جن پہ تکیہ تھا وہی پتے…

شیریں حیدر  منگل 13 اگست 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ٹورنٹو کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ سارے کا سارا اس روز اداسی کا منظر پیش کر رہا تھا، اپنے بچوں کو الوداع کہہ کر واپس اپنے ملک میں لوٹنا ہمیشہ مشکل مرحلہ ہوتا ہے، آنکھیں بھر بھر آ رہی تھیں اور ان کو چھپانے کے لیے کبھی کسی طرف دیکھتی اور کبھی کسی طرف… ذرا سے فاصلے پر نظر پڑی تو وہیں ٹھہر گئی، مجھی جیسی کوئی ماں اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھی تھی، بلکہ ساتھ کیا، اس نے اپنے بیٹے کو تقریباً اپنی گود میں لٹا رکھا تھا اور بار بار ا س کے چہرے پر ہاتھ پھیرتی- اس کے چہرے پر ایسا ہی حزن تھا جو اس وقت کسی بھی ماں کا ہو سکتا تھا جو اپنے بیٹے سے جدا ہو رہی ہو- یہ اندازہ مجھے اس خاتون کے بڑے سے دستی سامان والے بیگ سے ہوا کہ وہ جا رہی تھیں اور بیٹا انھیں رخصت کرنے کے لیے آیا تھا۔

نہ چاہتے ہوئے بھی میری نظر ان پر جم گئی کیونکہ وہ خاتون عجیب سی حرکتیں کر رہی تھیں- بیٹے کو ساتھ لپٹاتیں اور کبھی ہاتھ میں پکڑا ہوا رسالہ اس کے چہرے پر رکھ دیتیں، ان کی نظر مسلسل دائیں بائیں کا طواف کر رہی تھیں- بیقراری ان کے چہرے سے مترشح تھی، بار بار وہ کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر وقت دیکھتیں… فلائیٹ کے آدھا گھنٹہ لیٹ ہونے کا اعلان ہوا تو میں نے سوچا کہ نماز پڑھ لی جائے سو وضو کرنے کو غسل خانے میں چلی گئی اور باہر نکلی تو انھیں اپنے بیٹے سمیت داخل ہوتے دیکھا…’’ یہ زنانہ غسل خانہ ہے! ‘‘ میں نے فوراً ا نہیں روکا۔ وہ وہیں رک گئیں، مگر باہر نہیں نکلیں بلکہ مڑ کر باہر دیکھا اور وہیں کھڑی رہیں- ’’ آپ باہر آ جاؤ، اس سے پہلے کہ کوئی خاتون پولیس میں رپورٹ کر دے! ‘‘ میں نے ان کے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہا تو ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ ’’ نہیں نہیں پلیز… ‘‘ انھوں نے التجائیہ انداز میں کہا، ’’ چلو محمد… ‘‘ وہ بیٹے سمیت باہر نکل آئیں مگر واپس اپنی سیٹ پر نہیں آئیں بلکہ قریبی دکان میں چلی گئیں- ا ئیر پورٹ پر سیکیورٹی وا لے اپنی معمول کی گردش پر تھے، جانے کیوں مجھے خیال آیا کہ وہ دانستہ اس دکان میں گئی تھیں، دکان میں بھی وہ مجھے خواہ مخواہ ہی گھومتی نظر آئیں۔

تھوڑی دیر کے بعد پرواز کی روانگی کے لیے مسافروں کے قطار میں کھڑے ہونے کا اعلان ہوا تو انھوں نے جلدی سے اپنا سامان اٹھایا اور سب سے آگے جا کر اپنے بیٹے کے ساتھ کھڑی ہو گئیں، میں حیران تھی کہ ا ن کا بیٹا بھی ان کو نہیں سمجھا رہا تھا کہ اس طرح کا جذباتی پن نہ دکھائیں-میں نے توجہ ان سے ہٹا لی کہ اب وقت بہت کم رہ گیا تھا اور بہت سی باتیں جو آخری منٹ پر یاد آتی ہیں، اب مجھے یاد آ رہی تھیں- میرا دھیان بٹ گیا اور ذہن سے چند منٹوں کے لیے یہ بات نکل ہی گئی، جب میں اپنے پیاروں کو اللہ کے حوالے کر کے روانہ ہوئی اور جہاز میں اپنی سیٹ پر پہنچی تو میری حیرت کو وہ دونوں ماں بیٹا بھی ساتھ والی سیٹوں پر بیٹھے نظر آئے-میں نے دستی سامان اوپری خانے میں رکھا اور اپنی نشست سنبھالی، میرا اندازہ تھا کہ بیٹے نے خصوصی اجازت لی ہوگی کہ ماں کو جہاز میں اس کی نشست تک پہنچا ئے گا کیونکہ اب تو ائیر پورٹ کی عمارت میں داخلہ بھی ۱۱/۹ کے بعد مشکل ہو گیا ہے مگر جہاز کی روانگی کا اعلان ہوا اور وہ وہیں بیٹھا رہا، ’’ کیا آپ کا بیٹا بھی آپ کے ساتھ جا رہا ہے؟ ‘‘ میں نے حیرت سے ان خاتون سے پوچھا- ’’ میرے ساتھ نہیں جا رہا… میں اسے یہاں سے بچا کر نکال کر لے کر جا رہی ہوں! ‘‘ انھوں نے مختصراً کہا… ’’ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں اس وقت اس کے ساتھ جہاز میں ہوں! ‘‘

انھوں نے اپنے ہاتھ بلند کر کے چہرہ بھی اوپر کیا ، ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے- جہاز چل پڑا، ہماری فلائیٹ لگ بھگ پندرہ گھنٹے کی تھی اور یہ کافی وقت ہوتا ہے، کسی کو جاننے، کسی سے واقفیت قائم کرنے اور اس کی کہانی جاننے کے اپنے تجسس کو ختم کرنے کے لیے-ہمارا تعلق لاہور کے ایک مشہور خاندان سے ہے، پیسے کے ریل پیل نے ہمارے بچوں کو اپنے مذہب اور ملک سے محبت سے اسی طرح دور کر رکھا تھا جیسے کہ اس وقت ملک کے بیشتر گھروں میں ہو رہا ہے- پارٹیاں، شغل میلہ، گھومنا پھرنا… میرا بیٹا بھی ایسا ہی نوجوان تھا، اس کے سپنوں میں امریکا جانے کا خواب بسا تھا- ہم نے محمد علی کو امریکا بھیج دیا تھا-گزشتہ برس میں اسے ملنے کے لیے امریکا آئی تھی تو مجھے اس میں کچھ تبدیلیاں نظر آئیں- بات بات میں یہ مذہب کے حوالے دیتا -اس نے چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھ لی، اس کے دوستوں میں مجھے ملا ٹائپ کے دوست زیادہ نظر آئے، وہ میرے سامنے بھی اپنے سر جھکا کر بات کرتے-

محمد مجھے کہتا کہ یا تو میں اس کے دوستوں کے سامنے نہ آؤں یا پھر سر پر دوپٹہ لے کر آیا کروں- نماز بھی یہ باقاعدگی سے پڑھتا تھا- مجھے کچھ خوشی بھی ہوئی کہ اس نے مذہب کی طرف خود کو مائل کیا تھا، کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے جیسے ان نوجوانوں سے متاثر ہو کر جو مختلف ملکوں سے یہاں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئے تھے- محمد کی شخصیت بالکل بدل گئی تھی، میں نے واپس جا کر اپنے شوہر کو بتایا تو انھیں کچھ تشویش ہوئی کہ وہ کہیں کسی انتہا پسند گروہ کا رکن نہ بن گیا ہو۔ ایک سال بعد اس بار پھر میں اسے ملنے کو آئی تھی… اب مجھے اپنے شوہر کی اس وقت کی سوچ سچ ہوتی نظر آ رہی تھی۔محمد اب کافی شدت پسند ہو گیا تھا اور امریکا اور ا سکی پالیسیوں کے بارے میں کھلے عام بولتا تھا، مجھے اس کے دوستوں کی سرگرمیاں کچھ پراسرار سی لگ رہی تھیں۔ان سب کے پاس مہنگے موبائل اور لیپ ٹاپ تھے جو ان کے اسلامک سینٹر سے فراہم کیے گئے تھے، وہ سب اپنے پڑھائی کے وقت کے علاوہ ایک ایک لمحہ اسلامک سینٹر کو دیتے تھے، معلومات جمع کرنا، انھیں دنیا بھر میں اپنے نیٹ ورک پر پھیلانا… میں کچھ سہم سی گئی کہ یہ بچے کن راہوں پر نکل گئے تھے۔

امریکا جیسے ملک میں کہ جہاں محمد، احمد، علی، عبداللہ یا عبدالرحمٰن جیسا نام ہونا ایک ایسا جرم ہے کہ جن کی بنا پر آپ کو ائیر پورٹ پر بسا اوقات ایک علیحدہ قطار بنانا پڑتی ہے… یہ سب بچے انجام سے بے پرواہ تھے اور ان کے مطابق وہ بظاہر اسلام کی ترویج اور پھیلاؤ کے لیے کام کر رہے تھے۔اس رات میںمحمد کے اپارٹمنٹ میں اکیلی تھی، وہ مجھے بتا کر گیا تھا کہ وہ اس رات واپس گھر نہیں آئے گا، ان کے سینٹر میں ان کی کوئی کانفرنس تھی- ہمارے اپارٹمنٹ سے نچلے اپارٹمنٹ میں بھی محمد کا ایک گہرا دوست رہتا تھا، اور اسی کی طرح اس کا ظاہری اور باطنی حلیہ بدلا تھا۔ محمد بتا کر گیا تھا کہ وہ اس رات اس کے ساتھ نہیں جا رہا تھا کیونکہ اس کی طبیعت ٹھیک نہ تھی اور مجھے کوئی مسئلہ ہو تو میں عماد سے کہہ دوں مجھے لگا جیسے اس کے اپارٹمنٹ میں سے بہت سی آوازیں آ رہی ہوں- ’’ اللہ خیر کرے … ‘‘ میں نے سوچا اور باہر نکلی کہ دیکھوں کیا ماجرا ہے-لفٹ کا انتظار کرنے کی بجائے میں نے سیڑھیوں سے اترنے کا فیصلہ کیا کہ سیڑھیوں کے اختتام پر عماد کا کمرہ تھا، میں ابھی سیڑھیوں سے مڑی بھی نہ تھی کہ مجھے عجیب سی آوازیں سنائی دیں، میں نے نیچے جھانک کر دیکھا، وہ چار لوگ تھے اور عماد کو بری طرح زد و کوب کر رہے تھے۔

اس سے پوچھ رہے تھے کہ اپنے ساتھیوں کے نام بتائے مگر وہ مسلسل انکار کر رہا تھا کہ وہ کسی تنظیم کا حصہ تھا یا اس کے کوئی ساتھی تھے- میرا سارا وجود لرز رہا تھا- میں ڈر رہی تھی، میرے ذہن میں وہ فلمیں آ رہی تھیں جن میں ۱۱/۹ کے بعد امریکا میں پاکستانیوں کے حالات اور انھیں مشکوک قرار دینے کے بارے میں تھیں- ’’ ہے… کیا تم اسے جانتی ہو؟ ‘‘ کسی نے مجھے دیکھ لیا تھا- ’’ میں اسے جانتی تو نہیں مگر اس نے کیا جرم کیا ہے؟ ‘‘ میں نے اچانک جھوٹ بولا، ’’ کیا اس نے کوئی چوری وغیرہ کی ہے؟ ‘‘،’’ چوری تو بہت چھوٹا جرم ہے… یہ اپنے پاکستانی ساتھیوں کے ساتھ مل کر عظیم امریکا پر ایک بڑے حملے کی سازش میں مصروف ہے، اور ان کی سر پرستی ان کا ایک ہمسایہ ملک کر رہا ہے! ‘‘ کسی ایک نے مجھے بتایا، ’’ کیا تم یہاں رہتی ہو اور اس کے دوستوں کے بارے میں جانتی ہو یا کوئی اور پاکستانی لڑکا… ‘‘،’’ نہیں ہر گز نہیں… میں تو کینیڈ ا کی شہری ہوں، اپنی سہیلی کی بیٹی کی شادی کے لیے آئی ہوں! ‘‘ میں نے فوراً بات بنائی مگر اس میں آدھا سچ یہ تھا کہ میں واقعی کینیڈا سے وہاں گئی تھی-

میری جان تو بچ گئی مگر وہ بیمار عماد کو گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے گئے، وہ ملک جو انسانی حقوق کا علمبردار بنا پھرتا ہے اس ملک میں کوئی غیر ملکی ان کی دسترس سے نہیں بچ سکتا-عماد اس وقت تو ڈٹا ہوا تھا اور کسی دوست کا نام نہیں بتا رہا تھا مگر تابکے… تشدد وہ کسی حد تک ہی برداشت کر سکتا تھا، ایک وقت آئے گا کہ وہ سب کچھ اگل دیگا، تو کیا اس وقت وہ محمد کا نام بھی لے گا اورمحمد بھی اسی طرح…آگے سوچنا میرے لیے محال تھا، اس وقت میں صرف ایک ماں تھی اور میرا اہم ترین مقصد بیٹے کوان ظالموں سے بچا کر لے جانا تھا، میں نے راتوں رات سارے انتظامات کیے اور جونہی یہ صبح واپس آیا میں نے اسے عماد کے بارے میں مختصراً بتایا اور اسے اپنے ساتھ لے کر کینیڈا آ گئی اور اب اسے لے کر پاکستان واپس جا رہی ہوں ہمارے بچے اپنے ملک سے تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں اور یہاں آ کر جانے کن سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور بہت سے نوجوان لوٹ کر واپس ہی نہیں آتے اور نہ ہی کبھی ان کا سراغ ملتا ہے-محمد تو مان ہی نہ رہا تھا مگر اسی دن اسے علم ہو گیا کہ اس کے بہت سے دوستوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا، کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ میں اسے بذریعہ سڑک لے کر راتوں رات کینیڈا اور پھر ایمر جنسی کا کہہ کر سیٹ بک کروا کے اپنے ساتھ واپس لے کر جانے میں کامیاب ہو چکی ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔