پی ٹی آئی کا کرپشن کے خلاف بیانیہ… ایک سوال؟

مزمل سہروردی  منگل 2 اپريل 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وزیراعظم عمران خان کا کرپشن کے خلاف بیانیہ کیا ہے؟ کیا عمران خان کا کرپشن کے خلاف بیانیہ صرف اور صرف سیاسی مخالفین کے لیے ہے کیونکہ حکومت میں موجود کرپٹ افراد کے بارے میں وزیراعظم کی زبان ہی نہیں بلکہ بولتی بھی بند ہو جاتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ کرپشن کے جعلی نعرے کی آڑ میں اپنے سیاسی مخالفین کو مائنس کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔

عمران خان کو اقتدار سنبھالے سات ماہ سے زائد ہو گئے ہیں۔ ان سات ماہ میں عمران خان اور ان کی ٹیم کرپشن کا ایک بھی کیس سامنے نہیں لا سکی ہے۔ پرانے کیسز پر ہی سیاست کی جا رہی ہے۔ بلکہ جب پاؤں جلنے لگتے ہیں تو یہ توجیح پیش کرنی شروع کر دی جاتی ہے کہ ہم نے تو کوئی کیس نہیں بنایا۔ یہ سب پرانے کیس ہیں۔ کرپشن کے خلاف جنگ صرف تقریروں میں جاری ہے۔

کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ آپ کہتے تھے کہ اگر ایف آئی اے مجھے مل جائے، حکومت مل جائے تو میں منی لانڈرنگ ختم کردوں گا۔ آپ ہمیں بتاتے تھے کہ ملک سے روزانہ ہزاروں نہیں لاکھوں نہیں اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوجاتی تھی۔کہاں ہیں منی لانڈرنگ کے وہ کیس؟ یہ تو تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ منی لانڈرنگ صرف آصف زرداری تک محدود تھی۔ پنجاب،کے پی، بلوچستان اور کہیں سے کوئی منی لانڈرنگ نہیں ہو رہی تھی۔ سمجھ نہیں آرہی کہ منی لانڈرنگ کی وہ کہانیاں جو عمران خان الیکشن سے پہلے سناتے تھے سچی تھیں یا جھوٹی۔ ایف آئی اے ابھی تک منی لانڈرنگ کے کیس کیوں سامنے نہیں لایا۔

پاناما کے کیس میں عمران خان ہمیں سمجھاتے تھے کہ پہلے نواز شریف کا احتساب ہو جائے، پھر پاناما کے باقی ملزمان کا احتساب کیا جائے گا۔ پاناما میں چار سو سے زائد پاکستانیوں کے نام تھے لیکن احتساب صرف نواز شریف کا ہوا ہے۔ جے آئی ٹی صرف نواز شریف پر بنی ہے۔ باقی سب آزاد پھر رہے ہیں۔ ان میں سے کسی کے خلاف نہ تو کوئی کیس بنا ہے اور نہ ہی کسی کا کوئی احتساب ہوا ہے۔ اسی طرح پاناما کے کتنے کردار آج حکومت میں ہیں، ان کا احتساب کیوں نہیں ہو رہا۔ پاناما کے باقی کردار کیوں آزاد پھر رہے ہیں۔

عمران خان آپ ہی تو ہمیں سمجھا تے تھے کہ جب کسی پر کرپشن کا الزام لگ جائے تو اسے اقتدار سے الگ ہوجانا چاہیے۔ آپ ہی تو ہمیں سمجھاتے تھے کہ الزام لگ جانے کے بعد اقتدار سے چپکے رہنا بھی کرپشن ہے۔ لیکن آج حکومت کے کتنے وزرا کرپشن کے الزمات کی زد میں ہیں۔ لیکن آپ انھیں علیحدہ کرنے کو تیار نہیں۔ ایک و زیر کے سو ارب کے اثاثوں کی داستان سب کے سامنے ہے۔ لیکن سب خاموش ہے۔ اگر یہ داستان کسی اپوزیشن کے رکن کی ہوتی تو آپ طوفان مچا دیتے۔ یہ کیسا احتساب ہے جس میں حکومت کے ارکان کی گرفتاریاں تو رکی ہوئی ہیں اور اپوزیشن کی گرفتاریاں جاری ہیں۔

آپ ہی تو بتاتے تھے کہ نا اہلی کے بعد سیاست کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ جب ملک کی سب سے بڑی عدالت کسی کو نا اہل قرار دے دتو وہ صادق اور امین نہیں رہتا۔وہ چور ہے۔ اس کو چور ہی سمجھنا چاہیے۔ اسے کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ لیکن آپ اپنے جماعت کے نا اہل کو کابینہ میں ساتھ بٹھاتے ہیں۔ شریک اقتدار کرتے ہیں۔ کیا یہ توہین عدالت نہیں ہے۔ کیا یہ دہراے معیار نہیں۔ اسی طرح بابر اعوان کی ہر جگہ موجودگی بھی سوالیہ نشان پیدا کر رہے ہیں۔ مقابلے میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے ریفرنس زیر سماعت ہیں لیکن آپ ان سے آئینی مشاورت کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ آپ ان کو قانونی قائد حزب اختلا ف بھی ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ کیسا معیار ہے۔

کہاں ہیں وہ روزانہ کی ہزاروں ارب کی کرپشن۔ جس کو روک کر پی ٹی آئی نے ملک کی قسمت بدل دینی تھی۔ شایدگزشتہ سات ماہ سے کرپشن نہیں ہو رہی ہوگی۔

پی ٹی آئی والے ہی تو بتاتے تھے کہ ملک سے باہر دولت ملک دشمنی ہے۔ جس کو ملک سے محبت ہے اس کی دولت ملک میں ہونی چاہیے۔ آج کابینہ کے ارکان کی بیرون ملک جائیدادیں نکل رہی ہیں۔ اب کیوں بیرون ملک دولت کے خلاف ایکشن رک گیا ہے۔ کیالوگ سوال کر نے میں حق بجانب ہیں کہ علیمہ خان کی بیرون ملک جائیدادیں سامنے آنے کے بعد ساری کارروائی روک دی گئی ہے۔

عوام کو یہی بتایا گیا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی ملک سے دشمنی ہے۔کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی ہوتی ہے۔ آج روپے کی قدر میں کمی کی ذمے دار حکومت کیوں نہیں ہے۔ کل تک یہ چوری اور ملک دشمنی تھی۔ آج کیوں نہیں ہے۔ کل تک نا اہلی تھی آج کیوں نہیں ہے۔

کل تک ہمیں سمجھایا جاتا تھا کہ ملک میں لوگ ٹیکس اس لیے نہیں دیتے کیونکہ حکمران چور ہیں۔ لوگوں کو حکمرانوں پر اعتماد نہیں اس لیے وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ آج حکومت تو سابقہ چور حکومتوں جتنا ٹیکس بھی اکٹھا نہیں کر سکی ہے۔ آج ٹیکس محصولات میں کمی کا کون ذمے دار ہے۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ موجودہ حکومت نے ملک کے ٹیکس کلچر کو پہلے سے بھی خراب کر دیا ہے۔

کل تک پی ٹی آئی حکومت کے وزیر خزانہ ہمیں حساب کر کے بتاتے تھے کہ پٹرولیم مصنوعات میں اسحاق ڈار کتنا ٹیکس وصول کر رہا ہے۔ بتایا جاتا تھا کہ یہ ٹیکس کتنے ناجائز ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کتنی ہے اور ملک میں اس حساب سے کتنی ہونی چاہیے۔ ان ٹیکسوں کو ملک سے دشمنی کہا جاتا تھا۔ عوام پر ظلم قرار دیا جاتا تھا۔ وعدہ کیا جاتا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت برسراقتدار آئی تو پٹرولیم پر ٹیکس ختم کردیا جائے گا۔آج کہاں گئی وہ باتیں ، وہ وعدے۔ آج پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ چوری کیوں نہیں ہے۔

کل مہنگائی کی واحد وجہ حکمرانوں کی چوری تھی۔ چور حکمران عوام کا خون چوس رہے تھے۔آج مہنگائی کی وجہ چور حکمران کیوں نہیں ہے۔ جو کام کل جرم تھا آج جائز کیسے ہو گیا۔ کل جو چوری تھی آج ایماندری کیسے ہو گئی۔ کیا کرپشن اور چوری کے نعروں کو اقتدار میں آنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی کیا جارہا ہے۔

کہاںہیں پولیس کی اصلاحات۔ کہاں ہیں احتساب کا نیا نظام۔ کہاں ہیں کرپٹ بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی کے دعوے، آج تو کہاجارہا ہے کہ بیوروکریٹس کے خلاف کارروائی روک دی جائے۔ آج حکومت ان کی وکیل بن گئی ہے۔ کل تک بیورکریٹس سابق حکمرانوں کے غلام تھے، آج آپ انھیں کیوں غلام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کی کرپشن کے خلاف جنگ صرف اور صرف اپنے سیاسی مخالفین کو مائنس کرنے کی جنگ ہے۔ شائد جن کوووٹ سے نہیں ہرایا جا سکتا، انھیں نیب سے ہرا دیا جائے، انھیں کرپٹ قرا ر دے دیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔