جو مرضی مری سرکار کی

عبدالقادر حسن  ہفتہ 6 اپريل 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

بالآخر حکومت نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ملک چلانے کا صرف ایک ہی آپشن ہے کہ آئی ایم ایف سے مزید قرضہ حاصل کیا جائے اور اس کے ساتھ ہی دوسری صورت بھی بتا دی ہے کہ اگر آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل نہ کیا گیا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔

میں ماہر معاشیات نہیں ہوں لیکن اس ملک کا ایک شہری ہوں اور شہری ہونے کے ناتے حکومت میری معقول زندگی گزارنے کی ذمے دار ہے لیکن میری زندگی کو معقول بنانے کے بجائے نا معقول بنا دیا گیا ہے، میں موجودہ حالات میں ایک معقول زندگی بسر کرنے سے قاصر ہوں کیونکہ مجھے اپنے ملک کے حکمرانوں نے غیر ملکی ساہوکاروں کے اتنا زیر بار کر دیا ہے کہ باعزت زندگی گزارنی مشکل ہو گئی ہے اور ابھی مزید قرضوں کی خوشخبری بھی سنا دی گئی ہے۔

گزشتہ کئی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی آئی ایم ایف کا کشکول توڑنے کا زور شور سے اعلان کیا تھا لیکن چند ماہ بعد ہی ان کو سمجھ آگئی ہے کہ ستر برسوں کے بگاڑ کو درست کرنے میں وقت لگے گا اوربگاڑ کو درست کرنے تک حالات کو جوں کا توں نہ چلنے دیا گیا تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا اور دیوالیہ ملک کو کوئی قرض بھی نہیں ملے گا۔ دوسری طرف ایشیائی ترقیاتی بینک نے جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے حکومت کے معاشی ترقی کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ آیندہ برس تک پاکستان کی معاشی ترقی خطے میں سب سے کم رہے گی مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا اور روپے کی قدر میں بھی کمی ہو گی۔یہ وہ حقیقی تبصرے اور تجزیے ہیں جو اس خطے کی معیشت کے اصل مالک کر رہے ہیں۔

جان لیوا تازہ ترین خبریں یہ ہیں کہ پٹرول کے بعد بجلی بھی مہنگی کر دی گئی ہے اور بہت جلد گیس وغیرہ کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے والا ہے یعنی ابھی تک کچھ گنجائش باقی تھی ۔ کارخانے بند ہیں کاروبار میں مندا ہے نوکریاں نہیں ہیں، بے روزگاری عام ہے جائز ذرایع معاش مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور زندگی کی بقاء کا کوئی راستہ دکھائی نہ دینے کی وجہ سے لوگ اپنی زندگیاں ختم کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو معلوم ہے کہ خود کشی حرام ہے لیکن اس کے باوجود خود کشیاں جاری ہیں۔

یہ ایک انتہا ہے لیکن حکمرانوں کا دل گردہ ملاحظہ فرمایئے کہ اس مفلوک الحال قوم پر مزید مہنگائی مسلط کر رہے ہیں۔ پاکستان میں آباد مخلوق پر وہ وقت آچکا ہے خدا وہ کسی دشمن پر بھی نہ لائے ۔ ایسے مشکل بلکہ ناممکن وقت میں قوم کو اپنے حکمرانوں کا سہارا ہوتا ہے کہ اگر وہ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں تو ان کے حکمران بھی پیٹ بھر کر نہیں کھا رہے لیکن ہمارے حکمرانوں میں اس عوامی افلاس کی ہلکی سی جھلک بھی موجود نہیں ہے۔ وزیر حکومت کے خرچ پر شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کو کوئی بل موصول نہیں ہوتا ، کسی پٹرول کی قیمت ادا نہیںکرنی پڑتی، کسی دوا کی قیمت ادا نہیں کرنی پڑتی ، دیگر مراعات اتنی حاصل ہیں کہ باورچی خانے کا خرچہ بھی ادھر ادھر سے آجاتا ہے ۔

وزرائے اعلیٰ ، وزیر اعظم اور صدر مملکت تو جانتے بھی نہیں کہ بازار میں کیا ہورہا ہے کوئی چیز سستی ہے یا مہنگی جانے ان کی بلا ۔ وہ زندگی کی ان تمام الجھنوں سے محفوظ ہیں بلکہ وہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ جب وہ کسی بھی چیزکو حاصل کر سکتے ہیں تو پھر وہ کیا کوئی نئی چیز ہے جس کو حاصل کرنا چاہیں ۔ پوچھتے ہیں کہ کوئی بتائے کہ ہمارے پاس کیا نہیں ہے اور کیا کچھ ایجاد ہوا ہے کہ فوراً اس کو حاصل کیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اقتدار کی عمر تمام ہو جائے اور ہم اس سے محروم رہ جائیں۔ یہ لوگ بالکل نہیں جانتے کہ عوام کس حال میں ہیں اور کس قدر بدحال ہیں ۔

اگر وہ جانتے تو اتنی مہنگائی نہ کرتے جتنی اس وقت ہے اور اس میں اضافے کا تو سوچ بھی نہ سکتے لیکن جیسا کہ عرض کیا ہے کہ ان لوگوں کی جراتوں اور حوصلوں کو داد دینی چاہیے جو مزید مہنگائی کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔ اگر کسی پالیسی ساز کو یہ غلط فہمی ہے کہ عوام کو اس قدر پریشان اور مفلوک الحال کر دو کہ ان کی سوچ ہی ختم ہو جائے اور ان کے ذہن ماؤف ہو جائیں تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے ۔ جس شخص کا دنیا میں کچھ نہیں ہوتا وہ کچھ بھی کر گزرنے پر تیار ہوتا ہے۔ لوگوں کے پاس اتنا رہنے دو کہ وہ اس کو بچانے کے لیے خاموش رہیں۔ انسانی فطرت کی اتنی عام سی بات تو سمجھ لو کہ جس کسی کا دنیا میں کچھ نہیں ہوتا وہ کچھ بھی داؤ پر لگانے پر تیار ہو جاتا ہے ۔ جو نادان زندگیاں خودکشی کر رہی ہیں وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔

پاکستان میں یہ کھیل مدت سے کھیلا جا رہا ہے ۔ ایک طبقہ امیر ہوتا جا رہا ہے اور دوسرا اتنا ہی غریب ہوتا جارہا ہے لیکن کچھ پہلے تک غریبی قابل برداشت حد تک تھی اور اس کو ختم کرنے کی امیدیں باقی تھیں۔ کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دے رہا تھا کسی نہ کسی کو نوکریاں بھی مل جاتی تھیں ۔ حکومت زراعت دشمن نہیں تھی کاروبار بھی کچھ نہ کچھ چل رہے تھے ۔ امید کی کچھ روشنیاں آنکھوں کے سامنے لہرا جاتی تھیں لیکن اب کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

گھپ اندھیرا۔ حکومت کی طرف سے جو خبر آتی ہے وہ کسی نئی پریشانی کا پتہ دیتی ہے ۔ کسی ٹیکس کی خبر آتی ہے کسی نئے قرضے کی خبر آتی ہے اور بد امنی کی کسی نئی واردات کی خبر آتی ہے ۔ آخر یہ سب کیا مذاق ہے پاکستان کے عوام نے عمران خان کو ووٹ دے کر کوئی جرم کر دیا ہے کہ انھیں اس کی سزا مل رہی ہے جو ختم ہی نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی جارہی ہے ۔ روٹی کپڑا مکان تعلیم اور صحت کے خوش کن نعروں کی تعبیر ابھی بہت دور ہے ۔

ہمار ے حکمران اگر اپنے خیر خواہ ہیںتو وہ اسلام آباد کے محلات اور بنی گالا کی آسائش میں نہیں صرف لاہور شہر کے کسی بازار اور گلی کوچے میں جا کر اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھیں اور کانوں سے سب کچھ سنیں اور احوال واقعی سے آگاہ ہوں ۔ ورنہ ان کی جو مرضی ہو وہ کریں عوام کی جو مرضی ہو گی وہ کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔