مہاتیرمحمد: پاکستان وفلسطین کا بے مثال دوست

صابر ابو مریم  منگل 9 اپريل 2019
مہاتیر محمد پاکستان و فلسطین کے بے مثال دوست ہیں۔ (فوٹو: فائل)

مہاتیر محمد پاکستان و فلسطین کے بے مثال دوست ہیں۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ دنوں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے میں مہمان وزیراعظم کو ملک میں شایان شان پروٹوکول دیا گیا۔ یقیناً وہ اسی کے مستحق تھے۔ مہاتیر محمد بظاہر بہت ضعیف العمر شخص نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ توانا اور طاقتور نظر آنے والے مسلمان رہنماؤں سے کئی گنا زیادہ مضبوط اور طاقتور انسان ہیں۔

مہاتیر محمد کی پاکستان سے دوستی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جب وہ پاکستان کے دورے پر تشریف آور ہوئے تو اس وقت خبریں گردش کررہی تھیں کہ بھارت نے سفارتی ذرائع سے مہاتیر محمد کو پیغام بھجوایا ہے کہ وہ پاکستان کا دورہ منسوخ کردیں یا کم سے کم ملتوی ہی کردیں۔ لیکن جواب میں مہاتیر محمد نے اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھا کہ بھارت سے ان کے تعلقات خراب ہوجائیں گے یا نہیں۔ انہوں نے پاکستان سے اپنی والہانہ محبت اور اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کا دورہ کرنے کا اصولی موقف اپنائے رکھا اور بھارتی حکمرانوں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔

مہاتیر محمد نے پاکستان کا دورہ ایسے وقت میں کیا جب قرارداد پاکستان کی یادگار منانے، یعنی 23 مارچ کی رسومات کی ادائیگی ہونا تھی، اور یہ بھی طے تھا کہ مہمان وزیراعظم افواج پاکستان کی پریڈ کا معائنہ بھی کریں گے اور اس تقریب میں مہمان خصوصی ہوں گے۔ جبکہ دوسری طرف بھارت کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح پاکستان کے اس قومی دن کو خراب کیا جائے۔ جس کےلیے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردوں نے کارروائیاں کرکے اس دن کی اہمیت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش بھی کی۔ دوسری طرف یہ تاثر بھی عام تھا کہ شاید بھارت یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آباد یا کسی اور شہر کو نشانہ بناسکتا ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود مہاتیر محمد کی پاکستان سے بے مثال دوستی میں کوئی دراڑ نہیں آئی۔ انہوں نے پاکستان کے قومی دن کی تقریبات میں شرکت بھی کی اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے عنوان سے سرگرمیوں کا حصہ بھی بنے۔

پاکستان اور ملائیشیا میں جہاں اور کئی باتیں مشترک پائی جاتی ہیں، وہاں ایک اہم ترین بات فلسطین سے دونوں ممالک کی نظریاتی وابستگی اہمیت کی حامل ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کی تحریک کے اوائل میں ہی فلسطینیوں کی زمین پر صہیونیوں کی جعلی ریاست کے قیام کی امریکی و برطانوی کوششوں کی کھل کر مخالفت اور مذمت کی تھی اور دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اگر مغرب کو لگتا ہے کہ صہیونیوں کےلیے الگ ریاست قائم ہونی چاہیے تو پھر یہ فلسطین میں کیوں؟ امریکا یا برطانیہ کیوں اپنی زمین پر قائم نہیں کرلیتے؟ قائداعظم نے کہا تھا کہ مسلمانان ہند فلسطین کے ساتھ ہونے والی ناانصافی اور فلسطین کی سرزمین پر صہیونیوں کی ریاست کے قیام پر خاموش نہیں بیٹھے رہیں گے اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے جس قدر ہوگا، جدوجہد کریں گے۔

مہاتیر محمد کی بات کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان کے دورے کے دوران ایک ایسے وقت میں قائداعظم محمد علی جناح کی یاد کو زندہ کیا ہے جب پاکستان کی حکومت پر عرب ممالک کے بادشاہوں کی جانب سے دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے راستے کھولے جائیں، یا کم سے کم اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرلیے جائیں۔ اس کام کے لیے حکومت پر اندرونی اور بیرونی ذرائع سے دباؤ ڈالا جارہا تھا۔ سابق صدر پرویزمشرف کی نام نہاد قومی سلامتی پریس کانفرنس میں بھی حکومت پر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈالا جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر کی عمران خان سے ہونے والی ملاقات کے احوال میں بھی آیا ہے کہ عمران خان نے عادل الجبیر کو واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اگر سعودی عرب پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کرسکتا ہے تو بس کرے، لیکن اسرائیل پاکستان تعلقات پر کوئی بات نہیں ہوگی۔

مہاتیر محمد نے سرمایہ کاری کے عنوان سے بلائی جانے والی کانفرنس میں خصوصی خطاب کرتے ہوئے کھلے الفاظ میں بیان کیا کہ ملائیشیا کا کوئی دشمن نہیں سوائے اسرائیل کے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا ہے۔ دوسروں کی زمین پر قبضہ کرنا ڈاکوؤں کا کام ہے۔ ہمارا اسرائیل کے سوا کوئی دشمن نہیں، باقی تمام ممالک سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔ اسرائیل سے ہم نے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم یہودیوں کے خلاف نہیں، مگر دوسروں کے ملک پر قبضہ کرنا ڈاکوؤں کا کام ہوتا ہے۔

ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کے یہ کلمات یقیناً پوری ملائیشین قوم کی ترجمانی کررہے تھے۔ کیونکہ اگر مہاتیرمحمد کی ملائیشیا کے حوالے سے جدوجہد کی بات کی جائے تو نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔ انہوں نے بھی عمران خان کی طرح اپنے ملک میں کرپشن کے خلاف عملی اقدامات کیے ہیں۔

دراصل مہاتیر محمد کے ان جملوں میں بڑی تاثیر موجود تھی، جو بیک وقت فلسطینی اور پاکستانی قوم کےلیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، تو دوسری جانب اسرائیل اور بھارت کےلیے بھی سنگین پیغام ہے۔

مہاتیر محمد اپنے دورہ پاکستان سے قبل پاکستان بھارت کشیدگی اور فلسطین سے متعلق پاکستان پر عرب حکمرانوں کے دباؤ سے بخوبی آگاہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سرمایہ کاری کانفرنس میں پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ کے سامنے اپنا پیغام ہی نہیں، بلکہ پاکستان کا پیغام بھی پہنچادیا ہے کہ پاکستان اور ملائیشیا فلسطین کے بے مثال دوست ہیں اور اسرائیل ایک جعلی اور ڈاکوؤں کی ریاست ہے۔ مہاتیر محمد کے اس خطاب نے پاکستان کی اصل روح کو زندہ کیا، جس کو قائداعظم محمد علی جناح کی صورت میں دیکھا گیا تھا۔

خلاصہ یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی مہاتیرمحمد کی طرح تحسین کے حق دار ہیں، کیونکہ مہاتیر محمد کی زبان سے ادا ہونے والے تمام الفاظ، جن میں اسرائیل کی مذمت اور فلسطینیوں کی حمایت پنہاں تھی، نہ صرف مہاتیرمحمد کے الفاظ تھے بلکہ پاکستان کے وزیراعظم اور عوام پاکستان کی ترجمانی بھی تھی۔ اسی کانفرنس میں عمران خان نے مہمان وزیراعظم کی خصوصیات بیان کی تھیں، جن میں ایک خصوصیت یہ بھی بیان ہوئی تھی کہ مہاتیر محمد ایک ایسے بے باک اور بہادر لیڈر ہیں جو حق بات کہہ دیتے ہیں، جبکہ بہت سے مسلمان ممالک کے حکمران ایسا کرنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ مہاتیرمحمد نے فلسطین کے حق میں بات کرکے اور صہیونیوں کی جعلی ریاست کی حقیقت کو آشکار کرکے ثابت کردیا ہے کہ مہاتیر محمد پاکستان و فلسطین کے بے مثال دوست ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔