نامعلوم منزلوں کے مسافر

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 31 مارچ 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

کنفیوشس سے اس کے شاگرد نے پو چھا کہ کسی ملک کی سلامتی وفلاح اور اصلاح کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے۔ اس نے جواب میں کہا کہ کسی ملک کی بقا و فلاح کے لیے تین چیزیں اہم ہیں۔ (1) طاقتور فوج (2) خوراک کی افراط (3) عوام کی باہمی یکجہتی ، ہم آہنگی اور خوشحالی ۔

شاگرد نے پھر سوال کیاکہ اگر یہ تینوں بہ یک وقت میسر نہ آسکیں تو پھر ؟کنفیوشس نے جواب دیا اگر طاقتور فوج نہیں ہوگی توکوئی بات نہیں، کسی ملک کی سب سے بڑی فوج اس کے عوام ہوتے ہیں،عوام خود اپنا دفاع کرلیں گے ۔ شاگرد نے پھر پوچھا کہ ان باقی دو چیزوں میں سے وہ کون سی چیزہے کہ جس کے بغیر گذارا ہوسکتا ہے۔ کنفیوشس نے جواب میں کہا کہ اگر خوراک کی قلت ہوگی تو کوئی بات نہیں کسی نہ کسی طرح گذارا ہوہی جائے گا عوام باہم مل کر اس کمی کا مقابلہ کرلیں گے لیکن اگر عوام میںہم آہنگی اور یکجہتی نہیں ہوگی تو ملک کی تباہی اور بربادی یقینی ہے ۔

دنیا کے تمام ممالک نے اس وقت ترقی کی جب انھوں نے تمام فیصلوں کا اختیار اپنے عوام کو دے دیا اور انھیں با اختیار اور خو شحال بنا دیا فرد واحد غلط فیصلے کرسکتا ہے لیکن عوام کبھی غلط فیصلے نہیں کرتے۔ عوام سے زیادہ سمجھدارکوئی اور ہو ہی نہیں سکتا کوئی بھی جنگ عوام کی مدد کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی ۔ فتح و شکست کا فیصلہ میدان میں نہیں ، ذہن میں ہوتاہے ، جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبوں سے جیتی جاتی ہے ۔ تباہ شدہ قوم کی تعمیرکی جاسکتی ہے، مسمار شہروں کی تعمیر نو ہوسکتی ہے لیکن جب ایک قوم کے جذبے مردہ ہوجائیں تو اس مرض کا کوئی چارہ نہیں ہوتا کیونکہ جذبے کا تعلق خو شحالی اور اختیار سے جڑاہوا ہے۔

آج پاکستان جن مسائل اور عذاب سے دوچار ہے، یہ سب کے سب نتیجہ ہیں ان اقدامات کا جو ہم پہلے ہی روز سے کرتے آئے ہیں، جب ہم قوم تھے تو زمین نہیں تھی اور جب زمین ملی تو ہم قوم نہیں رہے ایک ایسی بھیڑ میں تبدیل ہوگئے جنہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ان کی منزل کیا ہے ؟ ہم نامعلوم منزلوں کے مسافر بن کے رہ گئے ہیں، ابتدا ہی سے ہم نے اپنی نظریاتی بنیادوں میں بارودی سر نگیں نصب کردینا شروع کردی تھیں۔ اقتصادی بنیادوں کی طرف دیکھنے کے لیے ہما رے پاس فرصت ہی کہاں تھی کیونکہ ہماری ساری کی ساری توجہ اپنی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میںلگی ہوئی تھیں۔ اب ہمارے پاس نظریاتی اور اقتصادی بنیاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے، ہماری ساری تگ و دو ، جدوجہد اور محنت کے بعد جو چیز ہمارے ہاتھ لگی ہے، وہ ہے بنیاد پرستی ، باقی اللہ اللہ خیر صلا ۔

شیکسپئر اپنی تمثیل شاہ لیئر میں دکھا تا ہے جب تک شاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹرکو زندگی کی حقیقت اس وقت تک نظرنہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہو جاتا۔ اس وقت بالکل یہ ہی حال ہمار اہے ۔ آج پاکستان کے اصل مالک عوام جو بھوکے ننگے ، ذلیل وخوار،کنگال ، بے بس، منقسم، لاچار ہیں یہ کارنامہ کسی اورکا نہیں بلکہ یہ ہماری اپنی ہی فخریہ پیشکش ہے پاکستان عوام کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہوا یہ سب سے بڑی سچائی ہے کہ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں نہ مولوی شریک تھے اور نہ ہی فوج نے اس میں حصہ لیا تھا۔

برصغیر کے عوام نے پاکستان بنانے کے لیے قربانیاں اپنی خوشحالی،آزادی اور بااختیار ہونے کے لیے دی تھیں ، لیکن یہ عوام کی بدقسمتی تھی کہ ملک تو آزاد ہوگیا ، لیکن نہ تو عوام آزاد ہوسکے نہ خوشحال اور نہ ہی با اختیار بلکہ عوام غلام ابن غلام ابن غلام ہی رہے ، اس کے بالکل بر عکس پاکستان پر قابض اشرافیہ جنہوں نے پاکستان بنانے کے لیے نہ توکوئی قربانی دی تھی اور نہ ہی جدوجہد میں ان کا کوئی کردار تھا ، پہلے روز سے لے کر آج تک ملک کے سارے اختیارات اور وسائل کی مالک بنی بیٹھی ہے، قبضہ کیے بیٹھی ہے ، یہ اشرافیہ اپنی عیاشیوں میں اس قدر مست ہے کہ اسے یہ ترستے ، بلکتے ، سسکتے ، تڑپتے ، بائیس کروڑ انسان دکھائی نہیں دیتے ہیں جنہیں یہ احساس تک نہیں ہے کہ پاکستان کا عام آدمی کس قدر تکلیف دہ اور اذیت ناک زندگی گذار رہاہے ۔

اشرافیہ کا صرف ایک فرد صرف ایک دن کے لیے اگرعام آدمی بن جائے تو پھر اسے اس تلخ اور اذیت نا ک سچائی کا احساس ہوگا کہ پاکستان کا عام آدمی کس طرح روز جیتا اورکس طرح روز مرتا ہے ۔ جب وہ ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں شدید گرمی میں گھنٹوں بجلی آنے کا انتظارکرے گا جب وہ ساری ساری رات جاگ کر نلکے میں پانی آنے کا انتظار کرے گا پانی کی صرف ایک بالٹی کی خاطر میلوں پیدل چلے گا جب وہ پھٹے کپڑوں اور ننگے پیروں کے ساتھ تپتی دھوپ میں صرف چند روپوں کی خاطر سارا سارا دن مزدوری کرے گا ۔جب وہ کیچڑ والا پانی چھان چھان کر پئے گا جب وہ بغیر دوائی اسپتال اور ڈاکٹر کے تڑپ تڑپ کر مرے گا۔

جب وہ ہاتھ میں ڈگری پکڑے چھوٹی چھوٹی نوکری کے لیے دھکے کھاتا پھرے گا ۔جب وہ روز طاقتور اور امیر لوگوں کی گالیاں سنے گا جب وہ سوکھی روٹی پانی میں بھگو بھگوکرکھا ئے گا جب اسے کئی کئی روز فاقے کرنا پڑیں گے جب وہ اپنے بچوں کو دودھ کے لیے تڑپتا دیکھے گا جب وہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عمر میں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی دیکھے گا جب وہ جانوروں کی طرح بس اور ویگنوں میں سفرکرے گا جب وہ روز ٹی وی پر مہنگائی ، بجلی اور پیڑول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا سنے گا جب وہ روز اپنے نصیبوں اورقسمت پر ماتم کرے گا جب وہ اپنوں کی خود کشیوں کی خبر سنے گا تو پھر اسے احساس ہو گاکہ پاکستان کا عام آدمی کس طرح دوزخ میں زندگی بسر کر رہا ہے۔

ہم تلخی حالات سے گھبرا کر ہمیشہ ماضی کی سمت بھاگے ہیں، اسی وجہ سے ہم ماضی کے مزاروں کے متولی بن چکے ہیں ہم تمام تیزی سے دوڑے جارہے ہیں مکمل تباہی کے کنارے کھڑے ہیں اس میں سارا کا سارا قصور ہمارا اپنا ہے ہم اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جل رہے ہیں تبدیلی کبھی بھی بیرونی عوامل یا خواہش پر نہیں آتی۔ تبدیلی کا سارا کا سارا دارومدار اندرونی خواہش پر مبنی ہوتا ہے اس کے لیے سب سے پہلے احساس کا پیدا ہونا پھر اتفاق کا اور پھر خواہش کا جاگنا ضروری ہو تا ہے ۔ افلاطو ن نے بہت پہلے یہ انکشاف کر دیا تھا کہ کسی چیزکی اصطلاح پر متفق ہونے سے قبل اس کو زیر بحث لانا ناممکن ہے

۔ دنیا میں ہر جگہ تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور یہ اثر چیزوں کی جڑوں اور بنیادوں تک نظر آرہا ہے ۔ یہ بے چارگی، غربت ، افلا س، بے اختیاری ، ذلت،گالیاں، دہشت گردی ، انتہاپسندی ہمار انصیب نہیں ہیں۔ آئیں! ہم باہمی یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا کرکے ان عذابوں سے ہمیشہ ، ہمیشہ کے لیے اپنی جان چھڑالیں اور خوشحال بن جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔