موم بتی مافیا کو شکست اور پاکستان کو بدنام کرنے کا نیا حربہ

تصور حسین شہزاد  جمعرات 4 اپريل 2019
نام نہاد این جی اوز عدالت سے شکست کے باوجود اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں اقلیتوں کا استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

نام نہاد این جی اوز عدالت سے شکست کے باوجود اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں اقلیتوں کا استعمال کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

اسلام آباد کے پمز اسپتال نے نو مسلم بہنوں (روینا اور رینا) کی عمروں سے متعلق رپورٹ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔ پمز اسپتال کے ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی ڈاکٹر ثانیہ نے رپورٹ مرتب کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ روینا کی عمر 19 سال 6 ماہ جبکہ رینا کی عمر 18 سال 6 ماہ ہے۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق دونوں نو مسلم بہنوں کی عمر کا تعین ہڈیوں کے ریڈیالوجیکل تجزیئے کی بنیاد پر کیا گیا ہے جبکہ رپورٹ میں عمر کی مزید تصدیق کےلیے دانتوں کے تجزیئے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عمر کے مزید تعین کےلیے ڈینٹل اور کلینکیل چیک اَپ کرایا جائے۔ تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہڈیوں کے ریڈیالوجیکل تجزیئے کو دنیا بھر میں مؤثر ترین مانا جاتا ہے لیکن لڑکیوں کے لواحقین کی تسلی کےلیے ڈینٹل اور کلینیکل ٹیسٹ بھی کروائے جا رہے ہیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: ہندو لڑکیوں کا اغواء، موم بتی مافیا کا پروپیگنڈا اور حقیقت

لڑکیوں کی عمر کے حوالے سے حالیہ تجزیاتی رپورٹ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان مخالف ایجنڈے پر کاربند این جی اوز اور موم بتی مافیا خاموش ہوجاتے مگر اب انہوں نے یہاں سے ہونے والی سبکی کے بعد اس معاملے کو چھوڑ کر نیا ایشو کھڑا کر دیا ہے اور وہ اقلیتوں کے تحفظ کےلیے سندھ اسمبلی سے پاس ہونے والا بل ہے۔ اب یہ مافیا اس بل کو لے کر شور برپا کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ اقلیتوں کے تحفظ کےلیے اس بل کو قانون بنا کر نافذ کیا جائے۔

سندھ اسمبلی نے نومبر 2016 میں ’’میناریٹیز پروٹیکشن بل‘‘ منظور کیا تھا، جس کے تحت جبری طور پر مذہب کی تبدیلی اور اس میں معاونت پر 3 سے 5 سال قید کی سزا اور مقدمات کی سماعت کےلیے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ بل مسلم لیگ فنکشنل کے اقلیتی رکن نند کمار گوکلانی نے اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ اس بل کے ابتدائیہ میں کہا گیا ہے کہ مذہب کی جبری تبدیلی ایک مکروہ جرم ہے، جو پورے سندھ میں نظر آتا ہے اور جس کی روک تھام ضروری ہے۔

سندھ اسمبلی میں پیش کیے گئے اس بل میں جبری مذہب کی تبدیلی میں سہولت کاری کو بھی جرم قرار دیا گیا۔ متن کے مطابق اگر کوئی شخص، جسے معلوم ہے کہ ایک فریق یا دونوں فریقین کا مذہب جبری تبدیل کیا گیا ہے اور وہ شادی میں معاونت یا سہولت فراہم کرتا ہے، تو وہ بھی سزا کا مستحق ہوگا۔ اسے 3 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جائے گی۔ اس کے علاوہ شادی کا انتظام کرنے، نکاح پڑھانے والے مولوی اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے والوں کو بھی شریک جرم تصور کیا جائے گا۔

اس بل کے مطابق اگر کوئی کم عمر بچی یا بچہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے مذہب تبدیل کرلیا ہے تو اس کے دعوے کو قبول نہیں کیا جائے گا؛ تاہم بچے کے والدین یا کفیل اپنے خاندان سمیت مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ مذہب کی جبری تبدیلی مختلف حوالوں سے ہوسکتی ہے، اسے صرف جبری شادی یا جبری مشقت تک محدود نہیں سمجھا جائے گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی پر جبری مذہب تبدیل کرنے کا الزام ثابت ہوجاتا ہے تو مجرم کو 5 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جائے گی اور یہ جرمانہ متاثرہ فریق کو دیا جائے گا۔ بل میں بتایا گیا ہے کہ زبردستی مذہب کی تبدیلی کے مقدمے میں سندھ چائلڈ میریج ایکٹ، پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 498، 375، 376، 365 اور 361 کو بھی شامل رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ جبری مشقت کے خاتمے کے قانون کی شقیں بھی اس قانون میں شامل ہوں گی۔

اس بل کے منظور ہونے پر ہماری کچھ مذہبی جماعتوں نے احتجاج بھی کیا کہ یہ جانبدارانہ بل ہے۔ مذہبی جماعتوں کے تحفظات بہرحال اپنی جگہ پر ہیں لیکن اس بل کو اب بنیاد بنا کر موم بتی مافیا میدان میں اترنے جارہا ہے۔ نو مسلم لڑکیوں کے معاملے میں سبکی کے بعد ملک دشمنی کا ایجنڈا تبدیل کرلیا گیا ہے۔ اس بل کو نافذ کروانا اسمبلی کا کام ہے لیکن این جی اوز کی جانب سے اس حوالے سے دباؤ ملکی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے ان این جی اوز کی حدود و قیود متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ ان این جی اوز کو بتایا جائے کہ پاکستان کو بدنام نہ کریں، اگر کام ہی کرنا ہے تو غربت، بے روزگاری، اور انتہاء پسندی کے خلاف کام کریں، معاشرے میں رواداری کو فروغ دیں۔ بے بنیاد نظریات اور مفروضوں پر ملک کو تو بدنام نہ کریں۔

اب نیا پاکستان ہے اور نئے پاکستان میں اقلیتوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ حکومت پہلے ہی اقلیتوں کو تحفظ دینے کا عزم رکھتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تصور حسین شہزاد

تصور حسین شہزاد

بلاگر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرچکے ہیں۔ آج کل لاہور کے ایک مقامی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں اور متواتر بلاگ لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔