اسلامو فوبیا کا تدارک

شبیر احمد ارمان  ہفتہ 30 مارچ 2019
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل پر زور دیا ہے کہ وہ جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلا کر اسلامو فوبیا کو تعصب قرار دیں اور مغرب میں اس طرح کی دھمکیوں اور نفرت انگیز رجحان کی نگرانی اور کاروائی کے لیے ایک مندوب کا تقرر کریں، استنبول میں او آئی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہونے والے دہشتگرد حملوں کو ہولناک اور قابل نفرت قرار دیتے ہوئے شدید مذمت کی گئی۔

اجلاس کے اختتام پر جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ او آئی سی اسلام اور مسلمانوں کی تضحیک کا مقابلہ کرنے کے لیے فعال کردار ادا کرے اور اس معاملے میں ایک جامع حکمت عملی وضع کی جائے ۔ اعلامیئے میں مساجد پر دہشتگردانہ حملوں کی واضح مذمت کرنے پر نیوزی لینڈ کی حکومت کو سراہا گیا ، او آئی سی نے تمام رکن ممالک سے کہا کہ وہ تمام مسلمانوں کی مذہبی آزادیوں کا احترام کریں اور ان کے شہری اور ثقافتی حقوق کی عملداری میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے ، اسلامی ممالک سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ عام مسلمانوں کو محض مفروضوں پر دہشتگردی ، انتہا پسندی اور اس طرح کے کسی بھی جرم سے جوڑنے کو سختی سے مسترد کرتے ہیں ۔

واضح رہے کہ نیوزی لینڈ میں مساجد پر دہشتگردانہ حملے میں جو 49 نمازی شہید اور 48 سے زائد نمازی شدید زخمی ہوگئے تھے در حقیقت یہ دنیا میں تیزی سے پھیلتے اسلامو فوبیا کا شاخسانہ ہے ، یہ حملے اسلام سے بڑھتی ہوئی مخاصمت کی عکاسی کرتے ہیں ، یہ نسل پرستی کا شاخسانہ ہے ، جس کی سب سے بڑی وجہ دنیا میں تیزی سے پھیلتے اسلام سے خوف کھانا ہے ، ایسا عمل کوئی فاشسٹ ہی کرسکتا ہے ، معصوم نمازیوں کی جان لینا ایک نہایت ہی گھناؤنا عمل ہے اور کسی مہذب سماج میں اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، یہ حملہ انسانیت اور عالمی امن کے لیے سیاہ ترین دن قرار پائے گا ۔

اس طرح کا قتل عام کھلی بربریت ہے ، اس طرح کسی (مسلمانوں ) کی عبادت گاہوں میں گھس کر قتل عام کرنا اور اس کی براہ راست سوشل میڈیا پر تشہیر کرنا بیمار اور خطرناک سوچ کی عکاسی کرتا ہے ، مہذب دنیا کے لیے عبادت کے مقام پر ایسا حملہ ناقابل قبول ہے ، اس انتہا پسندانہ دہشتگردی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ مہذب دنیا کے لوگوں کی ہمدردیاں نیوزی لینڈ کے عوام ساتھ ہیں ، بین الاقوامی دنیا ہمیشہ اسلامی ممالک کو ہی ایسے واقعات پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ،کیوں آج اس واقعہ پر وہ ردعمل سامنے نہیں آیا ؟ اور دنیا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر سب دیکھ رہی ہے اور اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا، کیوں ؟ ان کے لب سل گئے ہیں ؟ مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دینے والے مغربی انتہا پسنداس حملے کے بارے میں کیا کہیں گے ؟ ۔ دہشتگردی کا آسیب اب سرحدوں کو عبور کر چکا ہے ، نسلی تعصب اور انتہا پسندی پوری دنیا کا مسئلہ ہے ، عالمی امن کو دہشتگردی سے جتنا آج خطرہ ہے پہلے کبھی نہ تھا ۔

دہشتگردی کا ناسور اب دنیا کے پرامن ملکوں کی جانب بڑھ رہا ہے جو انتہائی تشویش ناک بات ہے ، دنیا کو اب یہ بات مان لینا چاہیے کہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا چند افراد کے عمل کو پوری قوم یا مذہب سے جوڑنا شرمناک ہے ، دہشتگردی کے پیچھے کوئی ملک یا مذہب نہیں ہوتا بلکہ چند مخصوص لوگ ہوتے ہیں جہنیں امن راس نہیں آتا ۔ دنیا کو متحد ہوکر کسی مذہب نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف لڑنا ہو گا ۔ وقت آ گیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو علاقائی ، نسلی اور مذہبی رنگ دیے بغیر حل کیا جائے ، مغربی ممالک کو اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچنے اور اس طرح کی نفرت انگیز اور تشدت پسند سوچ کو اپنے معاشروں سے ختم کرنے کے لیے جامع حکمت عملی بنانا ہو گی ۔ دنیا نیوزی لینڈ واقعہ کا نوٹس لے اور ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائے ۔

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں 49 نمازیوں کو شہید کرنے والے حملہ آور کے بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ مرکزی ملزم برینٹن ٹیرنٹ مسلمان مخالف اور انتہا پسند مسیحی گروہ کا کارندہ ہے جس نے ناروے کے دہشتگرد اینڈ رزبریوک سے متاثر ہوکر دہشتگردی کی ہولناک واردات سرانجام دی ۔ بریوک نے 2011ء میں ناروے میں فائرنگ کر کے 85 افراد کو ہلاک کیا تھا ۔نیوزی لینڈ کے حملہ آوروں سے برآمد ہونے والے اسلحہ اور بلٹ پروف جیکٹوں کی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں انھوں نے ماضی میں مسلمانوں اور عیسائی ریاستوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کے نام لکھے تھے۔

ان میں سے زیادہ تر جنگیں وہ تھیں جن میں مسلمانوں کو شکست ہوئی ۔حملہ آور نے اپنی بندوق پر لکھا 732Tours۔اس نے دراصل Tours of Battle کا حوالہ دیا جسے عربی میں معرکہ بلاط الشہداء کہا جاتا ہے ۔ معرکہ بلاط الشہداء اپنی اہمیت کے لحاظ سے دنیا کی 15 اہم جنگوں میں شمار کی جاتی ہے ۔ یہ جنگ 10 اکتوبر 732ء میں فرانس کے شہر ٹورز کے قریب لڑی گئی جس میں اسپین میں قائم خلافت بنو امیہ کو فرنگیوں کی افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی ۔

اندلس کے حاکم امیر عبدالرحمٰن نے 70 ہزار سپائیوں پر مشتمل فوج کے ذریعے اپنی پڑوسی عیسائی ریاست فرانس پر حملہ کیا تھا ۔ مسلمانوں نے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے فرانس کے علاقوں غال ، وادی رہون ، ارلس اور دبو رڈ یکس پر قبضہ کرلیا تھا ۔ فرانس کے بادشاہ نے دیگر عیسائی ممالک سے مدد طلب کی تو انھوں نے امدادی فوجیں روانہ کیں ۔ 10 روز تک جنگ کے بعد مسلمانوں کو شکست ہوئی اگر مسلمان یہ جنگ جیتے تو آج یورپ سمیت پوری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت ہوتی ۔

مشہور مورخ ایڈورڈگبن نے اپنی معرکہ آرا تاریخ ، تاریخ زوال روما ، میں لکھا : عرب بحری بیڑا بغیر لڑے ہوئے ٹیمز کے دہانے پر آکھڑا ہوتا ۔ عین ممکن ہے کہ آج آکسفورڈ میں قرآن پڑھایا جا رہا ہوتا اور اس کے میناروں سے پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات کی تقدیس بیان کی جا رہی ہوتی ،، ۔ حملہ آور نے اپنی بلٹ پروف جیکٹ پر دوسری عبارت لکھی Veniersebastiano۔ سبا ستیا نو وینئر اطالوی کمانڈر تھا جس نے مسلمانوں کے خلاف جنگ لیپانٹو میں اطالوی دستے کی قیادت کی تھی ۔ جنگ لیپا نٹو 7 اکتوبر 1571ء کو یورپ کے مسیحی ممالک کے اتحاد اور خلافت عثمانیہ کے درمیان لڑی جانے والی ایک بحری جنگ تھی جس میں مسیحی اتحادی افواج کو کامیابی نصیب ہوئی ۔ حملہ آور نے اپنی بندوق کے میگزین پر ویانا 1683ء بھی لکھا۔

اس نے دراصل جنگ ویانا کا حوالہ دیا ۔ 1683ء میں یہ صلیبی جنگ خلافت عثمانیہ اور صلیبی اتحاد کے درمیان ہوئی ۔ سلطنت عثمانیہ کے دسویں عظیم فرمانروا سلیمان عالیشان کے دور میں مسلمان فوج نے 1529ء میں آسٹریا کے دارالحکمومت ویانا کا محاصرہ کر لیا تھا ۔ موسم ، راستوں کی خرابی اور رسد کی کمی کی وجہ سے محاصرہ بے نتیجہ رہا اور سلطان کو واپس آنا پڑا۔ نیوزی لینڈ پولیس نے بتایا کہ حملہ آور دہشتگردی کی واچ لسٹ میں نہیں تھے اور انھوں نے اس حملے کے لیے منظم منصوبندی کی تھی ، مساجد پر حملے سے 24 گھنٹے پہلے ہی ایک 74 صفحات پر مبنی منشور آن لائن سامنے آ چکا تھا جس میں کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں پر حملے کا اعلان کیا گیا تھا ۔

الغرض دنیا بھر میں اسلام فوبیا پھیلا ہوا ہے جس کا سدباب ہونا چاہیے۔ ہر قسم کی دہشتگردی اور اسلامو فوبیا کی مذمت ہونی چاہیے ، مسلمانوں کو آج جرم ، خوف اور تشویش کا ذریعہ خیال کیا جا رہا ہے جو درست بات نہیں ہے ۔ ایسے میں اسلام کی رواداری ، اعتدال پسندی اور عفو در گزر کی تعلیمات اجاگر کرنے اور تہذیبی مکالمے کی ضرورت ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔