- 9 مئی واقعات: سابق ایم پی اے فرحت فاروق گرفتار
- پی ٹی آئی چھوڑنے والے سابق ارکان اسمبلی کا علیحدہ گروپ بنانے کا فیصلہ
- نیشنل بینک کے ملازمین نے اَن پڑھ خاتون کیساتھ فراڈ کردیا
- ہمارے ساتھ ظلم ہورہا ہے، مزید برادشت نہیں کرینگے، گرفتار پی ٹی آئی خواتین
- پرویز الٰہی کے ترجمان کو پولیس نے احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا
- اسلام آباد میں نوجوان کے قتل پر پی ٹی آئی کا اداروں کیخلاف پروپیگنڈا ناکام
- سابق ڈپٹی اسپیکر پختونخوا اسمبلی محمود جان گرفتار
- فیصل آباد پولیس کو مطلوب 3 ملزمان یو اے ای سے گرفتار
- 9، 10 مئی کو اسلحہ نکال کر پولیس کو دھمکیاں دینے والا ملزم گرفتار
- بھارت کا جرمنی سے 2 سالہ بھارتی بچی کو واپس کرنے کا مطالبہ
- پاکستان کے بعد آسٹریلیا، انگلینڈ بورڈز نے بھی مالیاتی ماڈل پر سوال اٹھادیا
- مجرمانہ کارروائیوں میں سیکیورٹی وردیاں استعمال کرنے والوں پر مقدمے کا حکم
- تجارتی خسارہ، 11 ماہ میں سالانہ بنیادوں پر41 فیصد کمی
- سگریٹس پر ٹیکس چوری، خزانے کو سالانہ 240ارب کانقصان
- اثاثہ جات پر انکم سپورٹ لیوی عائد کرنے کی تجویز زیر غور
- جامعہ کراچی میں جھگڑے پر پانچ ملزمان گرفتار
- 9 مئی کو جی ایچ کیو پرحملہ کرنے والے ایک اور شرپسند کی شناخت
- کراچی؛ موٹر ٹیکس ادائیگی چیکنگ 5 جون سے شروع کرنے کا اعلان
- وفاقی ترقیاتی پروگرام 950 ارب روپے تک بڑھانے کا فیصلہ
- ’’ایشیاکپ سے متعلق ہائبرڈ ماڈل مسترد کردیا جائے گا‘‘
سائنس دانوں نے بلیک ہول ’’دیکھ‘‘ لیا ہے... کیا واقعی؟

سائنس دان 10 اپریل کو پریس کانفرنس کے ذریعے اس تاریخی کامیابی کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔ فوٹو :




کراچی: عالمی میڈیا میں خبر گرم ہے کہ ماہرینِ فلکیات کی ایک عالمی ٹیم نے بلیک ہولز کی ’’اوّلین تصویر‘‘ حاصل کرلی ہے جسے وہ 10 اپریل کے روز ایک بین الاقوامی پریس کانفرنس میں دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ یہی خبر اس انداز میں بھی پیش کی جارہی ہے کہ ماہرینِ فلکیات نے پہلی بار بلیک ہول ’’دیکھ‘‘ لیا ہے۔ یہ دونوں خبریں اتنی مبہم ہیں کہ انہیں غلط قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
بلیک ہولز (Black Holes) وہ مردہ ستارے ہوتے ہیں جن کی کمیت ہمارے سورج کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتی ہے، جبکہ ان کی کششِ ثقل (Gravity) اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہاں سے کوئی چیز بھی فرار نہیں ہوسکتی… روشنی بھی نہیں۔
آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت یہ کہتا ہے کہ کائنات میں کوئی بھی شئے، روشنی سے زیادہ رفتار پر حرکت نہیں کرسکتی (اور روشنی کی رفتار 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے)۔ یعنی اگر کسی بلیک ہول سے روشنی فرار نہیں ہوسکتی، تو پھر کوئی دوسری چیز بھی فرار نہیں ہوسکتی۔ اب چونکہ کسی بھی چیز کو ’’دیکھنے‘‘ کا انحصار، اس سے ہم تک پہنچنے والی ’’روشنی‘‘ پر ہوتا ہے؛ اور بلیک ہول سے کسی قسم کی کوئی روشنی تک خارج نہیں ہوسکتی، تو اصولی طور پر ہم بلیک ہول کو ’’دیکھ‘‘ نہیں سکتے۔
امید ہے کہ یہ نکتہ واضح ہوگیا ہوگا۔
البتہ، بلیک ہول کی شدید کششِ ثقل کے یہ اثرات اس کے ارد گرد ایک مخصوص علاقے تک محدود ہوتے ہیں جسے ’’واقعاتی افق‘‘ (Event Horizon) کہا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید صرف ایک بلیک ہول ہی کائنات میں موجود ہر چیز کو ’’ہڑپ‘‘ کرجاتا۔ واقعاتی افق سے دور جاتے ہوئے، بلیک ہول کی کششِ ثقل بتدریج کم ہوتی چلی جاتی ہے؛ اس لیے کسی بلیک ہول سے دور دراز مقامات پر موجود اجسام پر اس کشش کے اثرات بھی اتنے معمولی ہوتے ہیں کہ انہیں بہ مشکل ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
یعنی ہم واقعاتی افق کو بلیک ہول کی ’’سرحد‘‘ سمجھ سکتے ہیں۔
لیکن بلیک ہول کی اسی ’’سرحد‘‘ پر بہت کچھ ہورہا ہوتا ہے۔ وہ اجسام (مثلاً گرد اور گیس کے وسیع و عریض بادل وغیرہ) جو کسی بلیک ہول کی طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں، وہ جیسے جیسے واقعاتی افق کے قریب پہنچتے ہیں، ان کی رفتار بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور وہ بلیک ہول کے گرد ’’مرغولہ نما‘‘ (Spiral) راستے پر چکر لگاتے ہوئے، واقعاتی افق سے قریب تر ہونے لگتے ہیں۔ ہر چکر میں ان کی رفتار مزید بڑھ جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ عین واقعاتی افق پر پہنچ جاتے ہیں۔
زبردست رفتار کی وجہ سے ان اجسام کی اپنی توانائی بھی بہت زیادہ ہوجاتی ہے اور ان سے (روشنی سمیت) مختلف اقسام کی شعاعیں (ریڈی ایشن) خارج ہونے لگتی ہیں… اور جیسے ہی وہ واقعاتی افق سے بلیک ہول کے اندر گرنے لگتے ہیں ٹھیک اسی وقت، زبردست ایکسریز خارج کرتے ہوئے، وہ بلیک ہول میں ہمیشہ کےلیے گم ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ فلکیات ان ایکسریز کو ’’بلیک ہول میں گرتے ہوئے مادّے کی آخری چیخ‘‘ بھی کہتے ہیں۔
اگر ’’سائنس کے باخبر ذرائع‘‘ کی بات کریں، تو قوی امکان ہے کہ 10 اپریل 2019 کی پریس کانفرنس میں ماہرین فلکیات کی بین الاقوامی ٹیم یہ اعلان کرے گی کہ انہوں نے بلیک ہول میں گرتے ہوئے مادّے سے خارج ہونے والی شعاعوں کی مدد سے ’’واقعاتی اُفق‘‘ کی نہایت مفصل اور واضح عکاسی کرلی ہے۔
اسی حوالے سے دوسری بات یہ بھی کہی جارہی ہے کہ مذکورہ دریافت کا تعلق ہماری اپنی ’’ملکی وے کہکشاں‘‘ کے مرکز میں موجود ایک بہت ہی بڑے یعنی ’’فوق ضخیم‘‘ (Supermassive) بلیک ہول سے ہے۔ اندازہ ہے کہ اس بلیک ہول کی کمیت، ہمارے سورج کے مقابلے میں تقریباً 45 لاکھ گنا زیادہ ہے جبکہ (زمین سے دیکھنے پر) یہ ’’برجِ قوس‘‘ میں نظر آتا ہے۔ اس لیے اس کا نام بھی ’’قوس الف نجمہ‘‘ (Sagittarius A-Star) رکھا گیا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ دراصل یہ ریڈیو شعاعوں کا ایک منبع (source) ہے۔
بلیک ہول پر تحقیق کی غرض سے جاری عالمی منصوبے ’’ایونٹ ہورائزن ٹیلی اسکوپ‘‘ (EHT) میں دنیا بھر سے 12 طاقتور فلکیاتی دوربینیں، ایک ساتھ مربوط انداز سے، شریک ہیں۔ خیال ہے کہ ای ایچ ٹی سے وابستہ ماہرین نے ہماری ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں موجود بلیک ہول کے ’’واقعاتی افق‘‘ کی مفصل اور کامیاب منظر کشی کرلی ہے۔ کچھ خبروں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ شاید اس واقعاتی افق کی ساخت کسی ڈونٹ (Doughnut) یا چھید والی باقر خانی جیسی ہوتی ہے۔
یہ قیاس آرائیاں کتنی صحیح ہیں اور کتنی غلط؟ اس بارے میں حتمی طور پر ہمیں 10 اپریل کے روز ہی معلوم ہوگا۔
تب تک کےلیے صرف اتنا اطمینان رکھیے کہ سائنس دانوں نے بلیک ہول کی کوئی ’’تصویر‘‘ حاصل نہیں کی ہے، بلکہ وہ بلیک ہول سے وابستہ ’’واقعاتی افق‘‘ کا مفصل ترین مشاہدہ کرکے اس کی باریک ترین جزئیات معلوم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔