کرکٹرز کا ’’آرام‘‘ ٹیم ’’بے آرام‘‘

سلیم خالق  اتوار 7 اپريل 2019
اگر خدانخواستہ انگلینڈ سے سیریز میں نتائج توقعات کے مطابق نہ رہے تو ٹیم کی ورلڈکپ مہم کو شدید دھچکا لگے گا۔ فوٹو: اے ایف پی

اگر خدانخواستہ انگلینڈ سے سیریز میں نتائج توقعات کے مطابق نہ رہے تو ٹیم کی ورلڈکپ مہم کو شدید دھچکا لگے گا۔ فوٹو: اے ایف پی

ورلڈکپ کھیلنے کیلیے کون انگلینڈ جائے گا؟ان دنوں پاکستانی کرکٹ حلقوں میں سب سے زیادہ یہی بحث جاری ہے، ٹویٹر پر ہزاروں افراد نے اپنی اپنی ٹیم شیئر کی ہے، البتہ وہ کون سے15 خوش نصیب ہیں جو گرین شرٹ زیب تن کریں گے اس کا علم 18 اپریل کو ہی ہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ریگولر کپتان سرفراز احمد کی عدم موجودگی میں ہی دبئی میں اسکواڈ کو حتمی شکل دے دی گئی تھی، البتہ صرف 2 ،3 پلیئرز پر بدستور بحث جاری ہے، اس وقت سب سے بڑا سوال محمد عامر کے انتخاب کا ہے، اب تک کی ٹیم میں وہ دکھائی نہیں دے رہے البتہ ان کے ’’چاہنے والوں ‘‘ کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح وہ انگلینڈ جانے والے دستے میں شامل ہو جائیں، ویسے یہ بڑی بات ہے کہ بغیر کسی پرفارمنس کے عامر اتنی کرکٹ کھیل گئے۔

کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ کوئی بولر 14میچز میں صرف5 وکٹیں لے پھر بھی ڈراپ نہ ہو، واقعی عامر کی پہنچ ’’اوپر‘‘تک ہے، ویسے بھی اب پاکستان کی نمائندگی میں انھیں دلچسپی نہیں رہی، برطانوی خاتون سے شادی کے بعد انھوں نے نیشنلٹی کیلیے درخواست جمع کرائی ہوئی ہے، جیسے ہی انھیں پاسپورٹ ملا وہ پاکستان کو خدا حافظ کہہ کر مستقل طور پر لندن منتقل ہو جائیں گے، عامر ٹیم کے کئی کھلاڑیوں کو اپنے اس پلان سے آگاہ کر چکے ہیں۔

ان کا ارادہ ہے کہ کسی کاؤنٹی سے مکمل سیزن کھیلنے کی آفر ہو جسے وہ فوراً قبول کر لیں، گرین شرٹس کو بھی اب آگے کا سوچنا چاہیے، آپ کے پاس کئی دیگر پیسرز بھی موجود ہیں انھیں بھی موقع دیں یقیناً وہ عامر سے تو زیادہ ہی کامیاب رہیں گے، یو اے ای کی سیریز میں سلیکشن کمیٹی نے کئی اہم کھلاڑیوں کو آرام کرایا اور یہ فیصلہ بیک فائر کر گیا، اب سرفراز بھی واپسی پر دباؤ کا شکار ہوں گے۔

اگر خدانخواستہ انگلینڈ سے سیریز میں نتائج توقعات کے مطابق نہ رہے تو ٹیم کی ورلڈکپ مہم کو شدید دھچکا لگے گا،چونکہ میں پانچویں ون ڈے کے فوراً بعد رات کو ہی دبئی سے عمرے کی ادائیگی کیلیے سعودی عرب روانہ ہو گیا تھا اس لیے کچھ باتیں آپ کے ساتھ شیئر نہیں کر سکا، وہ اب بتاتا ہوں، اس بار بھی دبئی فیسٹیول سٹی کے فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹیموں کا قیام رہا لیکن پی ایس ایل والی رونق نظر نہ آئی، سیلفیز کے شوقین شائق بھی موجود نہ تھے۔

شاید ٹیم کی غیر معیاری کارکردگی بھی اس کی ایک وجہ ہو،ساتھ والے ہوٹل کراؤن پلازہ میں عموماً ناشتے پر امپائرز وغیرہ مل جاتے تھے مگر اس بار ایسا نہ تھا،اس ٹور میں بھی طلعت علی منیجر تھے اور شاید انھوں نے کھلاڑیوں کو کچھ زیادہ ہی ڈھیل دی ہوئی تھی،آفیشل طور پر کوئی کرفیو ٹائم نہ تھا مگر پلیئرز سے کہا گیا کہ وہ میچ سے پہلی والی رات جلدی کمروں میں واپس آ جایا کریں، فیلڈ میں کارکردگی خراب مگر کھلاڑی گھومتے پھرتے رہے، کروز پر ایک پارٹی میں بھی ایک پلیئر دکھائی دیے، عمر اکمل کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ کسی میوزیکل کنسرٹ میں موجود تھے مگر انداز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے نیند آ رہی ہو۔

پی سی بی نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے ان پر جرمانہ کیا، ویسے عمر اکمل جیسے لوگ کبھی تبدیل نہیں ہو سکتے، آپ کو پبلک فیگر بننے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ، میوزیکل کنسرٹ میں میچ سے ایک رات قبل جانا کسی صورت مناسب نہ تھا، پی سی بی نے تو انھیں سستے میں چھوڑ دیا، عمر اکمل کی پرفارمنس بھی اچھی نہیں، انھیں اب قومی ٹیم میں شمولیت کا خواب دیکھنا ترک کر دینا چاہیے، آپ کے ’’سپورٹرز‘‘ اسکواڈ میں شامل تو کرا سکتے ہیں مگر کارکردگی خود ہی دکھانا پڑتی ہے۔

آسٹریلیا سے سیریز میں کپتان سرفراز احمد سمیت 6 کھلاڑیوں کو ’’آرام‘‘ کرانے کے عجیب و غریب فیصلے پر پی سی بی میڈیا کی جانب سے شدید تنقید کی زد میں رہا،’’ فتح نہیں تجربات اہم ہیں‘‘ والا بیان قائم مقام کپتان شعیب ملک کو ہدایت دے کر دلایا گیا تھا جس پر وہ خود ناقدین کی توپوں کا نشانہ بن گئے، بورڈ نے نئی پالیسی کے تحت سیریز کے دوران کھلاڑیوں کو صحافیوں سے دور رکھا، انھیں صرف پریس کانفرنس میں ہی بات کرنے کی اجازت تھی، جب میں نے ٹیم کے میڈیا منیجر رضا راشد سے پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ ’’ایسا مکی آرتھر کی ہدایت پر کیا گیا‘‘، البتہ ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی کے مطابق ’’چونکہ دبئی میں میچز کے دوران صرف ایک دن کا وقفہ تھا اس میں کھلاڑیوں کو آرام کا موقع دینے کیلیے انٹرویوز وغیرہ سے روکا گیا ، بورڈ خود بھی وقفے والے دن کسی کا انٹرویو جاری نہیں کرے گا‘‘۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آخری میچ سے قبل آرام کے دن عابد علی کا انٹرویو پی سی بی کے میڈیا ڈپارٹمنٹ نے ہی سب کو بھیجا تھا، نئی پالیسی کے تحت میچ پریویو، رپورٹس اور انٹرویوز از خود میڈیا کو ریلیز کیے گئے،اس حوالے سے ایک سینئر صحافی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جو بورڈ کیلیے رپورٹس تیار کرنے کا کام کرتے رہے،یہ غلط بات نہیں لیکن اس سے صرف پی سی بی کا بیانیہ سامنے آئے گا لہذا میڈیا کو کھلاڑیوں تک رسائی سے نہیں روکنا چاہیے۔

یو اے ای میں سیریز کیلیے پی سی بی نے میجر(ر) اظہر کو سیکیورٹی منیجر بنایا تھا لیکن ابتدائی تین میچز کے بعد کسی نجی وجہ سے انھیں وطن واپس جانا پڑا،آخری دونوں ون ڈے میں کرنل (ر) آصف ٹیم کے ساتھ رہے، بورڈ نے بولنگ کوچ اظہر محمود کے دوست ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کیں مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ پلیئرز میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ نہ جگا سکے، بلکہ ایسی پرفارمنس دیکھ کر شاید ماہر نفسیات کو بھی کسی ماہر نفسیات کی ضرورت پڑ گئی ہو، مکی آرتھر نے بھی شاید جاوید میانداد کے دورِ کوچنگ کی ویڈیوز دیکھ لی ہیں میچز کے دوران جب انھیں لگتا کہ کیمرہ سامنے آ رہا ہے تو کبھی بڑبڑانے تو کبھی غصے پر کرسی پر ہاتھ مارتے دکھائی دیتے تھے۔

آرتھرکو یاد رکھنا چاہیے کہ غصے پر کنٹرول نہ رکھنے کے سبب پہلے ڈریسنگ روم والے واقعے پر کتنی تنقید سہنا پڑی تھی، خیر اس سیریز نے کوچ کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں، گزشتہ دنوں ہوٹل میں چیئرمین پی سی بی احسان مانی کے ساتھ طویل نشست رہی تھی، وہ کوچنگ اسٹاف کی کارکردگی سے مطمئن ہیں،لہذا ہماری تنقید کا کوئی فائدہ نہیں، اب جو بھی تبدیلیاں آئیں وہ ورلڈکپ کے بعد ہی آئیں گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔