باہر والی

شاہد سردار  پير 8 اپريل 2019

اس بات سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ عورت کی ملازمت کرنے والی جگہوں میں ان کے خلاف ’’جنسی ہراسگی‘‘ (سیکسوئل ہراسمنٹ) کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور خواتین کو اداروں میں کام کرنے والے ورکروں کے ساتھ ساتھ اپنے باسز کی طرف سے بھی خفیہ یا اعلانیہ ہراسمنٹ کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ بہت ہی پرانا اورگمبھیر ہے۔ یہ عفریت ہر سطح پر اپنے پنجے نکالے بیٹھا عورت کی عزت و آبرو کو نوچنے کے لیے بے چین و بے قرار ہے،اس فعل میں ادارے کے سربراہ سے لے کر چوکی دار یا گارڈز تک سبھی ملوث چلے آرہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اداروں اور دفاتر میں کام کرنے والا ہر مرد اس ہراسگی کے وجود سے انکاری ہوتا ہے اور ہر زد میں آنے والی عورت اس آسیب یا عفریت کی ہمہ وقت موجودگی کی گواہی دیتی ہے۔

جنسی ہراسگی کے حوالے سے یہ حقیقت بھی طشت ازبام ہے کہ اپنے منصب، اختیار اور کروفر یا پھر تیز طراری کی بنا پر اکثر لوگ ہراسگی کرنے کے باوجود اس الزام سے بچ نکلتے ہیں اور باکردار عورت کو بدکردار فوراً ڈکلیئر کردیتے ہیں۔ چونکہ خواتین کے پاس ہراسگی کے ٹھوس ثبوت نہیں ہوتے چنانچہ وہ کافی عرصہ برداشت کرنے کے بعد ناکافی شواہد یا گواہوں کے ساتھ جب معاملے کو سامنے لاتی ہیں تو مظلوم ہونے کے باوجود انھیں غلط یا خراب قرار دے کر ملازمت سے برطرف کردیا جاتا ہے۔

موجودہ معاشرتی سیٹ اپ جس میں انسان روپے پیسے اور اپنی ضرورتوں سے پریشان ہے اور وہ مہنگائی کا مقابلہ نہیں کر پا رہا اس لیے گھر سے باہر قدم نہ نکالنے والی باحیا اور مضبوط کردارکی حامل عورت بھی بوجوہ گھر والی سے ’’باہر والی‘‘ بن جاتی ہے۔ اس لیے کہ بہت سوں کے باپ، بھائی اور شوہر یا تو مرچکے ہوتے ہیں، بیشتر کے سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہیں اور بہت سے لاپتہ ہوتے ہیں اور بعض لڑکیوں یا عورتوں کی عزت کے رکھوالے صرف نام کے رکھوالے ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے گھر کی عزت اور غیرت کمائے اور وہ گھر بیٹھ کر اس کے ٹکڑوں پر پلیں۔ یوں گھر میں رہنے والیوں پر ’’باہر والی‘‘ کا ٹیگ لگ جاتا ہے۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ بے سہارا، مجبور، ضرورت مند، اکیلی، بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین کو ہمارا معاشرہ کھلونا اور صرف اور صرف ’’باہر والی‘‘ ہی سمجھتا ہے، اسے سماج کے دامن میں چین، سکھ، عزت اور پناہ دینے پر ذرا بھی دلچسپی نہیں رکھتا ۔

کڑوی سچائی ہمارے معاشرے کی یہی ہے کہ ہم مردوں کی اکثریت عام طور پر صرف اپنے گھر کی بہن، بیٹی اور بیوی (گھر والی) کو ہی عزت و تکریم دیتے ہیں۔ ’’باہر والی‘‘ کوئی بھی ہو، کیسی ہی کیوں نہ ہو اس کو ہاٹ کیک اور مٹھائی ہی سمجھتے ہیں ۔ احترام یا عزت دینا تو ایک طرف انھیں صرف اور صرف ٹائم پاس کرنے کی چیز ہی سمجھتے ہیں۔ اور پھر آج کا کیا کہنا برسہا برس سے ہمارے ہاں ملازمت کرنے والی خواتین کو ہمارے سماج میں اچھا نہیں سمجھا جاتا اور انھیں نگاہ غلط ہی سے دیکھا جاتا ہے۔ اس پر راہ چلتے، گلی محلے کے، بس اسٹاپوں کے اور ادارے یا آفس یا پھر کمپنی فیکٹری کے لوگ آوازیں کستے، ریمارکس پاس کرتے اور نگاہوں کے ذریعے نہ صرف اس کے وجود کا ایکسرے کرتے رہتے ہیں بلکہ خاموش سگنل بھی اسے دیتے رہتے ہیں اور خواتین کے حوالے سے یہ سب کا سب صنف نازک اور ہمارے معاشرے دونوں کا مشترکہ المیہ ہی کہا جاسکتا ہے۔

جس معاشرے میں عورتوں کی اوقات سامان کی ایک گٹھڑی سے زیادہ نہ ہو اور بالخصوص ملازمت پیشہ خواتین المعروف ’’باہروالی‘‘ کے ساتھ باہرکیا سلوک ہوتا ہے، ان کے ساتھی ورکر، ان کے افسران ان کے بارے میں کیا گفتگو کرتے ہیں ان سے سبھی واقف ہیں ۔ یوں بے چاری چپے چپے، قدم قدم پر اسے باہر والی کی سزا ملتی ہے اور اسے روز ہی تقریباً آگ کے دریا کا سامنا کرنا پڑتا ہے، عورت کو رونق ماحول، دل بہلانے، لبھانے والی چیز سمجھنے والے معاشرتی ٹھیکے دار طرح طرح کی ذومعنی جگتیں ان پر فٹ کرتے رہتے ہیں اور اس بات کو تسلیم کرلینے میں اب کوئی عار نہیں ہے کہ عورت سے متعلق ہمارا معاشرہ اب بھی بہت سے مغالطوں کا شکار ہے۔ ہمارا نظام، ہماری سوسائٹی بہت سی وجوہات کی بنا پر اب بہت خطرناک جگہ بن گئی ہے۔ اس لیے نہیں کہ یہاں برے لوگ رہتے ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ اچھے لوگ اسے سنوارنا نہیں چاہتے۔

گھر سے باہر جاکر کام کرنے والی خواتین کو اپنی فیملی میں سے کسی ایک کو اپنا دوست یا ہم راز ضرور بنانا چاہیے (ہماری دانست میں) جس سے وہ اپنی روزمرہ کی باتیں اور مسائل شیئر کریں۔ آفس میں یا ادارے میں اپنے کام سے کام رکھنا، قہقہے لگانا اور اپنے کولیگز کے ساتھ ناشتہ کرنے یا کھانا کھانے سے بھی انھیں اجتناب کرنا چاہیے۔ ادارے میں کسی کے ساتھ ’’پک‘‘ اینڈ ’’ڈراپ‘‘ لینے کی بالکل کوشش نہ کریں اور نہ ہی آفس کے لوگوں یا کسٹمرز سے گھر میں موبائل ٹاک کریں۔ خواتین کوشش کریں کہ یہ ’’کام‘‘ ادارے تک ہی محدود رہے گھر میں اس کا سلسلہ دراز نہ ہو کیونکہ گھر والے اسے اچھا نہیں سمجھتے، عام طور پر لوگ کسی بھی عمر کے خواہ کیوں نہ ہوں عورتوں سے کام یا مسئلے کے نام پر بلاضرورت گفتگو شروع کردیتے ہیں اور بیشتر ملازمت پیشہ خواتین اس امر کو غلط بھی نہیں سمجھتیں۔

عورت خوش مزاج اور مہربان طرز عمل ضرور اختیار کرے لیکن اس کا دامن ضرورت سے زیادہ دراز نہ کرلے۔ عورت اپنی اخلاقی، معاشرتی یا سماجی اقدار کو ہمیشہ مدنظر رکھے اور اپنی عزت نفس پر کوئی سمجھوتہ نہ کرے۔ عورت کا یہ طرز عمل اور اس کی پروقار شخصیت اس کا تعارف ہونے کے ساتھ اس کے محافظ بھی اس طرح بن سکتے ہیں۔ اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ عورت اور مرد کے نازیبا تعلق کا پہلا زینہ نظریں ہوتی ہیں جسے حدیث میں ’’نگاہوں کا زنا‘‘ کہا گیا ہے، نظر کی آوارگی ہی جنسی آوارگی کا باعث بنتی ہے اور پاک دامنی کی پہلی شرط نظر کی حفاظت اور نسوانی چیزوں کی حفاظت کا حکم خدا اور اس کے رسولؐ نے بھی دیا ہے۔ اس لیے بھی کہ حیا عورت کی سب سے بڑی دولت ہوتی ہے اور جو عورت اس دولت کو سنبھال کر رکھتی ہے وہ کبھی کنگال نہیں ہوتی، یوں بھی بے حیائی کو تمام برائیوں کی جڑ مانا جاتا ہے۔

عورت کی عفت، عصمت یا عزت ویسے بھی بہت نازک ہوتی ہے، چھوٹی سی بات، چھوٹے سے قدم اٹھانے پر ہی اس کی ذات پر بدنما دھبہ بن جاتی ہے۔ عورت کو اپنی حرمت اور اپنے تقدس پر ہماری دانست میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ غلط کام پر خاموشی بہرطور حالات کی خرابی کی دلیل بن جاتی ہے، خواتین کو چاہیے کہ وہ ایسے حالات میں خاموش نہ رہیں اور کسی ایسے کام یا فیصلے یا ’’جسارت‘‘ کا حصہ نہ بنیں جس پر بعدازاں تاعمر انھیں اور ان کی فیملی کو ندامت محسوس ہوتی رہے۔

مشاہدہ ہے کہ قصور چاہے صنف نازک کا نہ بھی ہو پھر بھی عزت وغیرت کے نام پر وہ ایک ’’طمانچہ‘‘ بن جاتی ہے، اور طمانچے کی حقیقت اور اصلیت یہ ہے کہ وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کی جلن اور اس کی تکلیف اور اس کی ذلت ہر وقت محسوس ہوتی ہے۔ یوں اس کے گھر والوں کے سر شرمندگی سے جھک جاتے ہیں اور جو سر شرمندگی سے جھک جائے وہ اعتبار کے قابل نہیں سمجھا جاتا، اس لیے بھی کہ اس سرزمین پر لوگ بہت زیادہ اور انسان بہت ہی کم بستے ہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین کو یہ زہرناک حقیقت بھی ازبر رہنی چاہیے کہ کچھ حادثے ایسے بھی انسانی زندگی میں رونما ہوتے ہیں جن میں انسان بچ تو جاتا ہے مگر زندہ نہیں رہتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔