جمہوریت کے جاں نثار

زاہدہ حنا  اتوار 7 اپريل 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

دو دن پہلے گڑھی خدا بخش میں بھٹو خاندان کی قبروں پر پھول چڑھائے گئے۔ میدان اس خاندان کے ہزاروں چاہنے والوں سے بھرگیا ۔ انھوں نے آنسو بہائے ، مرثیہ خوانی اور سینہ کوبی کی ، اگربتیوں اور شمعوں کا دھواں گریہ کرنیوالوں کے سروں پر منڈلاتا رہا ۔ یہ بھٹو صاحب کی 40 ویں برسی تھی۔ ان کی پھانسی کو پوری دنیا عدالتی قتل قرار دیتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ قبر ایک تھی اور اس میں رہنے کے لیے دو بدن تھے۔ سو قبر میں اس شخص کو سلایا گیا جو ایک سفاک آمرکے قبضۂ قدرت میں تھا۔ یہ تاریخ کا مذاق نہیں تو اورکیا ہے کہ بھٹو جب گڑھی خدا بخش میں ابدی نیند سونے کے لیے اتارے گئے تو چار افراد تھے جنہوں نے انھیں خاک کے بستر پر لٹایا۔ان میں سے کوئی بھی ان کے خاندان کا فرد نہ تھا، ان کا آخری دیدار خاندان کے کسی فرد کو نہیں کرایا گیا۔

وقت انتقام لیتا ہے اور بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے والے شخص کا خاندان بھی اس کے آخری دیدار سے محروم رہا ۔ جبڑے کی ایک ہڈی سے وہ پہچانا گیا اور اسی پر شاندار مقبرہ تعمیر ہوا جس پر بھولے بھٹکے لوگ فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں،گڑھی خدا بخش میں قسمت کے ستائے ہوئے بوڑھے اور بڑھیاں سارا سال آتی ہیں اور باپ بیٹی سے منتیں مرادیں مانگتی ہیں ۔ قبر ایک تھی اور سونے والے دو۔ دونوں الگ الگ قبروں میں سوئے لیکن دونوں کا مقدر وقت نے اپنے ہاتھ سے لکھا۔ آج تک کون ہے جو اپنا مقدر خود لکھ سکا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور بھٹو صاحب کے دونوں بیٹے تا دیر یاد کیے جائیں گے لیکن انھیں بھی کون بھلاسکتا ہے جو ضیاء آمریت کے شکنجے میں جکڑے گئے۔ ان میں سے بیشتر بھٹوکے جاں نثار اور نادار۔ ان ناداروں نے اپنی اور اپنے خاندان کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی جمہوری جدوجہد کو دان کردیں۔ان میں سے بہت سے اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوں گے جنھیں شاید ان کے گھر میں بھی کم کم لوگ ہی یاد کرتے ہوں۔

اس وقت مجھے پنجاب کے اس عثمان غنی کی یاد آرہی ہے جسے فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا دی، سزا پوری ہوئی اور وہ دولہا بنا ہوا گھر آیا، پھر اپنے ساتھیوں کے شانوں پر قبرستان لے جایا گیا۔ شاہدہ جبیں اس کی بہن تھیں انھوں نے پروین خان کی مرتب کردہ کتاب ’’مارشل لاء کے قیدی‘‘ میں اپنے بھائی کی، اپنی اور دوسری خواتین کی قید کی تفصیل لکھی ہے اور پھر عثمان کی پھانسی کا حال لکھا ہے۔

عثمان کے چہرے پر عجیب سی چمک تھی، اس کی آنکھوں میں جلال تھا، وہ بہت پیارا لگ رہا تھا، ہمیں لگتا ہی نہ تھا کہ ہمارے بھائی کو سزائے موت دی جا رہی ہے، ایسا لگتا تھا جیسے دولہا برات میں جانے والا ہو، اس کے چہرے پر ذرہ برابر ملال نہ تھا، کہنے لگا امی آپ توکہتی تھیں کہ عثمان بڑا کالا ہے اب دیکھو میں کتنا گورا ہوں، پیارا ہوں۔ ماں تم ببّر شیرکی ماں ہو، گھبراؤ نہیں، میں صبح گھر آرہا ہوں ۔

ہم نے پوچھا یہ بیڑیاں ابھی نہیں اُتریں؟ کہنے لگا یہ بھی کل ہی اتریں گی یہ تو میری دوست ہیں، انھوںنے میرا ساتھ دیا ہے ۔ لوگ کہتے ہیں کہ سزائے موت کے قیدی کو ہوش نہیں رہتا، عثمان کے ساتھ ایسی بات نہ تھی وہ پہلے سے زیادہ ہوش میں تھا اور بہت عقلمندی کی باتیں کر رہا تھا اس نے ایک ایک رشتے دار سے بات کی اور خود بلا بلا کر باتیں کیں۔

’’میں اس اذیت ناک قید سے کل صبح آزاد ہوجاؤں گا، میں ایسی جگہ پر جا رہا ہوں جہاں کوئی تشدد نہ ہوگا، سکون ہی سکون ہوگا، اسی دوران جیل کا عملہ طبی سامان لے کر آگیا پانی کی بالٹیاں بھی ان کے پاس تھیں۔ میں نے کہا کہ ان کو واپس لے جائیں ، عثمان کی بہنیں ملاقات کر رہی ہیں یہاں نہ کسی کو ٹیکے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی دوائیوں کی ضرورت ہوگی ۔ ‘‘

اس نے سب بہنوں کو پیار کیا اور کہا ’’ میں آپ لوگوں کو کچھ نہ دے سکا ‘‘، پھر اس نے مجھ سے کہا ’’آپ میری سیاسی ساتھی اور بہن ہیں ۔ہم دونوں جس مشن پر نکلے تھے اُسے اب پورا ہونا چاہیے، ماں کہتی تھی عثمان کو سزائے موت ہوجائے گی اس لیے سیاست نہ کرو، لیکن اب میں آپ کے راستے سے ہٹ گیا ہوں اب تو آپ نے اس مشن کو زیادہ تیزکرنا ہے ، قیدیوں کو ملتی رہیں اور ان لوگوں کا زیادہ خیال رکھیں جن کے ساتھ زیادہ ظلم ہوا ہے‘‘ ، پھر اس نے سگریٹ کی پنیوں،کا ایک تاج دیا میں نے اپنی بیٹی کا نام سونیا رکھا تھا، اس نے کہا یہ تاج اس کے سرکے لیے ہے، اب اس کا نام بینظیر ہے ۔

اس کو قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو سے عشق تھا ۔ پھر ہمیں باہر نکال دیا گیا ، ہماری آنکھوں میں آنسوؤں کی بجائے ایک سکون تھا ۔ اس نے کہا کہ گھرکو صاف رکھنا مجھے صبح اُجلے کپڑے پہنانا ، اگر بتیاں جلانا ، خوشبو لگانا میں کل صبح گھر آرہا ہوں ۔ آخر وقت اس کے یہ الفاظ تھے ۔

میں ایک سیاسی عورت ہوں ۔جب آخری ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ ’’بارہ دن ہوگئے ہیں، آصف بٹ نے بھوک ہڑتال کی ہوئی ہے ۔ رہائی کمیٹی والوں کو بتاؤ۔‘‘

اس کی سوچ اور ولولے کا یہ عالم تھا ۔ رہائی کمیٹی کا جب کنونشن ہوا تو انھوں نے قرارداد منظورکی تھی۔ باقاعدہ ایم آر ڈی والوںنے بھی قراردادیں منظورکی تھیں جب اگست میں سزا کا اعلان ہوا ۔ لاہور ہائی کورٹ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن مزدور یونین ، سب نے قراردادیں منظورکیں کہ عثمان کی عمر اتنی کم ہے ان کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی ۔

جس وقت 1978میں میں نے گرفتاری دی تھی تو میں جن حالات سے دوچار تھی ان کے تحت میں نے ارادہ کیا تھا کہ جب بھی میں یہاں سے نکلی تو اپنے سیاسی ساتھیوں کے لیے اور ان کے لواحقین کے لیے جو بھی ہوا کروں گی۔ جب میں قلعے میں تھی تو میرے ساتھی سیاسی قیدی کہتے تھے کہ رہائی کے بعد کیا تم یہاں آؤگی ؟ تو میں کہتی، انشاء اللہ ، ضرور ۔میں جیل میں تھی تو مجھے معلوم ہوا کہ سیاسی اسیروں کی رہائی کمیٹی بن چکی ہے، اس وقت چونکہ اس میں دوسری سیاسی جماعتیں یعنی ایم آر ڈی کے بھی لوگ تھے ۔ وکلا بھی تھے، جب یہ کمیٹی بنی تو ملک کے حالات یہ تھے کہ کوئی سیاسی قیدیوں کا نام لینا تو کیا ان کے گھروں کے پاس سے بھی نہیں گزرتا تھا، رہائی کمیٹی نے اس وقت یہ آواز اٹھائی کہ سیاسی قیدی مجرم نہیں ہیں، ان کا مقام بہت بلند ہے ، پاکستان بننے کے بعد یہ سیاسی اسیروں کی پہلی رہائی کمیٹی تھی ۔

ضیاء الحق کی آمریت میں سیاسی رہنماؤں اورکارکنوں نے کیا کچھ نہ بھگتا۔ سیاسی خواتین کارکنوں پرکیا کچھ نہ گزری۔ ناہید سعید نے بھی ان دنوں قید بھگتی ۔ 1983 کی ایم آر ڈی موومنٹ میں انھیں اس لیے گرفتارکیا گیا کہ وہ جمہوریت بحال کرنے کی جدوجہد کررہی تھیں ۔ انھیں شاہی قلعے میں رکھا گیا، ان کے ساتھ جس قدر توہین آمیز سلوک ہوا ، اسے پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ سلوک روا رکھنے والے انسان تھے ۔ وہ کوٹ لکھپت میں رہیں ۔ ان ہی کی طرح سرداراں بیگم ، عابدہ ملک ، ناصرہ شوکت محمود ، مسز عارف اقبال بھٹی ، نصرت تارڑ ، اماں نتھی ، قمرسلطانہ اور بہت سی دوسری خواتین ۔ کتنے نوجوان تھے جنہوں نے بھٹو صاحب کی قید اور سزا کے خلاف خود سوزی کی،کتنوں نے کوڑے کھائے ، صحافی بھی کوڑے کی سزا سے نہ چھوٹے ۔

جمہوریت کے جاں نثاروں کی ایک طویل فہرست ہے، جن کے نام تاریخ میں امر ہوچکے ۔کتنے عظیم ہیں وہ جنہوں نے ہمارے بہترکل کے لیے اپنی زندگیاں قربان کردیں۔کتنا سچ کہا تھا فیضؔ نے ۔

جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی توکوئی بات نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔