ڈینگی بخار کا تحفہ

اسلم خان  جمعرات 15 اگست 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

نجانے کیوں مجھے ڈینگی بخار بھی کلاشنکوف اور ہیروئن کی طرح کا ہی کوئی تحفہ لگتا ہے۔ صاف شفاف پانی میں پروان چڑھنے والے اس جان لیوا مچھر کے بارے میں حیرت و استعجاب میں مبتلا کالم نگار کے اس سوال پر کہ یہ دشمن جان خوشبودار باسمتی چاول کی پیداوار کے معروف گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور سیالکوٹ کے سرسبز و شاداب کھیتوں میں کیوں نمو نہیں پاتا جہاں صاف پانی لاکھوں ایکڑ اراضی پر 6 ماہ تک کھڑا رہتا ہے۔ ایک قاری نے ای میل میں ایک انوکھا انکشاف کیا ہے کہ ڈینگی مچھر 1980ء کی دہائی میں لاہور کی ایک لیبارٹری میں پیدا کیا گیا تھا۔ یہ فطرت کی تخلیق نہیں ہے بلکہ انسان کے شیطانی دماغ کی پیداوار ہے۔

اس مہربان قاری نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی تھی، اس لیے ان معلومات کی تصدیق کے لیے متعلقہ ماہرین سے رجوع کیا جو عیدالفطر کی تعطیلات کی وجہ سے فارغ تھے۔ ان کی تحقیقات میںبھی بعض ششدر کر دینے والے انکشافات سامنے آئے۔ان میں امکان ظاہر کیا گیا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے ساتھ ساتھ جراثیمی ہتھیاروں سے بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔گویہ میڈیکل تحقیق سے زیادہ سیاسی نوعیت کا انکشاف ہے، ان انکشافات میں یہ دور کی کوڑی بھی شامل ہے کہ مدتوں پہلے انسداد ملیریا کے لیے  ایک تحقیقاتی، تجربہ گاہ بنائی گئی تھی جس کا الحاق ایک غیر ملکی یونیورسٹی سے کیا گیا تھا۔ یہ یونیورسٹی دنیا بھر میں حیاتیاتی اور جراثیمی ہتھیاروں کی مرکزی تجربہ گاہ کے طور پر جانی جاتی ہے جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اگرچہ انسانیت کے خلاف ہر قسم کے جراثیمی، حیاتیاتی اور نامیاتی ہتھیاروں کی افزودگی پر پابندی عائد  ہے لیکن پاکستان کی طرح دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں بھی پابندیوں کی کبھی پروا نہیں کی گئی۔

افغان جہاد کے آغاز پر 1980ء کی دہائی کے آغاز میں ایک امریکی سائنسدان Dr.Davil Nalin کی سربراہی میں ڈینگی مچھر کی بعض اقسام تجربہ گاہ میں تخلیق کی گئیں جنھیں سوویت سرخ فوج کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا جس پر آنجہانی سوویت یونین کے ذرائع ابلاغ نے واویلا اور شور مچایا تھا لیکن عالمی جہاد کے ترانے کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ ہم ’’دشمن ملحد‘‘ سوویت یونین کے الزامات پر کیا خاک توجہ دیتے۔یہ سائنس دان پاکستان میں بھی مقیم رہا تاہم اس سائنس دان کو بعد ازاں ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر پاکستان سے نکال دیا گیا تھا۔بہت سے نوجوانوں کو شاید پتہ نہ ہو تاہم میری عمر کے لوگ جانتے ہیں کہ 1981ء میں بھی لاہور پر مچھروں کے لشکروں نے شہریوں پر حملہ کر دیا تھا۔

یہ قیامت کا منظر تھا‘ اس نئی نسل کے جان لیوا مچھروں کا نشانہ بننے والے زرد بخار، کالا یرقان، ہیپاٹائٹس اور پاگل پن جیسے امراض میں مبتلا ہوئے۔ جن کا مروجہ ادویات کے ذریعے علاج ممکن نہیں تھا۔

بعض تحقیقاتی اداروں نے ان نئی اقسام کی جان لیوا بیماریوں کے منبع کا سراغ لگانا شروع کیا تو پتہ چلا کہ انسداد ملیریا کی تجربہ گاہ میں زہریلے مچھروں کی نئی نسلیں تخلیق کی جا رہی ہیں۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جگر کی بیماریاں اور کالا یرکان صاف پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے وباء کی طرح پھیل رہا ہے جب کہ میں نے ایسا لٹریچر بھی پڑھا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ، یہ بیماریاں ان جراثیمی ہتھیاروں کی وجہ سے پھیل رہی ہیں جنھیں مدتوں پہلے ہماری ہی تجربہ گاہوں میں تخلیق کیا گیا تھا اور اس ’کار خیر‘ میں ہمارے دوست پوری قوت سے کار فرما تھے۔

پاکستانی ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اس معاملے میں خاموش نہیں رہی۔ ماضی قریب میں ہمارے ڈاکٹروں نے ڈینگی بخار کی غیر فطری طریقے سے پھیلتی ہوئی وباء کے بارے میں متعلقہ عوام کی توجہ مبذول کرائی تھی اور یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ یہ  حیاتیاتی دہشت گردی ہے ۔ ہم کھلے بندوں احتجاج بھی نہیں کر سکتے کہ اس سے نازک سفارتی تعلقات کے ’آبگینے‘ مجروع ہوسکتے ہیں۔

یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ طاقتور اقوام کمزور قوموں کے بے بس شہریوں کو تجرباتی چوہوں کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ یہ سلسلے مدتوں سے جاری ہیں اور کوئی ان کا ہاتھ روکنے والا نہیں۔

حرف آخر یہ کہ ڈینگی بخار اور وائرس کے بارے میں مستند معلومات کے حصول میں دلچسپی رکھنے والے قارئین ای میل کر کے استفادہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔