تلافیٔ مافات

ڈاکٹر یونس حسنی  منگل 2 اپريل 2019

کرائسٹ چرچ میں ہونے والی دہشت گردی کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حملہ آور نے دو مساجد پر حملہ کرکے اور پوری منصوبہ بندی سے حملہ کرکے پچاس نمازیوں کو شہید اور سو سے زیادہ افراد کو زخمی کردیا۔ ان سو میں سے بھی درجنوں زخمی موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔حملہ آور نے اپنی اس دہشت گردانہ کارروائی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی،اس نے اس کی ویڈیو بھی بنائی اور دنیا کو یہ بتانا شروع کر دیا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔

افسوسناک امر تو یہ ہے کہ قاتل جب پکڑا گیا تو اسے اپنے کیے پر ذرا بھی ندامت محسوس نہیں ہوئی بلکہ وہ عدالت میں پیشی کے موقع پر انتہائی ڈھٹائی سے مسکراتا رہا۔اس سے عیاں ہوتا ہے کہ ملزم اپنے اس عمل کو جائز سمجھ رہا تھا اور وہ اس دہشت گردی پر خوش تھا۔

اس دہشت گردی سے انسانی جانوں کا ضیاع اور درجنوں خاندانوں کی معاشی و جذباتی بدحالی تو فطری بات ہے اور وہ ہوئی مگر اس کے کچھ فوائد بھی ہوئے۔ سب سے نمایاں فائدہ یہ ہوا کہ مغرب کو پہلی بار یہ بات معلوم ہوئی کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ ایسا نہیں ہے کہ مغرب کو یہ بات سرے سے معلوم ہی نہ تھی بلکہ وہ اس سے تجاہل عارفانہ برتتے رہے تھے۔

ہر گوری، عیسائی دہشت گردی کو وہ ذوق نشانہ بازی یعنی شوٹنگ کہہ کر اپنی قوت ، طاقت ،کافرانہ ذہانت کے بل بوتے پر نظرانداز خود بھی کرتے اور دنیا کو بھی یقین دلاتے کہ معصوم گورے کوئی دہشت گرد تھوڑا ہی ہوتے ہیں وہ تو شوقیہ فائرنگ کرتے ہیں اب اگر اس کی زد میں کوئی آجائے تو اتلاف جان کی ذمے داری البتہ حکومت کی ہے اور وہ اس کا معاوضہ مناسب طور پر ادا کرتی ہے کیونکہ مغرب کے پاس مال ودولت کی کمی نہیں ہے۔

مسلمانوں کا خون تو لگتا ہے کہ یورپ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔اگر ایسی کوئی کارروائی کسی مسلمان نے کی ہوتی تو پورے یورپ میں طوفان آ جاتا اور ان کا میڈیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہ زہر اگلتا کہ خدا کی پناہ۔یورپ کے اسی متعصبانہ رویے کے باعث نیوزی لینڈ کے سانحہ کو بھی وہ کوریج نہ ملی جو ملنی چاہیے تھی۔

کبھی کبھی یہ شوٹنگ کسی اور سبب سے بھی ہوجاتی ہے اور اکثر اس کا بڑا سبب یہی ہوتا ہے یعنی خلل دماغ ۔ ہم اہل مشرق خلل دماغ کی صرف دو صورتوں سے واقف ہیں ایک وہ مرض جو انسانی ذہن و فکر کو معطل کرا کے اس سے کوئی بھی فعل سرزد کرا دے جسے مرض دماغی کہا جاتا ہے یعنی پاگل پن۔ خلل دماغ کی دوسری شکل وہی ہے جس سے نو عمر لڑکے لڑکیاں عام طور پر واقف ہوتے ہیں یعنی :

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

مگر اہل مغرب کا خلل دماغی پورے شعور کے ساتھ واقع ہوتا ہے۔ اس لیے اب تک وہاں ہونے والی ہر دہشت گردی کو شوق نشانہ بازی یا پھر دماغی افسردگی قرار دے کر داخل دفتر کردیا جاتا ہے مگر نیوزی لینڈ میں ہونے والی فائرنگ اتنی منظم، کامل منصوبہ بندی اور پوری عصبیت کے ساتھ کی گئی تھی کہ اسے چھپانا مشکل ہوگیا اور اہل مغرب بھی چلا اٹھے کہ یہ دہشت گردی ہے۔

اس دہشت گردی کو دہشت گردی قرار دلوانے میں نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم نے اہم رول ادا کیا۔ وہ شہید مسلمانوں کے غم میں برابر کی شریک رہیں انھوں نے اپنی تقریر میں بھی اسے بدترین دہشت گردی قرار دیا۔

انھوں نے نہ صرف مرنے والوں کے متعلقین سے اظہار ہمدردی کیا بلکہ مسلمانوں سے بحیثیت مسلمان ہمدردی کا اظہار کیا کہ وہ دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ وہ مسلمانوں سے ہمدردی کے لیے سیاہ لباس زیب تن کرکے اور دوپٹہ اوڑھ کر ان کی خواتین کو گلے لگاتی رہیں اور صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ غم زدہ بھی ہیں اور مخلص بھی۔ وہ مسلمانوں سے ہمدردی منافقانہ طور پر نہیں کر رہی تھیں جو عام طور پر سیاستدانوں کا شیوہ ہوتا ہے بلکہ ان کا دل نوحہ کناں اور ان کا چہرہ اس کا آئینہ دار تھا۔

چنانچہ پچھلے جمعہ کو مسجد النور کے باہر جو نماز کا اجتماع ہوا اس میں وہ خود بھی موجود رہیں اور نیوزی لینڈ کی سیکڑوں خواتین بھی سر ڈھانپے مسلمانوں کی اس عبادت میں شریک اور ان کے غم میں غمگین بنی رہیں۔ وزیر اعظم جیسنڈا نے جس طرح مسلمانوں کی دل سوزی کی مغرب کی ’’انسانیت‘‘ اب تک اس سے ناواقف اور نابلد تھی۔ انھوں نے مذہبی رواداری، حق کی حمایت اور مظلوم کی دادرسی کی اسلامی روایات کو اپنے عمل سے نبھایا۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے اس کردار کی ہر جگہ ستائش کی گئی۔

نیوزی لینڈ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود اب تک اس غم سے نہیں نکل سکا ہے اور ان پر قومی سوگواری کی کیفیت طاری ہے۔

ادھر جب نیوزی لینڈ میں ہونے والی مسلم کشی کو ابھی تیسرا دن تھا تو پاکستان میں کیا ہو رہا تھا۔ یہ درست ہے کہ دہشت گردی نیوزی لینڈ میں ہوئی تھی اور آنکھ اوٹ پہاڑ اوٹ کا معاملہ تھا اس لیے اس کے شدت غم کو یہاں بیٹھا آدمی محسوس نہیں کرسکتا تھا۔اس لیے یہاں کے آدمی کے جذبات اور طرح کے ہوتے ہیں۔

مگر مسلمان ہے تو جسدِ واحد ناں! کہیں بھی خون مسلم ارزاں ہو تو دکھ تو ہوتا ہے ناں پھر وہاں جو مسلمان شہید ہوئے اس میں آٹھ دس پاکستانی بھی تھے ان کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی، لوگ غم سے نڈھال تھے۔ مگر ہمارے یہاں کرکٹ کے مقابلوں کا اختتامی دن تھا اور اس کی اختتامی تقریب بھی اسی روز منعقد ہونا تھی جس دن شہدا کا سوئم تھا۔ ہم لوگ سوئم وغیرہ منانے میں بڑے فراخ دل ہیں اور خیال تھا کہ نیوزی لینڈ کے شہدا کا سوئم ہے تو اس کا لحاظ ضروری ہوگا مگر ہوا یہ کہ اس دن کے میچ سے قبل دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ چوبیس گھنٹوں میں دو منٹ کتنے فیصد بنے اس کا حساب لگانا ہمارے لیے دشوار ہے کہ ریاضی کے معاملے میں ہم کمزور ہیں۔

بہرحال دو منٹ بعد خاموشی ٹوٹی سیٹیاں بجیں، پاکستان کے مایہ ناز گلوکاروں نے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ داد سمیٹی، معاوضہ حاصل کیا اور میچ شروع ہوکر اپنے اختتام کو پہنچا۔ معلوم ہی نہ ہوسکا کہ یہ وہی قوم ہے جس پر ابھی غم کا پہاڑ ٹوٹا ہے۔

یہ ہمیں بھی معلوم ہے کہ اس مرحلے پر میچ کا التوا مناسب بھی نہ تھا اور ممکن بھی نہیں مگر یہ سب کچھ زیادہ پروقار انداز میں کیا جاسکتا تھا مگر ہمارے یہاں وہی ٹچا پن دکھائی دیتا ہے جو ان کھیلوں کا کلچر ہے۔

یہ کچھ ہمارے ذاتی احساسات ہیں۔ میچ کی منظر گاہ سے دور بیٹھے ہمارے معاشرے کے مختلف عناصر نے اسی قسم کے ردعمل کا اظہار کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔