میرا ملک جل رہا ہے

آصف زیدی  ہفتہ 30 مارچ 2019

آگ لگ گئی، آگ لگ گئی، آگ! آگ! آگ! ، بھائی! اُس طرف مت جانا کسی بلڈنگ میں آگ لگ گئی ہے، سارا راستہ بند ہے، کہیں آگ لگنے کی خبر ہے، دیر سے پہنچے،کسی جگہ آگ لگ گئی تھی، بہت ٹریفک جام تھا۔ یہ اور ایسے بہت سے جملے ہم لوگ خود بولتے بھی ہیں اور لوگوں سے سنتے بھی ہیں کیونکہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں آگ لگنے کے المناک واقعات اتنے تواتر سے ہو رہے ہیں کہ اب لوگوں کے لیے بھی ایسی خبریں سُننا، پڑھنا یا ہولناک واقعات کی تصاویر دیکھنا معمول بنتا جا رہا ہے۔

کبھی کسی کاروباری مرکز میں آگ لگنے کی ہولناک خبرسامنے آتی ہے توکبھی کسی گھرکے چراغ آگ کی لپیٹ میں آکر پورے گھر بلکہ خاندان کو اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔ کبھی کسی رہائشی عمارت سے شعلے نکلتے نظر آتے ہیں تو کبھی کوئی دکان یا دکانیں خاکستر ہو جاتی ہیں۔ ایسا مسلسل ہو رہا ہے لیکن یہ کوئی کیوں نہیں سوچتا کہ یہ ہوکیوں رہا ہے؟

ہر حادثے اور سانحے کے بعد مذمتی بیانات، تعزیتی تقاریب، رسمی جملے، آیندہ ایسا نہ ہونے دینے کے دعوے اور ذمے داروں کو قرارواقعی سزا دینے کی باتیں سُنتے سُنتے زمانہ گزرگیا لیکن یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ ’’ کُوڑے کو سمیٹ کر قالین کے نیچے کرنے‘‘ کی پالیسی نے مسائل کو حل کرنے کی طرف لوگوں کو جانے دیا نہ ارباب اقتدار واختیار نے اپنی ذمے داری سمجھی کہ روزمرہ پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لیے طویل المدتی پالیسیاں بنائی جائیں۔

’’عروس البلاد‘‘ کہے جانے والے شہرکراچی میں ستمبر 2012 میں سانحہ بلدیہ فیکٹری اب تک لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہے۔ اس المناک، ہولناک اور خوفناک سانحے کی یادیں 250 سے زیادہ جاں بحق افراد کے اہلخانہ کے لیے تو زندگی بھر کا غم ہیں لیکن اُن کے علاوہ بھی پورے پاکستان میں جب بھی اس واقعے کو یادکیا جاتا ہے تو ہر درد مند دل دہل جاتا ہے۔ یہ تو ایک بہت بڑا سانحہ تھا، اس کے بعد بھی کاروباری مراکز، فیکٹریوں، دکانوں ، شاپنگ سینٹرز ، گھروں، فلیٹوں حتیٰ کہ گاڑیوں میں آگ لگنے کے واقعات رُکے نہیں ہیں، گوکہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے بعد شہر میں آتشزدگی کے لاتعداد واقعات ہوئے لیکن اللہ کا کرم رہا کہ ان میں جانی نقصان توکم ہُوا لیکن مالی نقصان زیادہ ہُوا۔چند روز قبل جمعرات 21 مارچ کو گلشن اقبال میں ایک کاروباری عمارت میں ہولناک آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا، جس میں 2 نوجوان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اپنے گھر والوں کو ہمیشہ کے لیے سوگوار چھوڑ گئے۔

اس کے اگلے ہی روزجہانگیر روڈ پر مکان میں آگ لگنے سے ماں اپنے 2 کمسن بچوں کے ساتھ زندہ جل گئی۔ گلشن اقبال میں تجارتی مرکز میں آگ لگنے کے بعد ارباب اختیارکی جانب سے یہ باتیں سامنے آئیں کہ ’’ہم تحقیقات کریں گے کہ عمارت میں ہنگامی حالت کے موقعے پر ہنگامی راستہ (emergency exit)  کیوں نہیں تھا۔ عمارت بنانے والے اور اس بلڈنگ کے مالک سے بھی پوچھ گچھ ہو گی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے شہری ادارے، صوبائی حکومت کے متعلقہ شعبے آخر کیا کر رہے ہیں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ حادثہ یا سانحہ ہونے کے بعد ہی ہر چیزکی یاد آئے۔

غلطیوں کی نشاندہی ہو یا نقائص کی روک ٹوک کی جائے۔ جب بلند و بالا عمارتیں بن رہی ہوتی ہیں، اُن میں لوگ کام کرتے ہیں، رہائش اختیارکرتے ہیں تو اُس وقت متعلقہ حکام کیوں ہر چیزکو چیک نہیں کرتے۔ یہ ذمے داری تو اُن کی سب سے زیادہ ہے کہ ہر عمارت، گھر یا فیکٹری کی پہلی اینٹ رکھنے کے وقت سے ہی مانیٹرنگ کریں کہ آیا اس میں عوام کی سہولت، ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے ضروری آلات، ہنگامی راستے ہیں یا نہیں؟۔ جہاں عمارت بنائی جا رہی ہے وہاں ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینسوں، فائر بریگیڈ کی گاڑیوں (اسنارکل، باؤزر وغیرہ) اور دیگر امدادی اداروں کے آنے کا راستہ بھی ہے یا نہیں؟

اگر اس طرح کی مانیٹرنگ کا عمل ابتدا سے ہی کیا جائے اور ان کے بغیر کوئی منصوبہ شروع ہی نہ ہونے دیا جائے تو بہت سے سانحات سے بچا جا سکتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے جب سندھ حکومت اور شہری حکومت کے اعلیٰ حکام ہر حادثے اور سانحے کے بعد ذمے داروں کے احتساب کی باتیں کرتے ہیں جب کہ اگر وہ روزِ اول سے ہی اپنے ماتحت عملے کو اُن کے فرائض اداکرنے کا عادی بنائیں تو شہرکے بہت سے مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ عام مشاہدہ ہے کہ کسی گاڑی میں سی این جی سلنڈر پھٹنے کے حادثے کے فوری بعد ملک بھر میں گاڑیوں میں لگے سی این جی سلینڈر اتارنے کی مہم شروع کر دی جاتی ہے لیکن اتنی ہی سرگرمی سے اگر گھروں، کاروباری و تجارتی مراکزمیں آگ سے بچاؤ کے لیے اقدامات کیے جائیں تو بہت اچھا ہو گا۔ ارباب اقتدار اور قارئین کے لیے زیر نظر مضمون میں چند سوالات رکھ رہاہوں، جواب تو ذمے داروں نے دینا ہے لیکن اگرکچھ بہتری ہو جائے تو ممکن ہے کہ آیندہ کوئی حادثہ ہونے سے پہلے ٹل جائے۔

٭ حکومتی ادارے کیا پابندی کے ساتھ شہرکی عمارتوں، تجارتی مراکز، فیکٹریوں کے دورے کرکے وہاں آتشزدگی سے بچاؤ کے انتظامات کا جائزہ لیتے ہیں؟ یا دفتر میں بیٹھ کر ہی رپورٹیں بنا لیتے ہیں؟٭ایسا بھی ہُوا ہے کہ دفاتر میں جا کر ملازمین کو یا عوام کو ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت دی گئی ہو؟ ( میرا نہیں خیال کہ ایسا باقاعدگی سے ہوتا ہو گا)۔٭کیا عمارتوں، فیکٹریوں اور رہائشی پراجیکٹس میں لگے آگ بجھانے کے آلات کے استعمال کے حوالے سے کوئی آگاہی مہم چلائی گئی؟٭ حکومت چاہے تو سرکاری سطح پر اسکولوں اور کالجوں میں بھی طلبہ و طالبات اور اساتذہ کو آگ لگنے کی صورت میں حالات سے نمٹنے کی تربیت دے سکتی ہے۔

٭جو ادارے اور تنظیمیں شہریوں کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کر رہی ہیں ان کی حوصلہ افزائی ضروری ہے لیکن یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جو کام حکومت اپنے وسائل کے ذریعے کر سکتی ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ کیا اس حوالے سے بھی ارباب اقتدار نے کچھ سوچا ہے؟٭ اپنی پارٹیوں اور منشور کے لیے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں نری بڑی اشتہاری مہمات چلانے والے عوامی نمایندے خاص طور پر حکومتوں کیلٍے کیا یہ ضروری نہیں کہ وہ آگ سے بچاؤ کے حوالے سے بھی اشتہاری مہم چلائیں تاکہ عوام اور خواص کو آگاہی حاصل ہو؟

اگر ان سوالات کا جواب ’’ہاں ‘‘ میں ہے تو ان پر عمل کرنا بھی ارباب اختیارکی ذمے داری ہے جبھی وہ صحیح معنوں میں کسی بھی حادثے یا سانحے کے ذمے داروں کا احتساب کر سکیں گے اور قوی امکان ہے کہ اُن کے موثر اقدامات کی وجہ سے حادثہ یا سانحہ رُونما ہی نہ ہو۔ان اقدامات اور انتظامات سے ضروری نہیں کہ ہر شخص کی جان محفوظ ہو جائے گی لیکن یہ ضرور ہو گا کہ حادثات کی تعداد میں کمی ہو جائے گی۔ کوشش کرنا انسان کا فرض ہے، باقی آگے کیا ہونا ہے یہ صرف اللہ جانتا ہے۔کسی گھر، عمارت، دکان، فیکٹری یا گاڑی میں لگی آگ صرف اُسے نہیں جلاتی بلکہ اُس میں موجود افراد کے ارمان، خواب، اہلخانہ کی خواہشات سب خاکستر ہو جاتی ہیں۔ انھیں بچانا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔