بجلی کے نرخ اور بے بس عوام

ایم آئی خلیل  بدھ 14 اگست 2013
ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

حکومت نے تجارتی اور صنعتی صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں میں اضافے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کمرشل صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں میں دو روپے سے چھ روپے 18 پیسے تک اضافہ کیا گیا ہے۔ صنعتی صارفین کے لیے 3 روپے سے 6 روپے 57 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جب کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لیے 5 روپے 82 پیسے فی یونٹ کی منظوری دی جا چکی ہے۔ صنعتی صارفین پر آئی کیو سرچارج کے نام پر 90 پیسے فی یونٹ اضافی چارج کیا جائے گا۔ یہ فیصلہ آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کردہ شرائط ماننے کی طرف ایک قدم ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے جب سے پاکستان کی معیشت کو اپنی گرفت میں لیا ہے اس قسم کے فیصلے کیے جا رہے ہیں جس سے بالآخر یہ فیصلے عوام پر بم بن کر گرتے رہتے ہیں۔ عید کی آمد سے قبل ہی حکومتی تحفے کے طور پر عوام پر پٹرول بم گرایا گیا۔ جس کے نتیجے میں پٹرول 2 روپے 73 پیسے فی لیٹر، ڈیزل 3 روپے 90 پیسے فی لیٹر، مٹی کا تیل 4 روپے 90 پیسے فی لیٹر مہنگا ہو گیا ہے۔

ہائی اوکٹین 5 روپے 60 پیسے مہنگا کر دیا گیا اس کی نئی قیمت 139 روپے فی لیٹر ہو گئی۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل تقریباً110 روپے فی لیٹر اور مٹی کا تیل 101 روپے 28 پیسے فی لیٹر ہو چکا ہے۔ اس طرح غریب کی کٹیا میں مٹی کے تیل سے جلنے والا چولہا اور مٹی کے تیل سے روشنی دینے والی لالٹین دونوں کے بجھنے کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ عالمی غربت کے پیمانے ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ جس کی آمدن روزانہ ڈیڑھ ڈالر یا ایک ڈالر بھی ہے وہ غربت کی لکیر سے نچلی سطح پر زندگی بسر کر رہا ہے۔ مختلف عالمی جائزے اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان میں 10 کروڑ سے زائد افراد غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اس میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے لیکن پالیسی سازوں کے لیے اب یہ بات باعث اطمینان ہو گی کہ ڈالر 104 روپے کا ہو گیا ہے لہٰذا اگر کوئی غریب اپنی کٹیا کو روشن کرنے اور چولہا جلانے کے لیے 101 روپے 28 پیسے کا ایک لیٹر مٹی کا تیل خریدتا ہے جب بھی اس کے پاس 2 روپے 72 پیسے بچیں گے جس سے وہ اپنی زیست کا سامان کر سکتا ہے۔

حکومت نے بجلی بم گراتے ہوئے یہ کہا ہے کہ چونکہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کمرشل اور صنعتی صارفین پر کیا جا رہا ہے جس سے عوام پر اثر نہیں ہو گا۔ حالانکہ ہر کارخانے یا انڈسٹری کا اکاؤنٹینٹ جب کسی شے یا اس کارخانے میں بنائی جانے والی مصنوعات کی کاسٹ کا تخمینہ لگاتا ہے تو اس میں بجلی کے اخراجات کو ضرور شامل کرتا ہے۔ چند سال قبل جب آئی ایم ایف کی زد سے بجلی کے نرخ بچے ہوئے تھے اس دوران بجلی کے بلوں کی اہمیت قانونی تھی۔ اب ہر سرمایہ کار سرمایہ کاری سے قبل بجلی کی رسد اس کی فراہمی دستیابی سے لے کر بجلی نرخ کا پہلے ہی حساب کتاب کرتا ہے۔ اب سرمایہ کار کے لیے مزاحمت کا ایک اور سامان مہیا کر دیا گیا ہے کہ وہ یہ بات بھی مد نظر رکھے کہ بجلی کے نرخوں میں کسی وقت بھی نمایاں اضافے کا اعلان کر کے اس کا اطلاق فوری کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ صنعتکاروں کے لیے ایک اور پریشانی یہ لاحق ہو گئی ہے کہ انھیں جو اشیاء ایکسپورٹ کرنی ہیں اس کے نرخ پہلے سے طے ہو چکے ہیں۔ خصوصاً موسم سرما میں جتنی بھی ٹیکسٹائل مصنوعات یا لیدر جیکٹس، لیدر ٹراؤزرز یا دیگر لیدر کی مصنوعات ایکسپورٹ کی جانی ہیں ان کے معاملات طے پا چکے ہیں لہٰذا اب جب کہ 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران 24 ارب ڈالرز کی برآمدات ہوئی ہیں۔ اس میں اضافے کے بجائے منفی اثرات مرتب ہونے کے خدشات پائے جا رہے ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بعد کمرشل صارفین کے لیے 16 روپے فی یونٹ اور صنعتی صارفین کو 18 روپے فی یونٹ ادا کرنے ہوں گے۔ اس فیصلے سے یقینی طور پر بالآخر عوام ہی متاثر ہوں گے۔ کچھ ہی دنوں میں عوام پر مہنگائی کا بم گرے گا۔ تجارتی ادارے کہنے میں حق بجانب ہوں گے اور اپنی خدمات اور اشیاء کی قیمت میں یہ کہہ کر نمایاں اضافہ کر دیں گے کہ بجلی کا بل اب ہزاروں نہیں لاکھوں میں ادا کرنا پڑتا ہے لہٰذا قیمتوں میں اضافے کا اصل بار عوام پر ہی ڈال دیا جائے گا۔

جہاں تک صنعتکاروں کا تعلق ہے تو کسی بھی شے کی تیاری یا مصنوعات کے لیے جو بھی شے استعمال کی جا رہی ہو گی چونکہ وہ بھی بجلی کے بلوں سے متاثر ہوں گے اور ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو چکا ہو گا۔ نیز جب کسی شے کی تیاری کے لیے مینوفیکچرنگ اسٹیٹمنٹ تیار کی جاتی ہے تو اب اس میں بجلی کے اخراجات نمایاں حیثیت اختیار کر جائیں گے۔ اور اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے صنعتکار اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ کون سی شے یا مصنوعات تیار کی جائیں اور کون سی نہ کی جائیں۔ اس طرح کے فیصلے سے ملکی مصنوعات مہنگی ہو جائیں گی اور اس کے متبادل درآمدات میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس طرح ایک دفعہ پھر درآمدی بل میں اضافے کا رجحان زور پکڑنے لگے گا۔ اس وقت مالی سال 2012-13ء کے دوران 44 ارب ڈالرز کی درآمدات رہیں اور تجارتی خسارہ 20 ارب 43 کروڑ ڈالر کا رہا۔ اگر مالی سال 2013-14ء میں تجارتی خسارہ مزید بڑھ جاتا ہے اور برآمدات میں کمی واقع ہوتی ہے تو اس کے منفی اثرات معیشت کے کئی شعبوں پر پڑیں گے۔ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع کم ہوں گے۔ بالآخر روپے کی قدر میں مزید کمی واقع ہو جائے گی۔ جس سے ملکی صنعتکاروں میں بھی بددلی پھیلے گی پہلے ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ 30 تا 40 فیصد صنعتکار اول اپنی صنعتیں بیرون ملک منتقل کر چکے ہیں یا پھر وہ فیکٹریوں کو بند کر کے یہاں سے جا چکے ہیں لہٰذا اس رجحان میں مزید اضافہ ہو گا۔

آئی ایم ایف کی طرف سے عائد کردہ مختلف کڑی شرائط کے نتیجے میں پاکستان کو اشیاء کی عالمی منڈی میں اپنی برآمدات بڑھانے کے مواقع میں کمی پیدا ہو گی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ایسے اقدامات کیے جاتے جن سے امداد یا قرض کے بجائے تجارت کے مواقع میں اضافہ ہوتا جس سے پاکستان کو اپنے معاشی مسائل کو حل کرنے میں آسانی پیدا ہوتی۔ عالمی مالیاتی اداروں کی ناروا شرائط کے باعث ملک میں عوام کی آمدنیوں میں خاطر خواہ اضافہ بھی نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے عوام بچت نہیں کر پا رہے ہیں اور سرمایہ کاری میں بھی کمی ہو رہی ہے۔ اب حکومت کو روز مرہ اخراجات کی خاطر قرضوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور پاکستان بالآخر قرضوں کا محتاج ہو کر رہ جاتا ہے اور کشکول پھیلتا ہے۔ قرض فراہم کرنے سے قبل کشکول میں انتہائی کڑی شرائط ڈال دی جاتی ہیں جنھیں پورا کرتے کرتے عوام کی کمر دہری ہو جاتی ہے اور پھر قرضوں کا بوجھ ہے کہ ہر سال بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔

ملک میں ایک طرف افراط زر میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اس کے ساتھ ہی کساد بازاری بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہر سال بیروزگاروں کی تعداد میں لاکھوں افراد کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جس سے لوگوں کی آمدنی میں کمی ہو رہی ہے امیر اور غریب کا فرق بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں حکومتی پالیسی سے عوام بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں اس کے ساتھ ہی تاجر صنعتکار بھی پریشانی میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں۔ ملک میں کلیاتی معاشیات سے متعلق جن معاشی پالیسیوں کا اطلاق کیا جا رہا ہے اس سے ترقی اور معاشی فلاح و بہبود کے مقاصد حاصل ہونے کے بجائے برعکس نتائج مرتب ہو رہے ہیں اور عوام کی فلاح و بہبود میں کمی کے مظاہر نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ ایک طرف یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ خارجہ پالیسی کی طرح گزشتہ کئی عشروںسے معاشی پالیسی بھی اغیار کے اشاروں پر تشکیل دی جا رہی ہے۔ لہٰذا حکومت کو اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے۔

بعض معاشی فیصلے ایسے ہوتے ہیں جس کے دوررس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ جس طرح پیٹرول اور بجلی گیس کے نرخوں میں اضافہ معیشت کے تمام شعبوں کو متاثر کرتا ہے اور خصوصاً عوام سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ایسی صورت حال میں جب کہ عوام کی ایک بڑی اکثریت غربت کی زندگی بسر کر رہی ہے تو حکومت کی طرف سے جب ٹیکس یا نرخوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو کم آمدن کے باعث بہت سے لوگ غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں بہت سے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے ہیں۔ مزید افراد کا شمار غریب لوگوں میں ہونے لگتا ہے۔ نیز بیروزگاروں کی فوج کی موجودگی میں ایسے فیصلے کے نتیجے میں اگر صنعتکار مزید سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگ جائیں تو مزید بیروزگاروں کا اضافہ ہو جائے گا لہٰذا حکومت کو ایسے فیصلے کرنے کے بعد بھی نظرثانی کر لینی چاہیے کہ جس سے عوام ہی بالآخر متاثر ہو رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔