’’ہے‘‘ سے’’تھے‘‘ تک

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 6 اپريل 2019
barq@email.com

[email protected]

کبھی کبھی تو ہم حیران وپریشان ہوجاتے ہیں کہ کتنے بڑے بڑے’’ہے‘‘ ہوتے ہیںجوپلک جھپکنے میں ’’تھے‘‘ ہوجاتے ہیں بعض ناموں کے ساتھ تو ’’تھے‘‘ لگاتے وقت دل کٹ کٹ جاتا ہے کیونکہ وہ جب ’’ہے‘‘ ہوتے ہیں تو اتنے زیادہ’’ہے‘‘ ہوتے ہیں کہ ان کے ساتھ ’’تھے‘‘ کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔اس سے کسی کو انکار کی کیامجال ہوسکتی ہے کہ اس’’ہے‘‘ اور’’تھے‘‘ سے سب کو گزرنا ہوگا۔ہرنفس موت کا ذائقہ چکھے گا۔اور کلُ من علیھا فان۔ جو آیا ہے وہ جائے گا بھی۔

لائی حیات۔آئے۔قضا لے چلی ’’چلے‘‘

اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے

ہمارے گاؤں میں ایک دیوانہ تھا۔لوگ کہتے تھے ورنہ وہ دیوانہ کبھی کبھی ایسی بات کرجاتا کہ بڑے بڑے فرزانے منہ دیکھتے رہ جاتے تھے، ایک دن ایک بڑا ہی نیک اور ہمدرد اور ہر کسی کے کام آنے والا شخص فوت ہوگیا ہم بھی فاتحے میں بیٹھے تھے کہ اچانک وہ دیوانہ بھی آگیا اور سیدھا آکر ہمارے پاس بیٹھ گیا کیونکہ ہم واحد آدمی تھے جو اس کی باتیں دلچسپی سے سنتے تھے اور لوگوں کی طرح اسے ڈانٹتے نہیں تھے۔  بعض اوقات تو کوئی دوسرا اس پر ہاتھ بھی اٹھا دیتاتھا۔تھوڑی دیر بیٹھا رہا اچانک بولا،یہ خدا کے کام بھی سمجھ میں نہیں آتے آدمی چھوٹا سا کوئی پیدا ہوتا ہے بھٹکتا رہتاہے یہاں وہاں رلتا رہتاہے اور جب بہت کچھ سیکھ کرکام کا ہوجاتاہے تو…  اس کے آگے وہ فوراً چپ ہوگیا کیونکہ لوگوں کے تیور خراب ہورہے تھے بعض بعض تو اپنے جوتوں کی طرف بھی دیکھنے لگے تھے۔وہ اچانک کھڑا ہوگیا اور یہ کہہ کر بھاگ گیا۔نہیں میرا مطلب ہے اچھی چیزیں خدا کو بھی پسند ہوتی ہیں۔لیکن اس حقیقت کے ماننے کے باوجود دکھ تو ہوتاہے جب کوئی بچھڑتا ہے۔ پشتو کا ایک ٹپہ ہے

اشنا د لارے نہ ھیریگی

زہ بہ د عمر اشنا سنگہ ھیرومہ

یعنی راستے کا آشنا اور ساتھی بھی نہیں بھولتا تو میں عمر بھر کے ساتھی کو کیسے بھلاپاؤں گا ایک اور گیت ہے

لیلو۔باغ د باغوان دے

مونگہ شنہ طوطیان یو نن دلے سبا بہ زونہ

یعنی اے لیلا۔باغ تو باغبان کا ہے ہم تو سبز طوطے ہیں آج یہاں ہیں کل چلے جائیں گے۔کتنے ’’ہے‘‘ تھے جن کو دیکھ دیکھ کرایسا لگتاتھا کہ یہ ہمیشہ ہمیشہ ’’ہے‘‘ رہیں گے لیکن وہ بھی ’’تھے‘‘ ہوگئے۔دراصل یہ ’’ہے‘‘ بڑے نادان ہوتے ہیں ان کو گمان ہوجاتاہے کہ ہم ہمیشہ ’’ہے‘‘ رہیں گے اور نہ جانے کیاکیاکرتے رہتے ہیں آشیانے بناتے رہتے ہیں لیکن بقول شیخ سعدی،

خیرے کن اے فلاں وغنیمت شمار عمر

زاںپیشتر کہ بانگ برائد فلاں نماند

ایک پشتو شاعر علی خان نے کہاہے کہ میں نے ابھی پھول کو سونگھا بھی نہیں تھا کہ بہار گزرگئی اور ابھی میں نے پورا دیکھا بھی نہیں تھا کہ کسی برق رخشندہ کی طرح چمکا اور بجھ گیا۔

حضرت ابراہیم ذوق نے کہاہے،

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے

پر کیا کریں کہ کام نہ بے دل لگی چلے

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج ہم پر یہ کیا المیہ طاری ہو رہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ روز پہلے ہمیں ایک دوست کے تعزیتی ریفرنس میں جانا پڑا حالانکہ ہمیں اب بھی یقین نہیں کہ وہ واقعی ہم سے بچھڑچکاہے۔جو صرف ہمارا ہی نہیں ایک دنیا کا دوست تھا’’شوکت علی خان‘‘۔جس کی اوروں کے لیے پہچان تو یہ ہے کہ وہ ٹی وی پروڈیوسر تھا۔ ٹی وی کو اور اپنے عوام کو بہت کچھ دے گیا اور پھر پی ایم جی ایم کے مرحلے تک پہنچ کر ریٹائرڈ ہوا لیکن بوڑھا نہیں بلکہ ابھی تو جوان ہی ہوا تھا اور ٹی وی پر جو کچھ کرگیا وہ اس کی ڈیوٹی تھی۔اصل چیز یہ ہے کہ وہ قطعی ایک الگ ٹائپ کا انسان تھا۔ہم پورے یقین بلکہ شرط لگا کر کہہ سکتے ہیں کہ دنیا میں ایسا شخص ایک بھی نہیں ملے گا جس کو اس سے دکھ پہنچا ہو۔

حالانکہ چارسدہ کا اچھا خاصا ’’خان‘‘ تھا لیکن دشمن اس کا ایک بھی نہیں، ہروقت ہنستا ہنساتا ہوا۔ہم نے جب یہ خبرسنی تو مبہوت رہ گئے، کیا اتنا زیادہ زندہ اور ہرکسی کو زندہ رکھنے والا شخص بھی مرسکتاہے؟ بلکہ اب بھی محسوس ہوتاہے کہ سامنے سے ہنستا ہوا آجائے گا اور ریفرنس میں اتنا کچھ سننے اور بولنے کے باوجود ابھی تک یقین نہیں آرہاہے یا جی نہیں چاہتا کہ یقین کریں۔

ہماری یہ عادت ہے اچھی یا بری اس کا ہمیں پتہ نہیں، بس ہم میں ہے یہ عادت، اگر بری بھی ہو تو ہمارے لیے اچھی ہے کہ ہم بہت ہی عزیز دوستوں اور رشتے داروں کے جنازے میں شرکت نہیں کرتے۔ دعا ہے تو دعا تو کہیں بھی کی جا سکتی ہے اور اگر کبھی جانا بھی پڑے تو ہم اس کی لاش یا چہرہ نہیں دیکھتے تاکہ ہمارے پاس اس کا زندہ مسکراتا اور ہنستا ہوا چہرہ رہے۔ہوسکتاہے کسی اور کی نظر میں یہ غلط ہو لیکن خود اپنے آپ کو ’’جیتے جی‘‘ بلکہ روز روز مرنے سے بچانے کے لیے غلط کام بھی کرنا پڑجاتے ہیں۔چنانچہ بہت سارے دوست اور عزیز ہمارے اندر اب بھی زندہ ہیں ساری دنیا میں ان کو زندہ رکھنا تو ہمارے بس میں نہیں ہے لیکن اپنی دنیا اپنے اندر کی دنیا میں انھیں زندہ رکھنے کا یہی ایک طریقہ ہماری سمجھ میں آیاہے۔باقی تو بقول خوشحال خان خٹک۔موت ایک باز ہے جو کبوتر کو ہوا ہی میں دبوچ لیتاہے،

ہو عمر حضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ

ہم کیارہے یہاں’’ابھی‘‘ ’’آئے‘‘،’’ابھی‘‘چلے

وہ تو زمین نے کہاہے کہ یہ لوگ فضول میں میرے لیے میری تیری کرکے لڑتے ہیں حقیقت میں تو سب میرے ہیں میں ان کی نہیں۔ایک پشتو ٹپہ ہے اس کا اظہار یوں ہوا ہے کہ زمین تیرا خراج عالمگیر ہے۔نوجوان لے لیتی ہو اور خالی پلنگ واپس کردیتی ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔