افغانستان میں 2 ہزار پاکستانی ٹرک پھنسے ہوئے 9 ماہ گزر گئے

احتشام مفتی  منگل 2 اپريل 2019
افغان حکام صرف جلد خراب ہونیوالی اشیا پر مشتمل کنٹینر بردار ٹرکوں کو سرحد پار کرا رہے ہیں، ضیا الحق سرحدی۔ فوٹو: فائل

افغان حکام صرف جلد خراب ہونیوالی اشیا پر مشتمل کنٹینر بردار ٹرکوں کو سرحد پار کرا رہے ہیں، ضیا الحق سرحدی۔ فوٹو: فائل

کراچی: افغان حکومتی اداروں کی جانب سے واپس آنے والے پاکستانی ٹرکوں کی آمد میں رکاوٹوں نے جلال آباد اور کابل کے لیے مال بردار ٹرکوں کی قلت پیدا کردی جبکہ فی ٹرک کرایہ دگنا ہوگیا ہے۔

پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کی پاک افغان لائژن کمیٹی کے رکن ضیا الحق سرحدی نے ایکسپریس کو بتایا کہ افغانستان کے علاقے خوڑمیدان میں افغان حکام نے 2 ہزار سے زائد پاکستانی مال بردارٹرک گزشتہ 9ماہ سے روک رکھے ہیں تاہم افغان حکام غیرقانونی طورپرایک لاکھ روپے فی ٹرک کی ادائیگی پرٹرک چھوڑنے پر رضامند ہورہے ہیں۔ افغان حکام کے قانونی مطالبات افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات اور ٹرانزٹ ٹریڈ کو بری طرح متاثر کررہے ہیں۔

انھوں نے حکومت پاکستان پر زور دیاکہ وہ افغانستان میں پھنسے ہوئے پاکستانی ٹرکوں کی واپسی کے لیے سفارتی سطح پر کوششیں کرے کیونکہ گزشتہ 2سال سے پاک افغان تجارت میں تسلسل سے کمی اور ٹرانزٹ ٹریڈ تعطلی کا شکار ہے۔ فی الوقت افغان حکام پاکستان کے لیے صرف جلد خراب ہونے والی اشیا پر مشتمل کنٹینر بردار ٹرکوں کو سرحد پار کرارہے ہیں لیکن پاکستان سے پہنچنے والے خالی ٹرکوں کوغیرقانونی ادائیگی پر ہی سرحد پارکرایا جارہاہے۔

ضیا الحق سرحدی نے کہا کہ اس طرزعمل کے نتیجے میں ٹرانزٹ ٹریڈ سے منسلک طورخم سرحد پر خدمات انجام دینے والے336 کراس بارڈر کسٹمز ایجنٹس کی کاروباری سرگرمیاں منجمد ہوگئی ہیں اورکلیئرنگ سے وابستہ 10ہزار سے زائد افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ افغانستان میں مال بردار ٹرکوں کی واپسی میں رکاوٹوں کے باعث پاکستانی کلیئرنگ ایجنٹس وتاجروں پر ڈیمریج کی مد میں بھاری مالیت کا اضافی بوجھ پڑگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی وزارت تجارت زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے شپنگ کمپنیوں کے افغانستان میں پھنسے مال بردارٹرکوں پر ڈٹینشن چارجز ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔