’’کوچۂ سخن‘‘

عارف عزیز  اتوار 7 اپريل 2019
 کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل

گر دسترس نہیں تو ضرورت بنی رہے

پانی یہ چاہتا ہے سدا تشنگی رہے

جگنو نے پھر چراغ تلے شب گزار لی

وہ چاہتا نہیں تھا وہاں تیرگی رہے

یہ برگ ریز کی ہے تمنا کہ چرخ پر

قوس قزح کا رنگ بھی خاکستری رہے

مہتاب وہ رہے تو مری آنکھ جھیل ہو

وہ آفتاب ہو تو یہ سورج مکھی رہے

شیطاں بنے کبھی نہ فرشتہ صفت دکھے

ہر آدمی کو چاہیے بس آدمی رہے

مایوسیوں کی بیڑیاں ہوں جس کے پاؤں میں

اس زندگی کے سائے میں اک خودکشی رہے

جس گھر کا کوئی فرد شکاری ہوس کا ہو

اس گھر میں بھی شکار کوئی لازمی رہے

(سردار فہد، ایبٹ آباد)

غزل

جہانِ خواب کو بے خواب کر کے چھوڑ دیا

گلی کے شور نے گھر کا سکوت توڑ دیا

خود آپ راہ نے یہ پیچ و خم نہیں کھائے

مسافروں نے دیا جو بھی اس کو موڑ دیا

مرے عدیل ہے سچ جھوٹ سب تجھے معلوم

مگر کسی نے جو  بازو ترا مروڑ دیا

کہاں سے آئے گی ٹھنڈک وہ چاندنی والی

ہزار، لاکھ کہ چاہے جلے کروڑ دِیا

یہ نم ہمارا تو یوں بھی ہوا اچک لیتی

حرج ہی کیا، جو کسی نے بدن نچوڑ دیا

ہر اک روئیں میں نگاہوں کا شہر تھا آباد

بچاری آنکھوں کو ایسے ہی یار پھوڑ دیا

ذرا یہ ذہن بھی آنکھوں کے ساتھ کھول کے رکھ

تبھی تمام دکھے گا دیے سے جوڑ دِیا

(حبیب احمد۔ شورکوٹ، جھنگ)

غزل

رہِ غزل کے تصدق کہ خاص و عام چلے

مگر کچھ ایسے بھی تھے جو برائے نام چلے

ہماری در بدری کا حساب کون کرے

کہ ہم ہوا کے تعاقب میں صبح و شام چلے

تو پھر سمجھنا مدینہ یہاں سے دور نہیں

رئیسِ شہر سے آگے اگر غلام چلے

نواز کر تُو مجھے اتنا معتبر کر دے

ترے فقیر کا خیراتیوں میں نام چلے

بہکنے دے نہ کسی کو بھی دخترِ انگور

تمہارے ہاتھ سے گر سلسلۂ جام چلے

گلہ نہ کر کہ ابھی تک غزل ادھوری ہے

تو میرے سامنے بیٹھے تو میرا کام چلے

(راکب مختار، شورکوٹ)

غزل

خزاں رسید ہوں، لیکن بہار بانٹتا ہوں

محبتوں کا شجر ہوں میں پیار بانٹتا ہوں

وگرنہ پھول ہی دیتا ہوں میں تجارت میں

تمہارا کہنا ہے سو تم سے خار بانٹتا ہوں

کسی مسیح کی آمد کی راہ تکتا ہوں

میں منتظر بھی ہوں اور انتظار بانٹتا ہوں

مرے خلاف بناؤ ناں اپنا لشکر تم

میں اپنے پیادے بھی دوں گا سوار بانٹتا ہوں

میں اس سماج میں نجمیؔ یہی تو کرتا ہوں

شکست خوردہ دلوں کو قرار بانٹتا ہوں

(نجم الحسن نجمی، ایبٹ آباد)

غزل

جاگتی آنکھ بھی خوابوں سے لپٹ جاتی ہے

یاد تیری مرے لمحوں سے لپٹ جاتی ہے

ہے مرے گاؤں کی مٹی کو محبت مجھ سے

چلنے لگتا ہوں تو پیروں سے لپٹ جاتی ہے

سچ ہے تنہائی نہیں دوست بنانی پڑتی

خود بہ خود درد کے ماروں سے لپٹ جاتی ہے

تیرے آجانے سے بڑھ جاتی ہے گھر کی رونق

روشنی خود ہی چراغوں سے لپٹ جاتی ہے

تھام لیتا ہوں میں دامن جو تری یادوں کا

زندگی خوب سہاروں سے لپٹ جاتی ہے

کون شہزادؔ پکارے ہے مجھے پیچھے سے

کس کی آواز ہے کانوں سے لپٹ جاتی ہے

(شہزاد جاوید، گوجرانوالہ)

غزل

آپ کی یادوں سے کیسے ہم کنارا کر سکیں

لطف ہے  گر یہ محبت ہم دوبارہ کر سکیں

سیکھیے اِس عشق میں چاروں طرف سے وار ہیں

کیا خبر بَر وقت ہم بھی نہ اشارہ کر سکیں

نہ من و سلوٰی کی چاہت نہ نشیمن مانگ ہے

ہو اجازت تو یہاں دو سانس گارا کر سکیں

کیا خزینہ پاس ہے جو لوٹ لیں گے رات گر

یہ زیادہ سے زیادہ سَر سپارہ کر سکیں

قفسِ جاں پر درج ہے آزاد ہونے کا برس

پنچھیوں کو علم ہے شاید گزارہ کر سکیں

یہ نیا اعجاز ہے ناں ہم پڑھیں اور وہ سنیں

کاش ساگرؔ ہم سخن یہ سب گوارہ کر سکیں

(ساگر حضور پوری، سرگودھا)

غزل

میں کرتی نہیں ایسی محبت پہ تو تُھو بھی

کرلے جو محبت کی ہی عزت سے وضو بھی

آنسو تو بہا کرتے ہیں آنکھوں سے ہمیشہ

کچھ ایسی عنایت ہو نکل آئے لہو بھی

اک بار ذرا موت کا ناٹک تو رچا لے

سینے سے لگائے گا تجھے آکے عدو بھی

آزاد پسندی میں الگ نام ہے اس کا!!

خود نوچتا ہے زخم کو کروا کے رفو بھی

اے عکس! کیوں آنکھوں سے ملاتا نہیں آنکھیں

یعنی کہ بہت کام ہیں؟ مصروف ہے تُو بھی؟

میرا بھی تعلق ہے محبت کے نگر سے

میں پنجتنی! پنجتنی میرا گُرو بھی

(ماہ رخ  علی ماہی۔ کراچی)

غزل

پیڑ کاٹے تھے کسی اور نے چھاؤں والے

آ گئے دھوپ کی تحویل میں گاؤں والے

جنگ لڑنے کی اگر ٹھان لیں ماؤں والے

بھاگ میدان سے جاتے ہیں خداؤں والے

درد قدموں کا چھپایا نہ گیا چہرے سے

آبلے آنکھ سے بہتے رہے پاؤں والے

شہر کا شہر ہی جنگل میں بدل جائے گا

جس کی گلیوں میں نہیں لوگ صداؤں والے

اپنی قسمت میں نہیں لمس لدی شاخوں کا

ہم پرندے ہیں مری جان خزاؤں والے

میں نے دیکھے ہیں کئی عابد و زاہد مبروص

اور بخشے ہوئے دنیا میں خطاؤں والے

(علی شیران، شور کوٹ۔ جھنگ)

غزل

واہموں کو خیال کر ڈالا

اس نے کیسا کمال کر ڈالا

سانس بن کے وجود میں پھیلی

اس کا مرنا محال کر ڈالا

فیصلہ وقت کا لکھا اس نے

اور مجھ کو زوال کر ڈالا

لفظ تکتے ہی رہ گئے اس کے

ہم نے ایسا سوال کر ڈالا

بولتا تو نجانے کیا ہوتا

آنکھ سے ہی نڈھال کر ڈالا

اتنی آسانیاں تھیں راہوں میں

پھر بھی چلنا محال کر ڈالا

(عطیہ سہیل۔ اسلام آباد)

غزل

وقت پہ آتا ہے یہ وقت پہ جاتا ہے

موسم کا جو فرض ہے خوب نبھاتا ہے

کب تک زندہ رہ پائے گا آخر جسم

سانس اگل دیتا ہے جب بھی کھاتا ہے

میں ایسے ہی تھوڑی اس تک جاتا ہوں

اس کے گھر کا رستہ مجھ تک آتا ہے

کچھ تو درد مقدر میں ہی ہوتے ہیں

اور کچھ بندہ خود بھی درد کماتا ہے

سن کر جس کو جھومنے لگتا ہے ہر پھول

جانے بھنورا کان میں کیا بتلاتا ہے

شب کو سورج ڈھونڈنے جاتا ہے عزمیؔ

پھر صبح تک ڈھونڈ کے اس کو لاتا ہے

(عزم الحسنین عزمی، ڈوڈے۔ گجرات)

غزل

ہنستی ہوئی حسینہ کو مت ویشیا سمجھ

سن گاؤں زاد! شہر کی آب و ہوا سمجھ

اس بے سبب گریز سے بڑھ جائے گی طلب

آ بیٹھ میرے پاس، مرا مسئلہ سمجھ

کب تک چلے گا عقل کی انگلی پکڑ کے دل

اب خود ہی اپنا یار تو اچھا برا سمجھ

کرتا ہے رہنمائی جو راہِ حیات میں

اس کو خدا نہ جان مگر نا خدا سمجھ

ہر حسنِ بے مثال کو ہے احتیاجِ دید

لیکن تو دیکھنے کا طریقہ ذرا سمجھ

دنیا میں ایک تو ہی مخرَّب خراب ہے

خود کے علاوہ سارے جہاں کو بھلا سمجھ

(مخرب خراب، کراچی)

غزل

دل کی حسرت کو اب صدا کیجے

زندگی اپنی خود سزا کیجے

آپ خود پر لگائیے تہمت

آپ خود سے ہی فیصلہ کیجے

کوئی ایمان سے مرے تو یہاں

ورنہ بخشش کی کیوں دعا کیجے

دن کی عریانی بڑھتی جا رہی ہے

تن پہ اب رات کی قبا کیجے

جب کہ اپنی زمین ہو دشمن

پھر گلہ آسماں سے کیا کیجے

سب دعائیں تو میری رد ہی گئیں

اب مرے حق میں بد دعا کیجے

اس جہانِ خراب میں حامیؔ

کس کو چاہیں کسے خدا کیجے

(محمد حمزہ حامی، کراچی)

غزل

آنکھوں میں ہے خمار  تو سَر پر غبار بھی

اِک تیر ہو چکا ہے مرے دل کے پار بھی

یوں تو ہے اُس گلی میں میرا یار مستقِر

میرے لیے مگر ہے وہ جائے مزار بھی

فرقت تیری قبول مگر اِک ہے آرزو

تیری خبر میں ہو تو دلِ بے قرار بھی

اُس کی چمک سے چاند ستاروں میں روشنی

اُس کے قدومِ خیر ہیں جانِ بہار بھی

گہرے سکوت میں جو ترے لب ذرا ہِلے

ٹھہرا دیے ہیں پربتوں نے آبشار بھی

(اسامہ جمشید جام۔ گجرات)

غزل

جب ستم مہربان کرتا ہے

رقص اک نیم جان کرتا ہے

دام زلفوں کو، تیر پلکوں کو

ابروؤں کو کمان کرتا ہے

تب توکھلتے ہیں پھول باغوں میں

گریہ جب آسمان کرتا ہے

رُخ سے اب کیوں کفن اٹھاتے ہو

 بات کب بے زبان کرتا ہے

اس کی دریا دلی کا کیا کہنا

پھول میّت پہ دان کرتا ہے

طرزِ گفتار پر تِری صادقؔ

رشک سارا جہان کرتا ہے

(محمد ولی صادق، کوہستان)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔

صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘

روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔