تیرتی ہوئی لاشیں

نسیم انجم  منگل 13 اگست 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

وہ دن بھی کیا دن تھے جب سہرے کی کلیاں کھل اٹھیں، دونوں ہی اس سنجوگ پر شاداں تھے، خوش تھے، پھر بہت جلد ان کے آنگن میں پھول کھل گیا، چندا ماموں اتر آئے، ستارے مبارکباد کی صدائیں لگانے لگے، ممتا کی آغوش میں ننھا بچہ ہمکنے لگا، اور ’’غوں، غوں،آ، آ‘‘ کی آوازیں سونے گھر میں ایسی موسیقی بکھیرنے لگیں کہ کسی سازندے نے ایسی لے ایجاد نہ کی ہو گی اور نہ ہی کسی کے گھر نامور موسیقار کی موسیقی سے ڈھیر سارا چین اور انجانی خوشی اتری ہو گی، جیسی پیاری اور راج دلاری آواز ننھے بچے کے منہ سے نکلتی ہے اور ماں باپ اور گھر کے تمام افراد کے لیے انوکھی مسرت کا باعث بنتی ہے۔

اس ننھے معصوم بچے کے آنے والے دنوں کے خواب ان کے ماں باپ نے ضرور دیکھیں ہوں گے، تعلیم و تربیت کے بارے میں غور و خوض کیا ہو گا اور ابھی تو بچے کے والدین کو ڈھیروں تمناؤں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ بہت سے کام کرنے تھے چھوٹے بڑے امور خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لیے صبح و شام تگ و دو کی ضرورت تھی تب ہی خوابوں کو تعبیر ملتی ہے۔

ان دونوں کو ذرہ برابر اندازہ نہیں ہو گا کہ اچانک سب کچھ ختم ہو جائے گا، لمحہ بھر میں زندگی کی ڈور ٹوٹ جائے گی اور پورا گھرانہ اجڑ جائے گا، شاید وہ روزے سے ہوں، جب وہ خریداری کرنے گھر سے نکلے تھے تو کس قدر مسرور ہوں گے خریداری اور وہ بھی عید کی۔ عید کی خوشیوں کا اندازہ ایک سچے مسلمان کو اچھی طرح ہوتا ہے۔ گویا عید روزوں کا انعام و اکرام ہے۔ لیکن ان دونوں میاں بیوی اور ان کے بچے کو عید تو کیا گھر آنا ہی نصیب نہ ہوا۔ اجل نے خوش آمدید کہا اور اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا، یوں یہ خاندان اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوا۔ کے بی آر کے نالے میں موت انھیں گاڑی سمیت گھسیٹتی ہوئی لے گئی اور2 دن بعد نیوی کے غوطہ خوروں نے سخت جدوجہد کے بعد کار کو دریافت کر لیا۔ ماں بیٹا گاڑی میں ابدی نیند سو چکے تھے، شوہر مظفر لاپتہ تھا، جس کی لاش بھی بالآخر دو روز بعد ملی۔ رمضان کے آخری عشرے کی بارش میں کتنے ہی لوگ سیلابی ریلے میں بہہ گئے، جن کا کچھ اتا پتہ نہیں۔

عروس البلاد شہر کراچی کو نہ جانے کن لوگوں کی حسد بھری نگاہیں تباہ کر گئی ہیں، تعصب اور نفرت کو پروان چڑھایا گیا ہے، روز لاشیں گرتی ہیں، خون بہتا ہے، گلی کوچے لہو میں نہا چکے ہیں، گھروں میں گریہ و زاری ہے، قیامت کا منظر ہے مگر قیامت پھر بھی نہیں ہے کہ کچھ جیتے ہیں تو کچھ مرتے ہیں، مرنے والے تو دور بہت دور چلے جاتے ہیں ایک نیا گھر بساتے ہیں، لیکن جینے والے کیا کریں؟ زندہ درگور ہیں۔ اس عید پر بے شمار گھرانے عید کی خوشیوں سے محروم تھے، گھر بار اجڑ چکے تھے۔ اسی طوفانی بارش میں دو سگے بھائی ایک ساتھ ہی کوچ کر گئے۔ کراچی کے کئی علاقے بارش کے پانی سے سمندر کا نقشہ پیش کر رہے تھے اور اس سمندر میں لوگ ڈوب رہے تھے، لیکن افسوس صد افسوس حکمرانوں اور انتظامیہ کی بے حسی اور غفلت کا یہ عالم کہ بروقت کسی کی مدد نہ کی گئی اور نہ ہی پانی کو نکالنے کے لیے کسی بھی قسم کے آلات استعمال میں آئے۔ جیسے ہی نئی حکومت آئی سب کچھ بدل گیا بس چرب زبانی، اپنی بات پر اڑے رہنا اور ہر غلط بات کو صحیح کہنا ارکان حکومت نے اپنا شیوہ بنا لیا۔ اپنے فرائض سے کوتاہی کی صورت میں ملکی و شہری حالات ابتر سے ابتر ہوتے چلے گئے، ادارے تباہ و برباد ہو گئے، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، مخالف پارٹیوں سے رنجشیں، حج کرپشن، جعلی ادویات اور بہت سی ایسی باتیں سامنے آئیں جن سے انسانیت کی خوب خوب تذلیل ہوئی۔ انسان کی حیثیت ٹکے سے بھی کمتر ہو گئی بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اہمیت رہی ہی نہیں۔ اس گھناؤنے کھیل میں بہت سارے لوگ اور سیاسی پارٹیاں شامل تھیں جنھوں نے ترقی کی طرف گامزن ہوتے ہوئے پاکستان کو زوال بخشا۔

آج جب کہ کھلے بندوں لوگوں پر مظالم ہو رہے ہیں۔ ساتھ میں قدرتی آفات بھی انسان کے بداعمالوں کی وجہ سے نازل ہو رہی ہیں اگر کراچی کے ایڈمنسٹریٹر پہلے ہی برسات کی تباہی سے بچنے کے انتظامات کر لیتے تو گھر گھر محشر بپا نہ ہوتا، سیلاب انسانوں کو بہا کر نہ لے جاتا اور پھر نہ ہی لاشوں کی صورت میں واپس لوٹاتا، ایسے ایسے علاقوں میں سیلابی ریلے نے تباہی مچائی جہاں امید نہیں تھی۔ اسکیم 33 کی رہائشی سوسائٹیاں اور اطراف میں آباد گوٹھ ڈوب گئے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت سیلابی ریلے کی وجوہات کا اب تک پتہ نہیں چلا سکی ہے کہ آیا یہ سمندری طوفان نما پانی آیا کہاں سے؟ دیکھتے ہی دیکھتے آبادیاں ندی، نالوں اور سمندری پانی کا نقشہ پیش کرنے لگیں، پریشان اور حواس باختہ لوگ یہ بات سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ شاید سونامی آ گیا ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ یہ سیلابی ریلا سونامی ہی ثابت ہوا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیلاب میں سمندری طغیانی کی بھی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور لوگ بے یار و مددگار تھے۔ تباہ کن بارش کے بعد اس بات کا مزید اندازہ ہو گیا کہ کراچی ایک یتیم شہر بن چکا ہے اس کے سر پر کوئی ہاتھ رکھنے والا نہیں، اس نا انصافی پر کراچی اور کراچی کے مکین خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ افسران بالا کو کراچی کی تعمیر و ترقی سے بالکل دلچسپی نہیں رہی ہے، یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ ان کا کام ہی نہیں ان کا کام تو صرف مراعات حاصل کرنا ہے۔ اور تمام اشیاء پر لگائے گئے ٹیکسوں کو وصول کرنا ہے، یہ عمل بالکل ایسا ہی ہے کہ کسی نیم مردہ جسم سے بوٹیاں اتاری جائیں۔ اس موقع پر صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے بھی سفاکی کا بھرپور مظاہرہ کیا، یقیناً یہ بات حیران کن ہے کہ یہ ادارہ آفات و سانحات سے نمٹنے کے لیے قائم کیا گیا تھا لیکن ہفتے کی بارشوں کی تباہی میں بھی یہ مکمل طور پر غیر فعال رہا۔

ملک کا یہ حال ہے کہ آوے کا آوا ہی خراب ہے۔ کے ای ایس سی بھی اگر اپنے فرائض پر غور کرتی اور بارش کی آمد سے قبل ٹوٹے تاروں کی مرمت کروا دیتی تو آج اس قدر لوگ کرنٹ لگنے سے ہلاک نہ ہوتے ایک ایک گھر سے دو، اور چار چار جنازے ہرگز نہ اٹھتے۔ کے ای ایس سی کے ادارے نے بھی لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور خوب بدنامی سمیٹی ہے، اس کے باوجود کان پر جوں نہیں رینگتی ہے۔ ماہ رمضان میں بھی لوڈشیڈنگ کی جاری رہی۔ بعض علاقوں میں 27 ویں شب 2 بجے سے صبح دوپہر اور شام بجلی غائب رہی ہے۔ یہ رمضان کا تقدس اور روزہ داروں کی خاطر تواضع تھی، ساتھ میں اپنی نا اہلی کی وجہ سے لاشوں کے تحفے مفت تقسیم کیے گئے ہیں۔ بڑی ہی شرم کا مقام ہے۔ لوگوں سے ان کا سکون، ان کا رزق اور زندگیاں چھین لی گئی ہیں، لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔