کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کے پاس ہمارے اتحاد میں شامل ہونے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا ۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ضمانت ہو بھی گئی تب بھی ن لیگ آجائے گی۔ ضمانت کے بعد جب نواز شریف لندن چلے جائیں گے تب وہ لندن سے اس اتحاد میں شمولیت کے لیے مان جائیں گے۔

کیا پاکستان میں سول بالادستی کے لیے کوئی اتحاد قائم ہو سکتا ہے۔ ملک میں مارشل لا حکومتوں کے خلاف اتحاد بنتے رہے ہیں۔ انھوں نے جدو جہد بھی کی ہے۔ اس جدوجہد کو پاکستان کی جمہوری جدو جہد میں قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اس وقت پاکستان میں کوئی مارشل لا نہیں ہے۔ ایک جمہوری دور ہے۔ پارلیمنٹ بھی موجود ہے۔ایسے میں سول بالادستی کے نام پر اتحاد کیسے چل سکتا ہے۔ اس اتحاد کے خدو خال کیا ہوںگے۔ مطالبات کیا ہوںگے۔ پہلے خلائی مخلوق جیسے استعارے استعمال کرنے پر بھی تنقید ہوئی تھی۔ اب بلاول کے ٹوئٹس کو بھی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے یہ رائے بھی بن رہی ہے کہ کوئی بھی جماعت اور لیڈر اکیلا یہ اتحاد نہیں چلا سکتا۔ اس کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ لیکن ابھی اس کی راہ میں مشکلات باقی ہیں۔ سب مانے بھی ہوئے ہیں لیکن اقرار بھی مشکل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔