گھوم گھام کر برگد تلے

نصرت جاوید  بدھ 14 اگست 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

1990ء کی دہائی کے آخری برسوں میں ’’سول سوسائٹی‘‘ کی مفروضہ طاقت کا تصور جنوبی ایشیاء کے ممالک تک بھی پہنچ گیا۔ یورپی ممالک نے دو عالمی جنگوں میں وسیع پیمانے پر ہونے والی تباہیوں کے بعد بتدریج یہ دریافت کیا تھا کہ جمہوری طریقوں سے منتخب کردہ حکمران بھی اپنے اپنے ملکوں میں قائم سول سوسائٹی اور ملٹری اشرافیہ پر مشتمل ’’دائمی حکومتوں‘‘ کی بنائی پالیسیوں سے بالاتر ہو کر کوئی نئی چیز نہیں سوچ پاتے۔ دوسرے ملکوں اور خاص طور پر اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ان ہی تصورات اور تعصبات پر ٹکے رہتے ہیں جو صدیوں تک پھیلی مخاصمت کی وجہ سے نمودار ہو کر ’’ٹھوس حقیقتوں‘‘ کا روپ دھار چکے ہوتے ہیں۔ ’’ٹھوس حقیقتوں‘‘ سے جڑے ہوئے جمود کو توڑ کر امن کی خواہش میں نئے راستوں کی تلاش اب حکومتوں کے لیے ممکن نظر نہیں آرہی تھی۔ ایسے میں خیال پیدا ہوا کہ سوچنے سمجھنے والے دردمند شہری اپنے طور پر آگے بڑھیں۔ بجائے اپنی حکومتوں پر انحصار کرنے کے خود کو غیر سرکاری تنظیموں تلے اکٹھا کریں اور ہمسایہ ممالک میں قائم ایسی ہی تنظیموں سے روابط بڑھا کر People to People رشتے بنائیں۔ ایسے رشتوں کی گہرائی اور بڑھائو، ان کی حکومتوں کو بالآخر مجبور کر دے گا کہ وہ بھی برسوں سے جمع کیے تعصبات سے نجات پا کر اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُر امن تعلقات قائم کریں۔

بڑی متحرک غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے دشمن ملکوں کے درمیان دوستی کے رشتے بنانے کا تصور جب ہمارے ہاں پہنچا تو میں نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا۔ 1984ء سے بھارت کے بارہا سفر کرنے کے بعد مجھے پاکستان اور بھارت کی ’’دائمی حکومتوں‘‘ اور اُن کے ’’ٹھوس حقیقتوں‘‘ پر مبنی جارحانہ تعصبات کا خوب اندازہ ہو چکا تھا۔ اپنے تحفظات کے باوجود میں نے ان دو ممالک کے درمیان امن کی کوششیں کرنے والوں کی نہ تو کبھی ملامت کی اور نہ ان کی نیتوں پر شک کیا۔ ان سب کے ارادے نیک اور شاعرانہ تھے۔ اگر آپ ان کی مدد نہیں کر سکتے تو خواہ مخواہ کی مذمت کرنا بھی بڑی زیادتی کی بات ہے۔ اسی لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے خواہاں چند لوگوں نے جب واہگہ بارڈر پر دونوں ممالک کے یومِ آزادی کی رات شمعیں اور دیے جلانے کی روایت ڈالی تو میں اس کے بارے میں خاموش رہا۔

ہاں ان لوگوں سے مؤدبانہ اختلاف ضرور کیا جنھوں نے یہ بات پھیلانا شروع کر دی کہ واہگہ کی سرحد پر موم بتیاں جلانے والے دراصل اگست 1947ء میں دو ملکوں کے درمیان لگائی جانے والی ’’لکیر‘‘ کو مٹا کر پاکستان کو دوبارہ اکھنڈ بھارت کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ میری دانست میں 14۔ اگست کی رات واہگہ کی سرحد کے اِس طرف یا اُس طرف اکٹھے ہو کر امن کے دیے جلانا بجائے خود اس امر کا اعتراف تھا کہ پاکستان اور بھارت دو جدا ممالک ہیں۔ ان کے درمیان ایک سرحد موجود ہے۔ اس سرحد کی موجودگی کے پورے ادراک اور اعتراف کے بعد اس خواہش کا اظہار کوئی اتنا بڑا جرم نہ تھا کہ اپنی علیحدہ شناخت قائم کر لینے کے بعد یہ دو ممالک اب بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے اپنے درمیان اچھے ہمسایوں والے تعلقات قائم کریں۔ بجائے جنونی انداز میں ایک دوسرے کا وجود مٹانے کے اپنے محدود وسائل کو اپنی بے تحاشہ بڑھتی آبادیوں کی بہتری اور خوش حالی کے لیے استعمال کریں۔

14اور 15۔ اگست کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے خواہاں افراد نے ایک دوسرے کے ہاں جا کر جشنِ آزادی کی تقریبات میں حصہ لینا شروع کیا تو ایک بار میں بھی SAFMA کے زیرِاہتمام دو برس پہلے پاکستانی صحافیوں کا ایک وفد لے کر امرتسر گیا۔ ہمارے بڑے ہی پیارے اور طاقتور گلے والے شوکت علی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ 14۔ اگست کی رات انھوں نے پاک۔بھارت سرحد کے بالکل قریب ایک گائوں میں بنائے اسٹیج پر آ کر گانا شروع کیا تو ہزاروں کی تعداد میں عام دیہاتی انھیں کئی گھنٹوں تک گاتے رہنے پر مجبور کرتے رہے۔ مجھے اپنے ملک کے اس گلوکار کی یہ پذیرائی بہت اچھی لگی۔ بڑا فخر ہوا۔

اب کے برس بھی پاکستان سے کچھ صحافی امرتسر جا کر وہاں کے یومِ آزادی کی تقریبات میں شرکت کرنا چاہ رہے تھے اور صحافیوں کا ایک وفد بھارت سے لاہور میں ہونے والی تقریبات کے لیے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ دونوں طرف ہونے والی یہ تقریبات مگر اس مرتبہ اپنا رنگ نہیں جما پائیں۔ گذشتہ چند ہفتوں سے دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے پر وقتاً فوقتاً گولے برسا رہی ہیں۔ 2003ء میں ایسی گولہ باری کو روکنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ مجھے ابھی تک کوئی شخص یہ بات نہیں سمجھا پا رہا ہے کہ دس سال تک قائم رہنے والا یہ معاہدہ اچانک کن وجوہات کی بنا پر مؤثر انداز میں برقرار نہیں رہا۔ واضح جواب کسی کے پاس بھی نہیں۔ بھارتیوں سے پوچھئے تو ان کے صحافیوں اور فوج اور اُن کی وزارتِ خارجہ کے ریٹائرڈ افسران کی اکثریت یہ کہانی سناتی ہے کہ پاکستان کے ’’اصل حکمران‘‘ نواز شریف کے اس وعدے کو پورا نہیں ہونے دینا چاہتے جو مئی کی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے بھارت سے تعلقات کو بہتر بنانے کے ضمن میں اپنے جلسوں کے دوران کیا تھا۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کا خیال ہے کہ دس سال حکومت میں گزارنے کے بعد من موہن سنگھ اور ان کی حکومت کمزور پڑ گئے ہیں۔ بھارت میں نئے انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ ایک بہت ہی متعصب اور انتہاپسند نریندر مودی BJP کی طرف سے بھارت کے نئے وزیراعظم منتخب ہونا چاہ رہے ہیں اور بھارت میں جنگی اور جنونی مزاج رکھنے والی ساری قوتیں ان کی کامیابی کے لیے متحرک ہو چکی ہیں۔ بھارتی فوج بھی اسی حوالے سے پاک۔ بھارت سرحد کو خطرناک حد تک گرم رکھے ہوئے ہے۔

ایمان داری کی بات ہے، میرا رپورٹر والا شکی ذہن دونوں ممالک میں مقبول ایسی کہانیوں کو ہضم نہیں کر پا رہا۔ اصل بات کچھ اور ہے اور زیادہ گہری بھی۔ مگر فی الوقت میں اسے ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہوں۔ میرے پاس تو آپ کو بتانے کے لیے ٹھوس جُز یہ ہے کہ بھارت سے 30 سے زیادہ صحافیوں کا جو وفد 14۔ اگست کی تقریبات کے سلسلے میں لاہور آنا چاہ رہا تھا انھیں پاکستانی ویزا کے حصول میں کچھ مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ میں ذاتی طور پر وزراء وغیرہ کو کسی ’’کام‘‘ کے لیے ٹیلی فون کرنے سے ہمیشہ پرہیز کرتا ہوں۔ مگر جانتا تھا کہ اگر بھارتی صحافی پاکستان آئیں گے تو یہاں پہنچنے کے چند ہی گھنٹوں کے بعد یہ دریافت کر لیں گے کہ ہمارے لوگوں اور میڈیا میں ویسا جنگی جنون قطعی طور پر موجود نہیں جو آج کل بھارت میں چیختا چنگھاڑتا نظر آ رہا ہے۔ اس خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو فون کر ڈالا۔

انھوں نے بھارتی صحافیوں کے ویزے کی درخواستوں کو کلیئر کروانے میں تین سے زیادہ گھنٹے نہ لیے۔ چوہدری صاحب کا یہ رویہ میرے لیے خوش گوار حیرت کا باعث بنا کیونکہ وہ کبھی بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ایک Dove کے طور پر نہیں جانے گئے تھے۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ چند پاکستانی صحافیوں کو چھوڑ کر، جن میں پتہ نہیں کیوں ہمارے ایکسپریس کے ایاز خان بھی شامل ہیں، باقی لوگوں کو بھارتی حکومت نے بھی تھوڑے تردد کے بعد ویزے دے دیے ہیں۔ اب دونوں حکومتوں نے اپنے اپنے طور پر پاکستانی اور بھارتی صحافیوں کو ایک دوسرے کے ہاں جانے کے ویزے تو دے دیے تھے۔ مگر دونوں طرف سے صحافی ایک دوسرے کے ہاں جانے سے گھبراتے رہے۔ صحافیوں کے اس خوف اور تذبذب کی روشنی میں غیرسرکاری تنظیموںکے ذریعے People to People رشتے بنانے کا سارا تصور مجھے تو اب بے معنی سا نظر آ رہا ہے۔ صاف دِکھ رہا ہے کہ پاک۔ بھارت تعلقات پنجابی محاورے کی اس گدھی کی صورت اختیار کر چکے ہیں جو ہر طرف گھوم گھام کر بالآخر برگد کے ایک ہی درخت کے نیچے آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔