بھارتی انتہا پسندی امن کیلئے خطرہ، عالمی برادری خاموش کیوں؟

ارشاد انصاری  بدھ 10 اپريل 2019
امریکہ کا بھارت کی جانب جھکاو خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑ نے کی بنیادی وجہ ہے۔فوٹو: فائل

امریکہ کا بھارت کی جانب جھکاو خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑ نے کی بنیادی وجہ ہے۔فوٹو: فائل

 اسلام آباد: پاکستان کی جانب سے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کے خطرات سے بچانے کیلئے بھارت کو بار بار دی جانیوالی مذاکرات کی دعوت کے جواب میں روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے اور سرحدوں پر تو کشیدگی ایک دن کیلئے بھی نہیں کم نہیں ہوئی بلکہ شکست خوردہ مودی سرکار کے جنگی جنون و وحشت نے بھارت میں مقیم کروڑوں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیا ہے اور مودی سرکار کے جنگی جنون میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

بھارت کی جانب سے جوہری اسلحہ اور ایٹمی میزائلوں کے مسلسل تجربات اس بڑھتے ہوئے جنگی جنون کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں اور بھارت اسلحہ کے ڈھیر لگا کر اپنا ہی نہیں بلکہ دنیاکا وجود تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے مگر بھارت کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں امریکہ یا دوسری بڑی طاقتوں، اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی مجرمانہ خاموشی ان طاقتوں کی جانب سے کئے جانے والے انسانیت کے پرچار کا پردہ چاک کر رہی ہے۔

امریکہ کا بھارت کی جانب جھکاو خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑ نے کی بنیادی وجہ ہے اور ا مریکہ بہادر اپنی عالمی تھانیداری قائم رکھنے کیلئے خطے میں اپنے آلہ کار بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے اْس کی مالی و دفاعی امداد کے ساتھ ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کر رہا ہے اور بھارت کو جنگی تیاریوں میں معاونت فراہم کی جا رہی ہے لہٰذا اگر عالمی برادری نے بھارت کی جنگی تیاریوں کی طرف سے آنکھیں بند رکھیں تو کسی دن انسانیت کو اس کے بھیانک نتائج بھگتنا پڑیں گے اور اسی بھارتی جنگی جنون کو پاکستان نے دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کیخلاف جارحیت کا نیا منصوبہ بنا رہا ہے اور وہ 16 اپریل سے 20 اپریل تک کے عرصے کے دوران پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے اس حوالے سے پاکستان کے پاس قابل بھروسہ اطلاعات ہیں کہ بھارت جارحیت کی تیاری کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پلوامہ واقعہ پر جیوپولیٹیکل کے تحت کچھ ممالک خاموش رہے‘ اگر عالمی برادری اب بھی اس مسئلہ پر خاموش رہتی ہے تو جنوبی ایشیاء کا امن تباہ ہو سکتا ہے۔وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سے مشاورت کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ اس اطلاع کو عالمی برادری کے ساتھ شیئر کیا جائے اور بھارتی عزائم بے نقاب کئے جائیں۔

وزیر خارجہ کی ہنگامی پریس کانفرنس میں کئے جانیوالے انکشافات نے مودی سرکار کی جانب سے انتخابات میں کامیابی کیلئے پاک بھارت کشیدگی کو ہوا دے کر بیگناہ و معصوم لوگوں کے خون کی ہولی کھیلنے کی منصوبہ بندی کا پردہ چاک کیا ہے کیونکہ مودی کو درحقیقت اپنی ہندو انتہاء پسندانہ پالیسیوں کے باعث لوک سبھا کے انتخابات میں شرمناک شکست نظر آرہی ہے جس کی بنیاد پانچ بھارتی ریاستوں کے انتخابات میں حکمران بی جے پی کو بری طرح مسترد کرکے رکھی گئی تھی اس لئے مودی سرکار پاکستان دشمنی کو انتہاء پر پہنچا کر انتخابات میں ہندو ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہے۔

لیکن پاکستان اپنے دفاع سے کسی طور غافل نہیں ہے پہلے بھی پاکستان نے بھارت کو ناکوں چنے چبوائے ہیں اور آئندہ بھی وطن عزیز کے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار ہے اور دشمن کی ہر حرکت پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارتی جنگی تیاریوں کے تناظر میں ہی ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رپورٹس کی بنیاد پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھارتی جنگی عزائم سے اقوام عالم کو آگاہ کرنے پر مجبور ہوئے کیونکہ بھارتی جارحیت کے بعد ٹھوس جواب دینا پاکستان کی مجبوری بن جائیگا۔

بھارتی جارحیت کے باوجود ایک امن پسند اور ذمہ دار ملک ہونے کے ناطے پاکستان بردباری سے معاملات سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور بھارت کی پیدا کردہ سرحدی کشیدگی کے باوجود امن کے راستے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہے جس کیلئے پاکستان نے گرفتار بھارتی پائلٹ کو بھی جذبہ خیرسگالی کے تحت آزاد کرکے اس کے ملک بھجوایا۔ پھر تین سو کے قریب بھارتی قیدیوں کو بھی رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور پھر پاکستان نے 100 بھارتی ماہی گیر بھی رہا کر دیئے مگر بھارت کی جانب سے ہمارے خیرسگالی کے ہر جذبے کا جواب کسی نئی اشتعال انگیزی کی صورت میں ہی دیا جاتا ہے، اس کے باوجود اگر پاکستان کو مجبور کیا جاتا ہے تو پلوامہ واقعہ کے بعد جس طرح پاکستان نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اسی طرح آئندہ بھی کسی قسم کی جارحیت کے خلاف پاکستان اپنے دفاع کا مکمل حق رکھتا ہے۔

دوسری جانب ملک میں اندرونی سطح پر بھی سیاسی عدم استحکام کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ قوم کو تحریک انصاف کی حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں مگر گذشتہ نو ماہ میں جو حالات بنتے جا رہے ہیں ان سے یہ امیدیں دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں اور تحریک انصاف کی حکومت عالمی مقبولیت کھو رہی ہے جبکہ اپوزیشن مضبوط ہو رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کا طبل بجا چکی ہے اور آصف علی زرداری و بلاول بھٹو کی حالیہ دھواں دارتقاریر نے مستقبل میں سیاسی عدم استحکام میں بڑھوتری کا واضح پیغام دیدیا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن پہلے سے ہی حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہیں اور اب مولانا فضل الرحمٰن کی پاکستان مسلم لیگ(ن)کے تاحیات قائد میاں نوازشریف سے بھی اہم ملاقات ہوئی ہے۔ ان سیاسی سرگرمیوں کو سیاسی حلقوں میں بہت اہم قراردیا جا رہا ہے ۔

بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گیم حکومت کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دے رہی ہے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رائیٹر نے اسکرپٹ مین ترامیم کردی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صدارتی نظام کے فوائد اور پاکستان میں نظام بدلنے کی ڈرائنگ روم بحث سنجیدہ رْخ اختیار کر رہی ہے لیکن ملک کو فرد واحد کے اختیار میں دینے کا خواب دیکھنے والوں کو متنبہ ہونا چاہیے کہ پارلیمانی نظام کے علاوہ کوئی بھی نظام پاکستان کی وحدت اور یک جہتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔ ایسی دلیلیں کہ پارلیمان کی مشترکہ دانش اور عوام کو براہ راست جواب دہی کا نظام ملک کو کمزور کر رہا ہے دراصل کمزور اور لایعنی دلیل ہے۔

کسی بھی حکومت کی ناکامی کو نظام کی ناکامی سے منسوب کیا جانا درست نہیں ہے۔ دوسری جانب وزیر خزانہ اسد عمر بھی آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاس میں شرکت کیلئے واشنگٹن پہنچ رہے ہیں جہاں ان کی آئی ایم ایف حکام اور دنیا کے دیگر ممالک کے وزراء خزانہ سے سائیڈ لائن میٹنگرز ہوں گی، انہی میٹنگز میں آئی ایم ایف سے حتمی مذاکرات کا شیڈول طے ہوگا اور جس ایمنسٹی سکیم کے خلاف عمران خان دھواں دار تقاریر کرتے رہے ہیں ایک اور یو ٹرن لیتے ہوئے اب وہی ایمنسٹی سکیم لانے جا رہے ہیں جس کی منظوری دیدی گئی ہے اور آئی ایم ایف و ایف اے ٹی ایف حکام کو وزیر خزانہ اعتماد میں لیں گے اور توقع کی جا رہی ہے کہ جلد اس ایمنسٹی سکیم کا اعلان کردیا جائے گا جس سے لوگ کالا دھن سفید کروا سکیں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔