ٹوٹتے بکھرتے رشتے

رئیس فاطمہ  بدھ 14 اگست 2013

چند دن پہلے دو ہولناک خبریں پڑھ کر میں نے ایک بار پھر سوچا کہ۔۔۔۔ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔؟؟ جو واقعات یہاں رپورٹ کیے گئے ہیں، ان کی سنگینی پہ میں کالم بھی لکھ چکی ہوں۔ غالباً پہلا کالم اسی حوالے سے بارہ سال پہلے لکھا تھا۔ والدین کو خبردار بھی کیا تھا۔ اور والدین نے اس کا نوٹس بھی لیا تھا۔ بلکہ اس جانب توجہ دلانے پر شکریہ بھی ادا کیا تھا۔۔۔۔لیکن آج پھر وہی صورت حال۔۔۔۔اس لیے کہ والدین نے بیٹیوں کے معمولات پہ نظر رکھنی چھوڑ دی ہے۔ پرانی بات ہو گئی۔ جب امریکی صدر کی بیگم اور امریکا کی خاتون اول مشعل اوبامہ نے کہا تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کے روزمرہ کے معمولات پہ صرف نظر ہی نہیں رکھتیں، بلکہ ان کے موبائل فون بھی چیک کرتی ہیں، تا کہ انھیں علم رہے کہ ان کی بیٹیاں کن لوگوں سے میل جول رکھ رہی ہیں۔

پہلی خبر یہ ہے کہ انٹر کی ایک طالبہ گھر سے ٹیوشن سینٹر کا کہہ کر گئی۔ لیکن وہ وہاں سے اپنے ایک دوست کے ساتھ ہاکس بے پہنچ گئی۔ اتفاق سے لڑکی کی والدہ کسی کام سے ٹیوشن سینٹر پہنچیں تو وہاں پتہ چلا کہ وہ تو صبح نو بجے ہی واپس چلی گئی۔ انھوں نے بیٹی کا فون ملایا اور پوچھا کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔۔۔۔؟ تو ذہین بیٹی نے ترنت جواب دیا کہ وہ ٹیوشن سینٹر پہ ہے۔ جب والدہ نے بتایا کہ وہ اس وقت ٹیوشن سینٹر پہ موجود ہیں، تو صاحبزادی کے چھکے چھوٹ گئے۔ وہ دوست کے ہمراہ واپس گھر پہنچی۔۔۔۔اور پھر یہاں سے کہانی ایک نیا رخ اختیار کر لیتی ہے۔۔۔۔لڑکی کہتی ہے کہ اسے ٹیوشن سے واپس جاتے ہوئے دو نوجوانوں نے لفٹ کی پیشکش کی اور انکار پر اسے دونوں نے اغواء کیا۔ اور ہاکس  بے  لے جا کر ایک ہٹ میں ملزم نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔ لڑکی کے والد کا بھی یہی بیان ہے۔

جب کہ دوسری طرف ملزم اور وکیل صفائی کا بیان بالکل مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لڑکا اور لڑکی پڑوسی ہیں۔ دونوں گھروں میں آپس میں واقفیت بھی ہے۔ نیز یہ کہ دونوں ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں۔ اور کئی بار تفریحی مقام پر گھومنے بھی جا چکے ہیں۔ لڑکی اپنی مرضی سے لڑکے کے ساتھ ہاکس بے گئی تھی۔ شاید اسی وجہ سے اس نے ماں کو بتایا کہ وہ ٹیوشن سینٹر میں ہے۔ لیکن گھر آ کر اس نے دوسری کہانی سنائی۔ لڑکے کا کہنا ہے کہ دونوں کے گھر والے ان کے تعلقات سے واقف ہیں۔ لڑکی کے گھر والے شادی پہ رضامند ہیں۔ لیکن لڑکے کے گھر والے ایسا نہیں چاہتے۔ اسی لیے لڑکی نے بیان بدلا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے موبائل میں لڑکی کے ٹیکسٹ میسج اور تصاویر بھی ہیں۔ ہاکس بے جانے کے تمام اخراجات بقول لڑکے کے اس نے ہی برداشت کیے۔ میرا خیال ہے کہ اخراجات میں گاڑی کا کرایہ اور ہاکس بے کی ہٹ کا کرایہ وغیرہ سب شامل ہوں گے۔

اس واقعے پر زیادہ بات نہیں کی جا سکتی، کیونکہ مقدمہ سیشن جج شرقی کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ یہاں میں کسی اور جانب توجہ دلانا چاہتی ہوں۔ پہلے تو یہ کہ انٹر کی طالبہ کی عمر صرف سولہ سال ہے۔۔۔۔دوم یہ کہ آج کل ہر طرف جو برساتی مینڈکوں کی طرح ٹیوشن سینٹر کھل گئے ہیں ان سب میں مخلوط کلاسز ہوتی ہیں۔ خواہ وہ کسی پوش ایریا میں ہوں، یا کسی بھی دوسری جگہ۔ ٹیوشن سینٹرز چلانے والوں کا بنیادی مقصد پیسہ کمانا ہے۔ ان کوچنگ سینٹروں میں سے کچھ کے مالکان دوسری سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ انھیں صرف فیس سے سروکار ہے۔ اخلاقی طور پر یہ طلبا و طالبات کے کسی فعل کے ذمے دار نہیں ہیں۔ اور نہ انھیں کوئی پوچھنے والا ہے۔ دراصل یہ بھی ایک بہت بڑا مافیا ہے۔ کسی بھی کوچنگ سینٹر کے سامنے آپ جا کر کھڑے ہو جائیے۔ سارا منظر نامہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ بیشتر طلبا و طالبات کلاس اٹینڈ ہی نہیں کرتے۔ بلکہ باہر سے ہی دیگر سائیٹس  کی طرف نکل جاتے ہیں۔ یہ مناظر اجنبی نہیں بلکہ ہر اس شخص نے دیکھے ہوں گے جو ان ٹیوشن سینٹرز کے سامنے سے یا آس پاس سے گزرتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ٹیوشن سینٹرز کے حوالے سے کئی تکلیف دہ واقعات جنم لے چکے ہیں۔ لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ان کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ اعلیٰ افسران ان کے دوست ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ’’کاروبار‘‘ میں بھی شریک ہیں۔

البتہ ایسے ٹیوشن سینٹرز بھی ہیں جو ان تمام خرافات سے دور ہیں۔ لیکن ان کے ہاں بھی لڑکے اور لڑکیوں کی کلاسیں ایک ساتھ ہی ہوتی ہیں۔ بعض ٹیوشن سینٹرز میں طالبات کی علیحدہ کلاسیں بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ طلبہ و طالبات کے آپسی میل جول کو نہیں روک سکتے۔ اس لیے صرف والدین کی ذمے داری رہ جاتی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اولاد کو بتائے بغیر ان کے اسکول، کالج اور ٹیوشن سینٹرز میں جا کر ان کی حاضری اور معمولات کو چیک کریں۔ پاکستان میں لڑکیوں کی شادی ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ ہے اور بدقسمتی سے بڑھتی ہوئی آبادی میں لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ بعض اوقات اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مائیں خود لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ تب ہی اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور آیندہ بھی ہوتے رہیں گے۔

دوسری خبر بہت تکلیف دہ ہے۔ ایک خاندان بکھر گیا۔ ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کی چکی میں تین معصوم بچے پس گئے۔ کسی کو رحم نہ آیا، قانون بے شک اندھا ہوتا ہے۔ لیکن جج تو آنکھیں رکھتے ہیں۔ بعض فیصلے انسانی جذبات اور حقیقتوں کو پیش نظر رکھ کر بھی کیے جاتے ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان تنازعہ چل رہا تھا۔ بیوی طلاق چاہتی تھی۔ یہ شادی 2004ء میں ہوئی تھی۔ تین بچے ہیں۔ 8 سالہ بیٹی۔ 6 سالہ اور تین سالہ دو بیٹے۔ جنھیں ان کی ماں چھوڑ کر چلی گئی۔ جنوری 2013ء میں طلاق ہو گئی۔ بچے باپ اور پھوپی کے پاس رہ گئے۔ شوہر کا موقف ہے کہ اس کی بیوی نے کسی اور سے شادی کرنے کی خاطر طلاق لی ہے۔

ٹھیک ہے اس کی مرضی۔۔۔۔شخصی آزادی کے جنون میں بہت سی عورتوں نے اپنے گھر اجاڑے ہیں۔ اور بچوں کو کھویا ہے۔ بعد میں پچھتاوے ان کا مقدر بنے۔ ایسی کئی خواتین کو میں جانتی ہوں۔ جنھوں نے ماں باپ کی شہہ پر طلاق تو لے لی۔ کہ زندگی میں کوئی اور آ گیا تھا۔ اس لیے زندگی کی گاڑی جو بڑی سبک رفتاری سے پٹری پہ چل رہی تھی۔ اچانک اس نے اپنا ٹریک بدل لیا۔۔۔۔۔اس خبر کی سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جنوری 2013ء سے جب خاتون نے طلاق لی تو تینوں بچے باپ اور پھوپی کے پاس تھے۔ لیکن عید سے پہلے اچانک عدالتی حکم پر تینوں معصوم بچوں کو ان کی ماں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جس وقت بچوں کی تحویل ماں کو دی جا رہی تھی وہ تینوں باپ اور پھوپی سے لپٹ لپٹ کر رو رہے تھے کہ وہ ماں کے ساتھ نہیں بلکہ باپ اور پھوپی کے پاس رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن چونکہ قانون اندھا، بہرا اور گونگا ہوتا ہے اس لیے بچوں کے جذبات کا خیال رکھے بغیر انھیں ماں کے حوالے کردیا گیا۔ عدالت میں موجود ہر آنکھ اشکبار تھی۔ لیکن بے حس قانون کو اس سے کیا۔ وہ جذبات نہیں رکھتا۔ صرف فیصلے سناتا ہے۔

طلاقوں کی شرح ہولناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ خواتین میں قوت برداشت اور صبر و تحمل ختم ہو گیا ہے جو گھر بسانے اور پر سکون زندگی گزارنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ گھروں کے ٹوٹنے کی بنیادی وجہ وہ تربیت ہے جو آج کی مائیں اپنی بیٹیوں کو دے رہی ہیں۔ پہلے شادی کے وقت والدین اور بزرگ ایک بہت معنی خیز جملہ کہا کرتے تھے کہ…’’سرخ جوڑے میں جا رہی ہو، سفید میں نکلنا‘‘۔۔۔۔یعنی لڑکی کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی جاتی تھی کہ اسے ہر قیمت پر اپنا گھر بسانا ہے۔ سمجھدار مائیں۔ شادی کے فوراً بعد نہ تو خود بیٹیوں کے گھر جا جا کے رہتی تھیں، نہ ہی انھیں بار بار میکے بلاتی تھیں۔ اور نہ ہی ان کی زندگی میں دخل اندازی کرتی تھیں۔ لیکن آج معاملہ برعکس ہے۔ ماؤں کا بس نہیں چلتا کہ یا تو خود بیٹیوں کے ساتھ رخصت ہو جائیں۔ یا پھر بیٹی داماد کو اپنے پاس رکھ لیں۔ عموماً ماؤں کو کسی نہ کسی میدان میں کامیابی مل ہی جاتی ہے۔ اس دخل اندازی کا نتیجہ اکثر علیحدگی، لڑائی جھگڑے یا طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔ بڑھتی ہوئی شتر بے مہار آزادی، اپنی روایات سے بغاوت اور میڈیا کے بے سروپا ڈرامے جن میں طلاق اب کوئی بری شے نہیں سمجھی جاتی۔ گھروں کو بگاڑنے میں ایک خاص کردار ادا کر رہے ہیں۔۔۔ ۔لیکن اس سارے معاملے میں بچوں کے متعلق کوئی سوچتا ہی نہیں۔ شرفاء میں اب بھی طلاق بہت معیوب خیال کی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔