تجربہ گاہ میں تیار شریانیں گردے کے مریضوں میں منتقل

ویب ڈیسک  جمعرات 4 اپريل 2019
 یہ رگیں مریضوں سے حاصل شدہ خلیات اور بافتوں (ٹشوز) سے بنائی گئی تھیں۔ فوٹو: فائل

یہ رگیں مریضوں سے حاصل شدہ خلیات اور بافتوں (ٹشوز) سے بنائی گئی تھیں۔ فوٹو: فائل

نارتھ کیرولائنا: تجربہ گاہ میں افزائش کی گئیں خون کی شریانیں اور وریدوں کو بعض مریضوں کے جسم میں لگانے کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے یہ رگیں مریضوں سے حاصل شدہ خلیات اور بافتوں (ٹشوز) سے بنائی گئی تھیں اور بہت جلد لہو کی ان نلیوں کو دل کے مریضوں میں متاثرہ شریانوں کی تبدیلی میں بھی استعمال کیا جاسکے گا۔

امریکی ریاست نارتھ کیرولینا کے شہر ڈرہم میں واقع ’ہیوماسائٹ‘ کمپنی کے ماہرین نے انسانی شریانوں اور رگوں کے اندر پائے جانے والے ہموار خلیات (سیلز) کو نکالا اور انہیں تجربہ گاہی ماحول میں پروان چڑھا کر ان سے خون کی رگیں اور شریانیں تیار کیں۔

تاہم یہ اتنا آسان نہ تھا کیونکہ اس پیچیدہ صبر آزما طریقے میں کئی مراحل شامل تھے۔ پہلے ماہرین نے احتیاط سے خلیات الگ کئے اور انہیں خاص ڈشوں میں ایسی مچانوں یا نامیاتی جالی پر بچھایا جس میں خلیات کو بڑھانے والے تمام ضروری لوازمات اور غذائی اجزا موجود تھے۔ اس طرح ضروری پروٹین سمیت کولاجِن کا ایک تھری ڈی نیٹ ورک وجود میں آیا، جیسے ہی یہ نیٹ ورک بنا ان میں خون کے دباؤ (پریشر) کی طرح کا نظام بن گیا،پھر انہیں خاص طور پر موڑ کر باریک پائپوں کی طرح شریان کی شکل دی گئی ۔

اس محنت سے ایک شاندار کامیابی یہ ملی کہ اس سے شریانوں کی تشکیل ہوئی، تاہم نشوونما دینے والے پروٹین کو باریکی سے الگ کرلیا گیا تاکہ مریض کا اندرونی دفاعی نظام انہیں مسترد نہ کرسکے۔

ماہرین نے اس طرح 42 سینٹی میٹر تک کی ایسی رگیں اور شریانیں بنائیں جس کا اندرونی رقبہ 6 ملی میٹر تک تھا، اس کے بعد 60 ایسے مریضوں میں انہیں منتقل کیا گیا جن کے گردے فیل ہوچکے تھے اور وہ ڈائیلسِس سے گزر رہے تھے، تمام مریضوں کے بازوؤں کے اوپری حصے میں شریانوں کے پیوند لگائے گئے۔

ڈائیلسِس کے عمل میں خون کے اندر فاسد مواد مشینوں کے ذریعے صاف کیا جاتا ہے، لیکن اس عمل کو تیز کرنے کے لیے ایسی شریانوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو زیادہ چوڑی اور پریشر برداشت کرسکیں، مطالعے میں شامل تمام افراد اس عمل کے لیے غیرموزوں تھے اور اسی بنا پر ان میں تجربہ گاہ میں تیارشدہ رگیں لگائی گئیں۔

چار سال کے دوران 13 مریضوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ رگیں مستقل شکل اختیار کرگئیں اور ان کے زخم ازخود تیزی مندمل ہوگئے، یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر قدرتی شکل اختیار کرگئی۔

ماہرین پرامید ہیں کہ اس کامیابی کے بعد دل کے مریضوں کی متاثرہ شریانوں کو بھی خود مریضوں کے خلیات سے بناکر ان کے دل کی مرمت کی جاسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔