ترقی کے لیے سائنس میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی، ڈاکٹرمحمد اجمل خان

سید بابر علی  اتوار 7 اپريل 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

تعارف:سائنس کے میدان میں ڈاکٹر محمد اجمل خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں،انہوں نے جامعہ کراچی سے 1973 نباتیات میں بی ایس سی آنرز اور1974 میں نباتیاتی ماحولیات میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ 1977میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1985میں امریکا کی اوہائیویونیورسٹی سے نمک زدہ پودوں کی ماحولیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے ایک سال بعد وطن آکر جامعہ کراچی سے منسلک ہوگئے اور پھر یہیں سے نباتیات میں ڈاکٹر آف سائنس (ڈی ایس سی) کی ڈگری حاصل کی۔ ہیلو فائٹ (نمکین زمین پر قدرتی طور پر اُگنے والا پودا) ان کی تحقیقی دل چسپی کا محور ہے۔

ڈاکٹر محمد اجمل خان نے 40 سال پر محیط تدریسی وتحقیقی کیریئر میں بے شمار اعزازات حاصل کیے اور مختلف بین الاقوامی جامعات میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔ صدر پاکستان نے ڈاکٹر محمد اجمل خان کو ان کی سائنسی خدمات پر 2001 ء میں تمغہ حسن کارکردگی اور 2007 ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ ہائرایجوکیشن کمیشن نے 2005 ء میں انہیں ’ڈسٹینگوشڈ نیشنل پروفیسر‘ کے اعزاز سے بھی نوازا۔ 2012 ء میں وہ جامعہ کراچی سے بحیثیت میریٹوریس پروفیسر ریٹائر ہوئے اور بعدازاں قطر یونیورسٹی کے فوڈ سیکیوریٹی پروگرام کے چیئرمین کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیے۔

ڈاکٹر محمداجمل خان کنگ سعود یونیورسٹی، سعودی عرب اور قطر فاؤنڈیشن دوحہ میں بہ حیثیت سائنسی مشیر بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے قطر یونیورسٹی میں ’مرکز برائے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ‘ کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ قومی اور بین الاقوامی سائنسی جرائد میں ڈاکٹرمحمد اجمل خان کے400 سے زائد تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اجمل خان کو 2004 میں ورلڈ اکیڈمی آف سائنس نے اپنا فیلو مقرر کیا۔ سائنس کے شعبہ نباتیات میں نمایاں مقام رکھنے والے ڈاکٹر محمد اجمل خان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں جامعہ کراچی کو ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے سیر حاصل گفت گو کی گئی جو نذرقارئین ہے۔

ایکسپریس: اپنے حالات زندگی کے بارے میں بتائیے، کہاں پیدا ہوئے، تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: والد صاحب تقسیم سے پہلے سول سروس میں تھے، تقسیم کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور واپڈا سکھر میں کلرک کی ملازمت کرلی۔ چھے برس کی عمر میں والد صاحب برین ہیمرج کی وجہ خالق حقیقی سے جاملے، اور ہم سب کی کفالت کی ذمے داری بڑے بھائی پر آن پڑی، جو اس وقت انٹر میں زیرتعلیم تھے۔ میں نے ابتدائی تعلیم شاہ فیصل کالونی کراچی کے سرکاری اسکول سے حاصل کی، میٹرک کے بعد جامعہ ملیہ کالج، ملیر میں داخلہ لے لیا۔ انٹر کے بعد جامعہ کراچی میں بی ایس سی آنرزشعبہ نباتیات میں داخلہ لے لیا۔

ایکسپریس: آپ کو وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے تقریباً دو سال ہوچکے ہیں، آج آپ جامعہ کراچی کو کہاں دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: دو سال پہلے جب میں وائس چانسلر کے عہدے کے لیے انٹرویو دے رہا تھا تو اس وقت مجھے کہا گیا کہ جامعہ کراچی کے معاملات کو درست کرنا بہت مشکل کام ہے اور آپ اسے کس طرح سر انجام دیں گے؟ تو اس وقت میرا جواب کچھ یوں تھا کہ معاملات کا ٹھیک ہونا اور نہ ہونا اللہ کی مرضی پر منحصر ہے لیکن میں اس سلسلے میں اپنی پوری کوشش کرنا چاہتا ہوں۔

اس چیلینج کو قبول کرنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ میں 1977سے جامعہ کراچی سے منسلک ہوں، یہ اور میں الگ نہیں ہوسکتے۔ یہ معاملہ نوکری کا نہیں میرے اس جامعہ سے قائم دیرینہ رشتے کا ہے، آپ مجھے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کرنے کا موقع دیں، تاکہ آخری وقت میں مجھے اس بات کا افسوس نہ ہو کہ میں اپنی مادر علمی کے لیے کچھ کر نہیں سکا۔ لیکن، جب میں نے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہاں کے معاملات تو میری توقع سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔

یہاں کوئی سسٹم آپریشنل نہیں تھا، تمام سسٹمزٕ کمپرومائز ہوچکے تھے، فنڈز میں بڑے پیمانے پر خردبُرد ہورہی تھی، شعبہ ہیومن ریسورس کا کچھ پتا نہیں تھا، غیرقانونی ترقیاں اور بھرتیاں ہورہی تھیں۔ ایک زمانے میں کراچی یونیورسٹی میں نان ٹیچنگ اسٹاف کی سب سے بڑی پوسٹ گریڈ اٹھارہ کی تھی جواب گریڈ بیس ہوگئی ہے ۔ اس طرح کے بے تحاشا معاملات ایسے تھے جو خلاف ضابطہ چل رہے تھے۔ کوئی بھی اشتہار تین ماہ کے لیے موثر ہوتا ہے اگر آپ چاہیں تو اس میں چھے ماہ تک کی توسیع کردیں، لیکن ہمارے ہاں اشتہار دس، دس سال چلتے تھے۔ ہماری ساری بھرتیاں پرانی تاریخ میں ہوتی ہیں، نہ صرف بھرتیاں بلکہ انہیں تنخواہوں کی ادائیگی پرانی تاریخوں سے ہوتی ہے۔ یعنی کہ جامعہ کراچی لاکھوں روپے کی ادائیگی غیرقانونی کرتی ہے۔

اس بابت ہمیں قومی احتساب بیورو (نیب) بھی کہہ چکا ہے کہ ادائیگیوں کا یہ نظام درست نہیں ہے، اس کے علاوہ بھی نیب نے ہمیں ایسے 49 پوائنٹس کی نشان دہی کی ہے جہاں چیزیں غلط ہورہی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس طرح کی بے تحاشا باتیں ہیں۔ یہاں اوورٹائم تنخواہ کا حصہ بن گیا تھا، ہر آدمی صبح وقت پر آتا نہیں تھا لیکن شام میں دیر تک دفتر میں بیٹھا رہتا تھا، کیوں کہ اوورٹائم لگ رہا تھا۔ اگر سچ کہا جائے تو حالات ابھی بھی بہت زیادہ اچھے نہیں ہیں، مگر ہم نے بے تحاشا تبدیلیاں کی ہیں، یہاں معاملہ اتنا خراب تھا کہ آپ کتنی بھی تبدیلیاں کرلیں وہ کم ہی لگتی ہیں۔ ہم نے سب سے پہلے کرپشن کے دروازے بند کرنا شروع کیے۔ پہلے ایک بینک ڈرافٹ پر پچاس، ساٹھ داخلے ہوجاتے تھے اور بعد میں وہ ڈرافٹ بھی واپس ہوجاتا تھا، ہم نے اس خردبرد کو روکنے کے لیے رقم کی وصولی اور ادائیگی کو بینک ویری فیکیشن سے مشروط کردیا کہ جب تک بینک تصدیق نہیں کرے گا۔

اس وقت تک وہ ادائیگی، ادائیگی نہیں سمجھی جائے گی۔ صرف کلیکشن کو بینک کے ساتھ مربوط کرنے سے ہماری لکویڈیٹی بیس فی صد تک بڑھ گئی ہے۔ یہ تو کرپشن کے چھوٹے چھوٹے معاملات تھے، اب ہم جامعہ کراچی میں مکمل طور پر ای آر پی (انٹر پرائیز ریسورس پلاننگ) سسٹم کے نفاذ کی طرف جا رہے ہیں، اگر ہم اسے مکمل طور پر نافذ کرنے میں کام یاب ہوگئے تو اس کے دوررس نتائج سامنے آئیں گے۔ جامعہ کراچی میں داخلے کے لیے کیا کچھ نہیں ہوتا تھا یہ پورے شہر کو پتا ہے۔ ہم نے داخلے کے نظام کو آن لائن کردیا، اب کوئی آدمی چاہے وہ گلگت میں ہو یا مٹھی میں، وہ وہاں بیٹھ کر داخلے کے تمام مراحل مکمل کرسکتا ہے، اب اسے کراچی آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں مکمل اعتماد کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ گذشتہ دو سال میں ہونے والے تمام داخلے میرٹ کی بنیاد پر ہوئے ہیں۔ گذشتہ سال ہمیں اس ضمن میں بے ضابطگیوں کا پتا چلا تھا تو ہم نے فوراً ایسے داخلے منسوخ کردیے۔ ہمارا داخلے کا نظام ننانوے اعشاریہ نو فی صد میرٹ پر آگیا ہے۔

یہی طریقۂ کار ہم ایگزامیشن پر بھی لاگو کرنے جا رہے ہیں، لیکن اس پر میں اتنا بڑا دعویٰ نہیں کرسکتا کیوں کہ ایگزامینیشن کا نظام بہت بڑا ہے اور اس میں بہت ساری چیزیں اور بے تحاشا کرپشن ہے، لیکن ہم نے اس میں ہونے والی کرپشن اور نقل کے رجحانات کو بتدریج کم کیا ہے، لیکن اس شعبے کو مکمل طور پر کرپشن سے پاک کرنے میں وقت لگے گا۔ یہاں میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ جامعہ کراچی کے ننانوے فی صد استاد بہت محنت کرتے ہیں، ایمان دار ہیں، لیکن ماضی میں کچھ لوگ بشمول پروفیسر یہاں سرگرم تھے ، رجسٹرار آفس ان کے کنٹرول میں تھا ۔ وہ یہاں بیٹھ کر مافیا کی طرز پر معاملات چلاتے تھے وہ یہاں عملی طور پر وائس چانسلر بنے بیٹھے تھے ۔ ہم نے جامعہ کراچی کو اپنے قواعد اور ضوابط پر چلانا اور دوسروں کی مداخلت کو کم کرنا شروع کیا، ورنہ یہاں تو یہ ہوتا تھا کہ ایک صاحب آئے انہوں نے کسی طالب علم کو پاس کرنا تھا تو اس کی فائل نکلوائی، اس پر نوٹ بنوایا، رجسٹرار سے منظوری کے دستخط کروائے اور وائس چانسلر کے سامنے رکھ کر انہیں دستخط کرنے کا حکم دے دیا۔ ہم نے ان کا یہ نظام بھی ختم کردیا، تو آج جو بھی پریشانی آپ دیکھ رہے ہیں وہ کرپشن کا نظام ٹوٹنے کا ردعمل ہے۔

ایکسپریس: جامعہ کراچی ایک عرصے سے مالی مشکلات سے دوچار ہے، گذشتہ سال وفاقی حکومت کی جانب سے جامعہ کے لیے ایک ارب اسی کروڑ روپے کی گرانٹ منظور کی گئی، اس حوالے سے کچھ بتائیے؟ کیا اس گرانٹ سے جامعہ کراچی کی مالی مشکلات میں کچھ کمی واقع ہوئی؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: حکومت کے بہت سارے لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا، ہم سے بات کی، ہمارے مسائل سمجھنے کی کوشش اور ان کے حل میں دل چسپی ظاہر کی۔گورنر سندھ اور کئی وفاقی وزراء نے بھی ہم سے بہت سارے وعدے کیے۔ مجھے امید ہے کہ ہم سے کیے گئے سارے وعدے حقیقت کا روپ دھار لیں گے، مگر فی الحال ہم انتظار کر رہے ہیں، لیکن یہ اچھی بات ہے کہ کم از کم وہ ہماری بات سن تو رہے ہیں۔ گذشتہ سال کافی طویل عرصے کے بعد ہائرایجوکیشن کمیشن نے ہمارے لیے تقریباً۔۔۔ایک ارب اسی کروڑ روپے کی ڈیولپمنٹ گرانٹ کی منظوری دی۔ اس گرانٹ سے آرٹس فیکلٹی، سائنس فیکلٹی اور ایک ویژیول اسٹیڈیز کا بلاک بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہمیں لیباریٹری کے لیے آلات خریدنے ہیں۔ اس گرانٹ کی پہلی قسط کے ڈھائی کروڑ روپے (پچیس ملین) مل چکے ہیں۔

ایکسپریس: گذشتہ ماہ جامعہ کراچی نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو چار کروڑ روپے کا چیک جاری کیا، اس سے جامعہ کے ماہانہ اخراجات میں کس حد تک کمی واقع ہوگی؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: ہم نے جامعہ میں گیس کے نئے میٹر لگوانے کے لیے سو ئی سدرن گیس کمپنی کو چار کروڑ روپے دیے ہیں، میٹر کے علاوہ ان کی بہت ساری لائینیں پرانی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں، جن سے گیس لیک ہونے کی وجہ سے ہمارا بل زیادہ آتا تھا۔ اس کے علاوہ جامعہ میں چلنے والی کینٹینز میں گیس کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک کینٹین میں میٹر لگوانے کے بعد ہمیں پتا چلا کہ اس کا ماہانہ بل تو ایک لاکھ چالیس ہزار کا ہے اور کراچی یونیورسٹی ابھی تک اسے فنڈ کرتی رہی تھی۔ یہی حال کم و بیش دوسری کینٹینز کا بھی ہے۔

میٹر لگوانے سے ہماری ریکوری لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں میں چلی جائے گی اور گیس کا لوڈ بھی بہت کم جائے گا۔ یہی معاملہ کے الیکٹرک کا ہے۔ کے الیکٹرک ابھی تک ہمیں بلک میں بجلی دیتی تھی اور وہ ہمارے ہاں میٹر لگانے پر تیار نہیں ہورہے تھے۔ ہم نے اس مسئلے پر ان سے بات کی اور دو سال بعد اب وہ میٹر لگانے پر تیار ہوگئے ہیں۔ جامعہ کراچی کے رہائشی علاقے میں واقع کسی گھر میں میٹر نہیں لگا ہوا، وہاں کا ماہانہ بل ایک سو سے سوا کروڑ روپے آتا ہے، لیکن کلیکشن صرف دس سے بارہ لاکھ ہے یعنی ہم ہر ماہ انہیں صرف بجلی کے بل کی مد میں ہی ایک کروڑ سے اوپر کی سبسڈی دیتے ہیں۔ میٹر لگنے کے بعد ہم پر سے یہ بوجھ کم ہوجائے گا۔

ایک دوسرا مسئلہ جامعہ کراچی کی زمین پر موجود پیٹرول پمپ ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں مہنگی بجلی خریدنی پڑتی ہے۔ کے الیکٹرک کا موقف یہ ہے کہ یہ کمرشل ادارہ ہے تو اس کی بلنگ بھی کمرشل ریٹ پر کی جائے گی۔ ہماری بلنگ بلک میں ہوتی ہے اور بلک میں کمرشل ریٹ الگ نہیں ہے تو کے الیکٹرک ہم سے فی یونٹ قیمت سب سے مہنگے ریٹ پر چارج کرتی ہے۔ اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس پیٹرول پمپ کو جامعہ سے الگ کرکے کے الیکٹرک سے کہیں کہ ان سے کمرشل ریٹ پر بجلی چارج کرو اور ہمیں سبسڈی ریٹ پر بجلی دو۔ اگر وہ مان جاتے ہیں تو ہمارا ماہانہ بجلی کا بل جو ڈھائی سے تین کروڑ روپے آتا ہے وہ ایک کروڑ سے بھی کم ہوجائے گا۔ اب رہی بات پیٹرول پمپ کی تو یہ بہت پہلے لیز پر دیا گیا تھا اور یہ لیز بھی مشتبہ ہے۔ اس کے معاملات سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسے ایک نجی پارٹٰی چلاتی ہے، ہمیں تو ہر ماہ ایک برائے نام رقم کرائے کی مد میں ملتی ہے۔

ایکسپریس: پانی کے بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے جامعہ کراچی کی پانی کی لائن کئی مرتبہ منقطع کردی گئی۔ کیا اب بھی جامعہ کراچی کو یوٹیلیٹی مسائل کا سامنا ہے؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جامعہ کراچی میں پانی ایک بڑا مسئلہ ہے، ہمارا پانی کا بل تقریباً سوا کروڑ روپے ماہانہ آتا تھا، پھر ہمیں کہا گیا کہ میٹر لگوالیں تاکہ ہمیں پتا چل سکے کہ ہم حقیقت میں کتنا پانی استعمال کر رہے ہیں۔ میٹر لگوانے میں ایک کروڑ روپے کا خرچہ تھا جو کہ ہمیں ایک مخیر کاروباری شخصیت نے فراہم کر دیے ۔ ان پیسوں سے ہم مرکزی لائن پر میٹر لگوائے، جس کے بعد سے ہمارا پانی کا ماہانہ بل پینتالیس سے پیسنٹھ لاکھ روپے تک آرہا ہے ۔ اس کام سے ہمیں ماہانہ چالیس سے پچاس لاکھ ماہانہ بچت ہو رہی ہے۔

ایکسپریس: اوورٹائم کی عدم ادائیگی جامعہ کراچی کے ملازمین میں بے چینی کا ایک اہم سبب ہے اور اس وجہ سے وہ متعدد بار احتجاج بھی کرچکے ہیں، اس بارے میں کیا کہیں گے؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جی بالکل اوورٹائم کا طریقہ کار تبدیل کردیا گیا ہے، اوورٹائم کی مد میں ہونے والی غیر ضروری ادائیگیوں کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ اب صرف چند دفتروں میں اوورٹائم کی مد میں ادائیگیاں کی جارہی ہیں اور وہاں بھی ضرورت کے تحت جتنی دیر اسٹاف کو روکا جاتا ہے اس کے مطابق انہیں متعلقہ اوورٹائم دیا جاتا ہے، جب کہ اس سے پہلے اوورٹائم تنخواہ کا حصہ بن چکا تھا جس کو ختم کیا گیا۔ غیرضروری اوورٹائم ختم کرکے ہر ماہ ایک خطیر رقم کی بچت ہورہی ہے۔

ایکسپریس: پاکستان کے نظام تعلیم میں بہتری اور اسے بین الاقوامی معیار سے ہم آہنگ کرنے کے لیے جامعات کی سطح پر کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ دیگر ممالک کے برعکس ہمارے ہاں جامعات کی سطح پر تحقیقی کام اس سطح پر نہیں ہو پارہا، جو کہ ہونا چاہیے، اس کے اسباب؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: دیکھیں آپ جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں، اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو ریل گاڑی میں سفر کریں گے، اور اگر پیسے ہیں تو آپ ایک لگژری گاڑی میں سفر کریں گے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستان میں تعلیم کا بجٹ شرم ناک حد تک کم ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں، یہ قوم کا معاملہ ہے۔ سنگاپور کی ایک یونیورسٹی کا بجٹ پاکستان کی تما م یونیورسٹیز کے بجٹ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ جب آپ تعلیم میں سرمایہ کاری ہی نہیں کریں گے تو پھر بہتری کی کیا امید رکھ سکتے ہیں؟ آپ اعلٰی تعلیم، اعلٰی تحقیق پر سرمایہ کاری کریں یہ آپ کو آخر میں ٹیکنالوجی دے گی، دولت دے گی، ترقی دے گی۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ میں جب انیس سو اسی میں امریکا گیا تو صرف میری یونیورسٹی میں ہی چین سے فل اسکالرشپ پر کافی طلبا آرہے تھے۔

چین کی اُس وقت کی سرمایہ کاری نے آج اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ آپ پرائمری کی تعلیم پر سرمایہ کاری کریں گے تو اس سے سکینڈری کی تعلیم اچھی ہوگی، جب سیکنڈری تعلیم اچھی ہوگی تو کالج کی تعلیم اچھی ہوگی، اسی طرح یونیورسٹی میں تعلیم کا معیار بہت بلند ہوگا۔ جب شروع سے آخر تک پراڈکٹ اچھی ہوگی تو ہم آگے ترقی کریں گے ناں! ہماری جامعات کے پیچھے جانے کی سب سے بڑی وجہ سرمائے کی کمی ہے۔ میں ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں، حکومت پاکستان کے پندرہ کروڑ روپے خرچ کرکے ہم نے ’انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن‘ بنایا، ہم نے شروع میں اعلٰی معیاری آلات خرید لیے، لیکن اب اس انسٹی ٹیوٹ کو مینٹین کرنے کے لیے ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں، ایک چھوٹا سا آلہ بھی خراب ہوجائے تو پانچ سے دس لاکھ کا آتا ہے، لیکن یہاں تو اس انسٹی ٹیوٹ کی پوری گرانٹ ہی پندرہ سے بیس لاکھ ہے تو اس میں ہم اسے کیسے چلا سکتے ہیں؟

اب آپ خود اندازہ لگا لیجیے کہ صرف ایک انسٹی ٹیوٹ کو چلانے کے لیے کروڑوں روپے چاہییں تو پھر پوری یونیورسٹی کو چلانے کے لیے کتنا پیسا چاہیے؟ میں آپ کو ایک اہم بات بتاؤں سائنس سرمایہ مانگتی ہے، ہماری اشرافیہ اور بیوروکریسی کو سائنس کا صحیح معنوں میں ادراک ہی نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو وہ ہمیں دکھا نہیں رہے۔ جس طرح آپ آم کا ایک درخت لگا کر پھل کے لیے پانچ سال انتظار کرتے ہیں، جس طرح آپ ایک بچے کو بیس پچیس سال تک پیسے خرچ کرکے کسی قابل بناتے ہیں، اسی طرح سائنس کو پالنا پڑتا ہے، اس کی کم از کم بیس سے پچیس سال تک آب یاری کرنی پڑتی ہے۔ چین نے سائنس کو پالا پوسا اور آج وہ تھرڈورلڈ کنٹری سے دنیا کا لیڈنگ ملک بن گیا ہے۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ پانچ لاکھ روپے کی گرانٹ دے کر پوچھتے ہیں کہ اس گرانٹ سے پاکستان میں کیا تبدیلی آئے گی؟ تبدیلی پانچ لاکھ کی سرمایہ کاری سے نہیں آئے گی، مستقبل میں ترقی کے لیے آپ کو سائنس میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی۔

چین آج سے نہیں بلکہ 1977سے سائنس میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور آج اس سرمایہ کاری کا پھل کھا رہا ہے۔ پاکستان کو ترقی کرنا ہے تو پھر سائنس میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی، اور یہ سرمایہ کاری آج سے ہوگی تو اس کا پھل بیس پچیس سال بعد ملے گا۔ میں آپ کو ایک بات اور بتاؤں، جامعہ کراچی بہت بڑا تعلیمی ادارہ ہے اور یہ ڈوبتے ڈوبتے بھی پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے سے بہتر ہے، آپ ہمیں دس سال سپورٹ کریں تو پھر ہم بتاتے ہیں کہ ہم پاکستان کی ترقی اور معاشی نمو کے لیے کتنا اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس کیپیسٹی ہے، پوٹینشل ہے، کام کرنے والے لوگ ہیں۔ لیکن ہمارے لوگ بددل ہوکر سائنس سے دور جارہے ہیں، سیاست میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سب کو شامل کرنے کی ضرورت ہے ، یہ پاکستان کا قابل قدر اثاثہ ہیں۔

ایکسپریس: جدید ٹیکنالوجی سے ایک طرف طالب علموں کے لیے سہولیات پیدا ہوئیں تو دوسری جانب اس سے ’کاپی پیسٹ‘ کلچر کو بھی فروغ ملا، اس بارے میں کیا کہیں گے؟ جامعہ کراچی میں سرقے کے سدباب کے لیے آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: سرقے کے لیے جامعہ کراچی میں زیروٹالرینس پالیسی ہے، اس کے لیے ہمارا ایک طریقۂ کار ہے۔ ٹیکنالوجی سے جہاں کاپی پیسٹ کرنا آسان ہوا اسی ٹیکنالوجی سے اس چوری کو پکڑنا بھی آسان ہوگیا ہے۔ جب پوری دنیا میں سائنس ترقی کا آغاز ہو ا تو وہاں پر بڑے پیمانے پر سرقہ ہونا شروع ہوا، لیکن جب چوری پکڑی جانے لگی تو وہاں یہ کاپی پیسٹ کا کلچر بھی بتدریج ختم ہوگیا۔ ہم اس سطح تک پہنچے بھی نہیں تھے کہ سائنس میں سرمایہ کاری ختم کردی گئی، میری مراد ہائرایجوکیشن کمیشن سے ہے۔ اس کی گرانٹ، ترقی کم کردی گئی، اچھا کام کرنے والے لوگوں کو ہٹا دیا گیا تو ہماری جو بھی کارکردگی تھی وہ وہیں ختم ہوگئی۔ جب ہر ایک کے پاس کمپیوٹر ہوگا، ہر ایک انٹرنیٹ پر مواد سرچ کر رہا ہوگا، جب ہر ایک دوسرے کی چوری پکڑ رہا ہوگا تو یہ مسئلہ خود ہی ختم ہوجائے گا۔

ایکسپریس: جامعہ کراچی میں طالبات کے ساتھ جنسی ہراسگی کے کچھ واقعات رونما ہوئے، جن کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں بھی بنائی گئیں، ان تحقیقات میں کیا پیش رفت ہوئی؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جنسی ہراسگی کے سدباب کے لیے ہم نے ہر شعبے میں ایک ہراسمنٹ کمیٹی بنائی ہے، جو ایک مرکزی کمیٹی کے سامنے جواب دہ ہے۔ حال ہی میں مرکزی ہراسمنٹ کمیٹی نے ایک فیکلٹی ممبر کے خلاف سخت فیصلہ کرتے ہوئے انہیں نوکری سے فارغ کردیا، لیکن ہم اس سزا پر عمل درآمد اس لیے نہیں کرسکے کہ ان صاحب کا کیس ہائی کورٹ میں اور گورنر سندھ کے پاس ہے، اب جو عدالت اور گورنر کا فیصلہ ہوگا ہم اس پر عمل درآمد کردیں گے۔

ایکسپریس: آ پ جامعہ کراچی کے ’انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن ‘ کے بانی ڈائریکٹر بھی رہے ہیں، اس شعبے کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے میٹھے پانی کے ذخائر کم ہورہے ہیں، دوسری بات یہ کہ جب آپ کوئی اَن کنٹرولڈ فصل کاشت کرتے ہیں تو اس سے بھی زمین میں کھاراپن بڑھ جاتا ہے۔ پودے ایک حد تک نمک برداشت کرتے ہیں، اس کے بعد وہ پنپ نہیں سکتے اور جس زمین پر نمک بڑھ جائے وہاں کوئی اور فصل بھی نہیں لگ سکتی۔ اب تین مسائل ہمیں درپیش ہیں اول، پانی کی کمی، زمین کا کھاراپن اور بڑھتی ہوئی آبادی۔ ان تینوں کو ساتھ ملا لیں یہ ایک تباہی کی ترکیب ہے، یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے، انڈیا کے راجستھان سے لے کر مراکو تک سارا صحرا ہے، جہاں میٹھا پانی نہ ہونے کے برابر یا نہیں ہے۔ خلیجی ممالک میں آج بھی پانی پیٹرول سے مہنگا ہے، کیو ں کہ وہ سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا کرکے استعمال کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں پودوں کی ڈھائی ہزار اقسام ایسی ہیں جو نمکیات والی زمین پر نشوونما پاسکتے ہیں، ان پودوں کو بایو فیول، کیمیکل، خوردنی تیل، دلیے جانوروں کے چارے اور بہت سے معاشی فوائد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائیزیشن‘ میں ہم ایسے تمام پودوں جیسے ہیلو فائٹ (نمکین زمین قدرتی طور پر اُگنے والا پودا) پر تحقیق اور ان کے اقتصادی استعمال پر کام کرتے ہیں۔ ہم نے دو سال قبل تھر میں آزمائشی طور پر ہیلو فائٹ نسل کی ایک گھاس لگائی تھی، جہاں یہ تجربہ بہت کام یاب رہا ہے۔ سندھ لائیو اسٹاک کا ایک بہت بڑا مرکز ہے، اگر ہم اس گھاس کو پورے سندھ میں لگا دیں تو یہاں قحط کبھی نہیں آئے گا۔ سیم و تھور کی وجہ سے سندھ میں بنجر ہونے والی ہزاروں ایکٹر زمین پر اس نسل کے دوسرے پودے بھی لگائے جاسکتے ہیں۔ اگر ہمارے اس منصوبے کو عملی طور پر صرف تھر میں ہی نافذ کردیا جائے تو تھر پاکستان کا امیر ترین علاقہ بن سکتا ہے ۔

ایکسپریس: ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ جامعہ کراچی میں داخلے اور ملازمت دونوں ہی سفارش اور کسی سیاسی دباؤ کی بنیا د پر ملتی ہیں، یہ بات کس حد تک درست ہے؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جب میں نے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تو داخلے کے لیے سفارش کرنے والوں کی وجہ سے میرا فون بجتا ہی رہتا تھا، لیکن میں نے اس معاملے میں اپنے کئی دوستوں اور بڑے بڑے لوگوں کو بھی ناراض کیا ہے۔ جہاں تک بات ہے تقرری کی تو پچھلے دو سال میں جو انٹری لیول کی بھرتیاں ہوئی ہیں آپ ان کا معیار اٹھا کر دیکھ لیں۔ ہم سلیکشن بورڈ میں پورے پاکستان کے لوگوں کو شامل کرتے ہیں۔ یہاں لوگوں کو تکلیف اسی بات کی ہے کہ ہم نے نئی بھرتیوں میں کرپشن کے دروازے مکمل طور پر بند کردیے ہیں، ہاں جو سیاسی اور سفارشی بنیاد پر مجھ سے پہلے بھرتی ہوچکے ہیں ان کے بارے میں ہم بعد میں فیصلہ کریں گے۔ اب لوگوں کی سمجھ میں یہ بات بھی آچکی ہے کہ داخلے اور کسی تقرری کے معاملے میں ڈاکٹر محمد اجمل خان سے کسی رعایت یا سفارش کی کوئی امید نہیں ہے۔

ایکسپریس: آپ طلبا یونین کی بحالی کے حق میں ہیں اور آپ نے اپنی تقرری کے بعد چیئرمین سینیٹ کو اس حوالے سے ایک خط بھی لکھا تھا، وہ کیا عوامل ہیں جن کی بنیاد پر طلبا یونینز کو بحال نہیں کیا جارہا؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: بالکل میں طلبا یونین کے حق میں ہوں اور پہلے بھی کئی بار اس بارے میں بات کرچکا ہوں۔ جہاں تک چیئرمین سینیٹ کو خط لکھنے اور کوئی پیش رفت نہ ہونے کا مسئلہ ہے تو یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جامعات میں ایک کُھلا ماحول ہونا چاہیے، کسی انفرادی رویے اور نظریے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ سب کو آزادی سے اپنی بات کہنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ معاشرے میں برا سمجھا جانے والا آئیڈیا ایک کھلے ماحول میں بحث کے بعد خود ہی ختم ہوجائے گا۔

اسے پیش کرنے والے والے لوگ بھی خود ہی سائیڈ لائن ہوجائیں گے، لیکن اگر آ پ انہیں زور اور جبر سے روکیں گے تو اس سے بغاوت پیدا ہوگی۔ جامعات کا تو کام ہی طلبا کو بحث و مباحثے کا کُھلا ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنے علم کی تلوار سے خراب آئیڈیاز کو کاٹ کر ختم کرسکیں ۔ طلبا یونین آئیڈیاز پر بحث و مباحثے اور اچھے آئیڈیاز کے فروغ کے لیے ایک مثبت پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں طلبا یونین کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا جس سے اس کا اصل مقصد فوت ہوگیا۔ سیاست کرنا گندا کام نہیں ہے، لیکن سیاست کے نام پر تشدد کرنا، غلط کام ہے، بدمعاشی کرنا گندا کام ہے، یونیورسٹی کے سسٹم پر کنٹرول حاصل کرنا گندا کام ہے۔

ایکسپریس: پوائنٹس جامعہ کراچی کا دیرینہ مسئلہ ہے، جامعہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے مسائل پر آپ کا کیا کہنا ہے۔

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جامعہ کراچی میں 41ہزار طلبا زیرتعلیم ہیں، ان سب کو گھر سے لانا اور لے جانا انتظامی طور پر ممکن نہیں ہے۔ ہمیں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے جو ایک ارب اسی کروڑ کی گرانٹ دی گئی ہے اس میں پوائنٹس کے لیے دس بسیں بھی شامل ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو انحطاط پوری جامعہ کراچی پر آیا اس کے اثرات ٹرانسپورٹ پر بھی مرتب ہوئے۔ پوائنٹس چلانے میں ماہانہ خرچہ ساڑھے تین کروڑ اور ریکوری پچاس لاکھ روپے سے بھی کم ہے۔ اس میں ہونے والی کرپشن کو روکنا ہماری ترجیح تو ہے لیکن ابھی اولین ترجیح اس سے بڑے معاملات میں کرپشن کو روکنا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی بھی تعلیمی ادارہ اس بات کا وعدہ نہیں کرتا کہ آپ کو گھر سے لانے لے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ دی جائے گی، نوکری دی جائے گی۔

آپ نے پڑھنے کے لیے داخلہ لیا ہے تو یونیورسٹی پہنچنا آپ کی ذمے داری ہے، ہاں یونیورسٹی کے اندر شٹل سروس کی فراہمی یونیورسٹی کی ذمے داری ہے ۔ میری ان باتوں کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ ہم پوائنٹ کی سہولت ختم کر رہے ہیں، لیکن ہم ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ نہیں اور اکتالیس ہزار لوگوں کو لانے لے جانے کے لیے چار سے پانچ ہزار بسیں چاہییں۔ اسے مینیج کرنا، اس میں کرپشن کو روکنا کراچی یونیورسٹی کا کام نہیں ہے۔

ایکسپریس: گذشتہ چند سالوں سے جامعہ کراچی کے طلبہ میں انتہاپسندی کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ طلبا کو صحت مند سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے کر جامعہ میں انتہاپسندی کا تدارک کیا جاسکتا ہے؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: آپ کا سوال ہمارے ساتھ کچھ زیادتی ہے، یہ سیدھا سیدھا ہم پر الزام ہے۔ کراچی میں جتنی انتہاپسندی ہے جامعہ کراچی میں اس کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماضی میں ان الزامات پر جو لوگ پکڑے گئے وہ جامعہ کراچی کے مستقل نہیں بلکہ پاس آؤٹ کرجانے والے طلبا تھے۔ جامعہ کراچی چار سال پہلے پاس آؤٹ کر جانے والے طلبا کی سرگرمیوں کی ذمے دار نہیں ہے۔ ہم نے طلبا کو مختلف مثبت سرگرمیوں میں شامل کرنا شروع کردیا ہے، ہماری اسٹوڈنٹ باڈی، ڈبیٹ کروا رہی ہے، فنکشن کروارہی ہے، ادبی سرگرمیاں کروا رہی ہے، ہم کھیلوں کے ایونٹ منعقد کروا رہے ہیں، پہلے یہ کام سیاسی تنظیموں کے طلبہ ونگ کرتے تھے لیکن ہم نے آہستہ آہستہ ان سے درخواست کی کہ آپ کو جو بھی کام کرنا ہے وہ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے کریں اور اس میں ہمیں خاطر خواہ کام یابی ملی ہے۔ جب ہم جامعات کی سطح پر طلبا کو مثبت سرگرمیوں کے لیے پلیٹ فارم مہیا کریں گے تو پھر اگر جامعات میں انتہاپسندی ہے بھی تو وہ ختم ہوجائے گی۔

ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنے کا شوق ہے؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: جب میں نے ایم ایس سی کیا تو اس زمانے میں اسٹاف کلب کا بڑا اچھا ماحول ہوا کرتا تھا، بڑے بڑے ادیب وہاں آتے تھے۔ اس ماحول میں ہم نے پڑھنا شروع کیا۔ پھر جب ایک بار یہ سلسلہ شروع ہوا تو پھر جتنے بھی بڑے ادیب تھے، میکسم گورکی، دوستو فسکی، سمر سیٹ موم، ٹالسٹائی، الیگزینڈرا پشکن، جارج ایلیٹ، اور دیگر کئی ادیبوں کو پڑھ ڈالا۔ ہمارا ادب پڑھنے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ بس بسم اللہ پڑھ کر شروع کیا تو پھر پوری کلیکشن پڑھ کر آگے بڑھتے تھے۔ 1975 سے1980تک پانچ سال بہت ادب پڑھا، لیکن جب پی ایچ ڈی کرنے گئے تو یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔

ایکسپریس: آپ کا پسندیدہ شاعر اور ادیب کون ہے؟

ڈاکٹرمحمد اجمل خان: پسندیدہ ادیبوں کے حوالے ذہن میں سب سے پہلا نام دوستوفسکی کا آتا ہے، اس کے علاوہ سمر سیٹ موم، الیگزینڈر پشکن بھی اس فہرست میں شامل رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔