باقر نقوی بھی رخصت ہوئے

زاہدہ حنا  بدھ 3 اپريل 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

وقت کی لہروں پر بہتے ہوئے ہم کہاں سے کہاں نکل جاتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی کچھ یہی ہوا۔ ان دنوں مجھے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ صبح کب ہوئی اور شام کب۔ اخبار کو ہاتھ لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ بہت مشکل اور ہمت سے کالم لکھتی رہی۔ گھر جانے کے دس پندرہ دن بعد اخباروں کا انبار لے کر بیٹھی تو معلوم ہوا کہ عزیز من باقر نقوی مہینہ بھر پہلے رخصت ہو چکے ۔

دھان پان سے باقر نقوی کو دیکھ کر اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایسی دقیق اور ضخیم کتابیں ترجمہ کر سکتے ہیں جو انھوں نے کیں۔ اردو میں ان لوگوں کی ضرورت ہمیشہ محسوس ہوئی جو اہم کتابوں کا ترجمہ کریں اور علم و دانش کو لوگوں تک پھیلائیں۔ ان کی زندگی کی شام ہو رہی تھی جب انھوں نے ادب میں نوبیل انعام پانے والے 100 ادیبوں کے نوبیل خطبات کا ترجمہ کیا۔ اسی طرح انھوں نے ’’نوبیل امن کے 100 سال‘‘ ہمارے سامنے پیش کر دیے۔ یہ وہ خطبات تھے جو 100 برس کے درمیان امن کے لیے جہد مسلسل کرنے والوں نے دیے۔

حیاتیات میں جن سائنس دانوں کو نوبیل انعام ملا ، ان کی نوبیل تقاریر کا بھی انھوں نے ترجمہ کیا۔ کئی مغربی ناول بھی ترجمہ ہوکر ان کے قلم سے نکلے۔ وکٹر ہیوگو جو دنیا کے عظیم ادیبوں میں شمار کیا جاتا ہے اور جس کا ناول ’’لامزرا بیل‘‘ ایک ادبی معجزہ ہے، باقر نقوی نے اس ضخیم ناول کا ترجمہ ـ’’مضراب‘‘ کے عنوان سے دو جلدوں میں پیش کیا۔ انھوں نے نوبیل انعام یافتہ جرمن ادیب گنٹر گراس کے مشہور و معروف ناول کو ’’نقارہ‘‘ کے نام سے شایع کرایا۔ وہ شاعر تھے، سائنس سے انھیں گہرا شغف تھا، انھوںنے مختلف جہتوں میں اتنا کام کیا کہ جو ادارے بھی نہیں کر پاتے۔ اس بارے میں ہمارے معروف ادیب اور شاعر مبین مرزا کو جتنی داد دی جائے وہ کم ہے۔ باقر نقوی کی تمام کتابیں انھوں نے اپنے ادارے ’’اکیڈمی بازیافت‘‘ سے نہایت سلیقے اور اہتمام کے ساتھ شایع کیں۔

تیسری دنیا اور بہ طور خاص برصغیر کے لوگ امن کو ترسے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے باقر صاحب کی کتاب ’’نوبیل امن کے 100 سال‘‘ نعمت غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ بیشتر خطبات پڑھتے ہوئے ان پر ادب پاروں کا گمان گزرتا ہے۔ ان تمام خطبات میں ’’امن‘‘ کو مختلف زاویوں سے دیکھا گیا ہے اور اس کی مختلف حالتیں بیان ہوئی ہیں جن کی مختلف زمانوں اور زمینوں کے دانش مندوں نے آرزو کی ہے۔ یہ خطبات دنیا کے مختلف علاقوں میں سانس لینے والے امن کے پیامبروں کے خیالات ہیں۔

اگر ہم ابتدا سے امن پسند حکمرانوں کا جائزہ لیں تو مصری فرعون اخناطون سے ملاقات ہوتی ہے۔ وہ تخت نشین ہوا تو اسے اپنے خوابوں سے فرصت نہ تھی کہ وہ فوجی مہمات پر نکلتا اور زر و جواہر ، کنیزیں اور غلام سمیٹ کر لاتا۔ فتوحات اور لشکر کشی اس کے لیے نہایت ناپسندیدہ کام تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شام، فلسطین اور ایشیائے کو چک جو مصری سلطنت کا حصہ اور اس کے باج گزار تھے ، وہ حملہ آوروں کے قبضے میں چلے گئے۔ اس نے اپنے جرنیلوں کو جنگی مہمات کے لیے خطیر رقم دینے سے انکار کیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ فوج میں اس کی مخالفت بڑھتی چلی گئی۔ مصری جرنیلوں اور پروہتوں کے لیے یہ ناقابلِ برداشت صورت حال تھی کہ ان کا فرعون امن اور انسانوں کی فلاح کی بات کرے۔ اس کے خلاف سازشیں ہونے لگیں۔ اس نے کل 17 برس حکومت کی اور دنیا کا واحد آدرش وادی فرعون دنیا سے رخصت ہوا۔ وہ دنیا کا پہلا حکمران ہے جس نے جنگ سے نفرت کی اور امن کے خواب دیکھے۔اسی طرح اخناطون کے ہزار برس بعد ہندوستان کی ریاست مگدھ میں اشوک پیدا ہوا جس نے کالنگا کے میدان میں اپنے حریف راجا کو شکست فاش دی لیکن وہ فتح جو انسانوں کے خون سے رنگین تھی، اس نے اشوک کو جنگ سے تائب کر دیا۔ وہ عدم تشدد کا ماننے والا ایک ایسا بادشاہ بن کر سامنے آیا جو رواداری کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔

کالنگا کے میدان میں جس طرح اشوک کی کایا پلٹ ہو گئی تھی۔ اسی طرح انیسویں اور بیسویں صدی کے دو مشہور نام جو ہلاکت خیزی سے جڑے ہوئے ہیں، انھوں نے جب سچ کا سامنا کیا تو ان کی زندگیاں منقلب ہو گئیں۔ ان میں سے ایک الفریڈ نوبیل ہے جس کی ایجادات ڈائنامائیٹ اور بیلا سائیٹ نے دنیا کو اپنی بنیادوں سے ہلاکر رکھ دیا اور ان ایجادات سے پہلے لڑی جانے والی جنگیں بچوں کا کھیل محسوس ہونے لگیں۔ دوسرا البرٹ آئن اسٹائن ہے جس کی تحقیق اور تجربات کے نتیجے میں ایٹم بم جیسے عفریت نے جنم لیا اور نوعِ انساں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا ایک ایسا نسخہ ایجاد ہوا جس کی تباہی کی جھلکیاں مختلف مذہبی کتابوں میں بیان ہونے والی قیامت کے ذکر میں دکھائی دیتی ہیں ۔

الفریڈ نوبیل نے اپنی ایجاد ڈائنامائیٹ اور بیلا سائیٹ سے دنیا کی جنگوں کا نقشہ ہی بدل دیا ۔ اس کے ساتھ ہی الفرڈ نوبیل کی دولت میں الغاروں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کے نتیجے میں وہ عذاب ناک احساس جرم میں مبتلا ہوا اور یہیں سے نوبیل امن انعام کی شروعات ہوئی۔ اس امن انعام کی محرک نوبیل کی ایک دوست نواب بیگم برتھا فان سٹیز بنی جسے 1905ء میں یہ انعام دیا گیا۔ اس نے انعام کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’تمام ابدی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ خوش حالی حالتِ امن ہی میں پیدا ہوتی اور پروان چڑھتی ہے اور تمام ابدی انسانی حقوق میں سے ایک حق، فرد کے زندہ رہنے کا حق ہے۔ ہمارے سماج کی عسکری تنظیم امن سے انکار کی بنیاد پر رکھی گئی ہے جو انسانی زندگی کی قدر کی توہین ہے‘‘۔

برتھا جب اپنا یہ خطبہ دے رہی تھی اس وقت اسے یقین تھا کہ دنیا کے جنگجو عناصر کو پسپا ہونا پڑے گا ۔ 1905ء کی اس جلیل القدر تقریب میں تقریر کرتے ہوئے اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی گھڑی جاتی ہے جب 1914ء میں وہ جنگ چھڑ جائے گی جو دنیا کی تاریخ میں جنگ عظیم کے نام سے یاد کی جائے گی اور اس کے خاتمے کے صرف 21 برس بعد ایک اور جنگ عظیم آغاز ہو گی جس کے بعد یہ دونوں جنگیں تاریخ میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے نام سے درج ہوں گی۔ کروڑوں شہری اور لاکھوں سپاہی ان دو جنگوں میں کھیت رہیں گے۔ یورپ کے درجنوں اہم شہر اور سیکڑوں بستیاں نابود ہوجائیں گی ۔

1905ء سے آج 2019ء میں ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو جنگیں آج بھی جاری ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یورپ نے دو جنگوں میں اپنی تباہی و بربادی کے بعد یہ طے کر لیا کہ اس کے اسلحہ ساز کارخانے دولت کا انبار سمیٹنے کے لیے جدید ترین اسلحہ تیار کرتے رہیں گے لیکن اس کا استعمال ہند چینی، شرقِ اوسط، افریقا اور ایشیا میں ہو گا۔ یہ امریکا اور یورپ کے حکمرانوں کا متفقہ فیصلہ ہے جس کے نتائج بیسوی صدی میں ہم نے دیکھے اور اب اکیسویں صدی میں بھی دیکھ رہے ہیں۔

یہ باقر نقوی تھے جن کے ترجمے سے ہم مغربی جرمنی کے وفاقی چانسلر ولی برانٹ کا وہ خطبہ پڑھ سکے جو انھوں نے دسمبر 1971ء میں امن انعام وصول کرنے سے پہلے دیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ شروع ہونے والی تھی۔ ولی برانٹ کا استقبال کرتے ہوئے نوبیل امن کمیٹی کی مسز آزے لایونائز نے کہا تھا : دو ترقی پذیر قومیں جنھیں افلاس کے چنگل سے نکلنے کے لیے امن کی اشد ضرورت ہے ، جنگ میں مصروف ہیں اور جس طرح دنیا بھر کے سیاستدان معصوم جانوں پر لگتے ہوئے نئے زخموں سے اپنی آنکھیں چرائے اور دلوں کو پتھر کیے بیٹھے ہیں قابل شرم ہیں ۔ جنوبی ایشیا ایک تباہ کن جنگ کے دہانے پر ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگوں کے لیے تیاریاں ہو رہی ہیں، جہاں ہزاروں کی تعداد میں بچے بھوک سے مررہے ہیں اور کروڑوں ہاتھ ایک وقت کی غذا کے لیے اٹھے ہوئے ہیں۔ ان مفلوک الحال ملکوں میں اگر کوئی شے فراواں ملتی ہے تو وہ اسلحہ ہے۔‘‘

باقر نقوی میری محبوب شخصیتوں میں سے تھے۔ وہ ہم سے رخصت ہو گئے ہیں۔ ایک صلح کل اور امن پسند انسان ہم سے رخصت ہو گیا۔ ایسے کسی شخص کا دنیا سے چلے جانا صدمے کا سبب ہوتا ہے ۔ دعا ہے کہ ان جیسا کوئی علم پرور اور امن دوست انسان ہمارے درمیان سے پھر اٹھے۔ ایسے نادرہ کار کی پیدائش کسی معجزے سے کم نہیں ہوتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔