اپنے بچوں کو قتل نہ کیجیے! (آخری قسط)

کامران امین  جمعرات 11 اپريل 2019
ہر بچے کی نفسیات اور شخصیت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہر بچے کی نفسیات اور شخصیت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس سلسلے کی پہلی تحریر میں چھوٹے بچوں، جنہوں نے ابھی ابھی سکول جانا شروع کیا، کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں عرض کی تھیں۔ میری اس تحریر کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہر بچے کی نفسیات اور شخصیت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ جبر، زور زبردستی اور بار بار عزت نفس مجروح کرنے، بالخصوص ہم عمر بچوں کے سامنے بار بار بے عزتی کرنے سے بچے کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور یہ قتل سے زیادہ سنگین جرم ہے۔

پہلی قسط کے جواب میں کچھ دوستوں نے خودکشی کے واقعات اور ذاتی تجربات شیئر کیے۔ جو لوگ زندہ ہیں انہوں نے تو ان ساری مشکلات کے باوجود زندگی کو کسی طرح پاؤں پر کھڑا کردیا ہے، لیکن، جن بچوں کی جان چلی گئی اس کا ذمے دار کون ہے؟ اس سوال کا جواب آپ پر چھوڑتا ہوں۔ اس سلسلے میں جو حل میری سمجھ میں آرہے تھے وہ بھی درج کردیے گئے تھے۔ آج ان بچوں کا ذکر جو پرائمری تعلیم سے گزر چکے ہیں اور کسی حد تک شعور اور سمجھ کی سرحد پر قدم رکھ چکے ہیں۔

بلاگ کی پہلی قسط یہاں سے پڑھیے: اپنے بچوں کو قتل نہ کیجیے!

یہ بات بچپن میں سنی تھی کہ چھوٹے بچے کا ذہن سادہ کاغذ کی مانند ہوتا ہے، اس پر کیا لکھا جائے یہ والدین، استاد اور معاشرے کی مرضی۔ دراصل ایک بچے نے بڑے ہوکر کیا بننا ہے یا مستقبل میں اچھے کام کرنے ہیں یا برے؛ اس کی کافی حد تک ذمے داری بھی والدین، اساتذہ اور معاشرے پر ہوتی ہے، بالخصوص دوست۔ استاد تو شائد تنخواہ دار ملازم کہہ کر جان چھڑا لے، لیکن والدین کےلیے تو اولاد خود سے بڑھ کر ہوتی ہے، وہ بھلا کیوں اپنی اولاد کا مستقبل تباہ کریں گے؟ لیکن زیادہ تر کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ والدین اصلاح احوال کےلیے جو راستہ اختیار کرتے ہیں اس سے بچہ سدھرنے کے بجائے بگڑتا زیادہ اور باغی ہوجاتا ہے۔

پرائمری میں ہمارے ہاں اسکولوں اور گھروں میں جو کچھ ہوتا ہے اور چھوٹے بچوں کو بار بار جس طرح ذلیل کیا جاتا ہے، اس سے ان کا اعتماد بری طرح مجروح ہوچکا ہوتا ہے۔ میں آج یاد کرتا ہوں مڈل میں ہماری کلاس تقریباً 42 سے زیادہ طالب علموں پر مشتمل تھی اور ان میں نوے فیصد کا اتنا اعتماد بھی نہیں تھا کہ کلاس میں پہلی صف میں بیٹھتے۔ ہماری کلاس میں محسوس ہوتا تھا کہ پیچھے بیٹھنے کا مقابلہ ہوتا ہے۔

ہمارا تعلیمی نظام، استاد، دوست یار، رشتے دار اور والدین مل کر اس کارخیر میں حسب توفیق اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ بچے کا خود پر اعتماد بری طرح مجروح ہوتا ہے اور وہ ایک قدم بھی اپنے بھروسے پر نہیں چل سکتا۔ خود سوچیں کہ اس کی کیا زندگی ہوگی جسے خود پر اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہ رہا ہو؟ جو خود کو دنیا کا نکما انسان مان چکا ہو؟

ہوسکتا ہے طالب علم نالائق نہ ہو لیکن اسے کوئی مسئلہ درپیش ہو۔ بعض کیسز میں گھروں میں والدین کی آپس میں چپقلش جاری رہتی ہے، یہ لڑائی جھگڑے بچے کی شخصیت پر انتہائی برا اثر ڈالتے ہیں۔ ایک تو والدین کو چاہیے کہ جب اولاد ہوجائے تو آپس میں صلح کرلیں یا کم از کم بچوں کے سامنے اپنی آوازیں بلند نہ کریں۔ جو لوگ گھروں میں اپنی عورتوں پر ہاتھ اٹھا کر مردانگی کے جوہر دکھاتے ہیں وہ بھی بچوں کی موجودگی سے کچھ شرم کرلیں۔ اگر بچے کے سامنے اس کی والدہ کی عزت نہیں کی جائے گی تو بچہ پھر یا تو دشمن بن جائے گا یا پھر وہ بھی اپنی والدہ کی عزت کرنا چھوڑ دے گا۔

ایک اچھے استاد کا یہ کام ہے کہ وہ اس بات کی کھوج لگائے کہ آخر کیوں طالب علم اچھا پرفارم نہیں کر پارہا۔ یہی استادی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں استاد نہیں ہیں، تاجر ہیں۔ اور تاجر کو محض اپنا سودا بیچنے سے غرض ہوتی ہے۔ لہٰذا والدین کی ذمے داری اور بڑھ جاتی ہے۔

کچھ بچے جو باغی ہوچکے ہوں، ان پر بھی سختی کے بجائے والدین کو چاہیے کہ پیار سے ان سے بات کریں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ اگر بچے کی پڑھنے کی مرضی نہیں ہے، کاروبار میں دلچسپی ہے تو کیوں نہ اسے کاروبار پر ہی لگا دیں۔ اگر زور زبردستی کرکے تھرڈ ڈویژن میں بی ایس کروانے کے بعد بھی دکان ہی کھول کر دینی ہے تو کیوں نہ میٹرک کے بعد ہی یہ کام کرلیں؟

سائیکاٹرسٹ کے پاس جانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ بچہ پاگل ہوگیا ہے۔ جس طرح بیمار ہوکر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ایسے ہی وہ بھی ڈاکٹر ہے۔ وقتاً فوقتاً بچوں کا نفسیاتی معائنہ بھی ضرور کروائیے، بالخصوص ان بچوں کا جن کا رویہ ایک دم تبدیل ہونا شروع ہوجائے۔

یہ کچھ گزارشات تھیں، جو باتیں میں نے محسوس کیں وہ لکھ دی ہیں، جو آپ محسوس کرتے ہیں وہ بھی لکھیں، تاکہ دوسروں کا بھی بھلا ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

کامران امین

کامران امین

بلاگر کا تعلق باغ آزاد کشمیر سے ہے اور چین سے میٹیریلز سائنسز میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بیجنگ میں نیشنل سینٹر فار نینو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، چائنیز اکیڈمی آ ف سائنسز سے بطور اسپیشل ریسرچ ایسوسی ایٹ وابستہ ہیں۔ چین میں تعلیمی زندگی اور تعلیم سے متعلقہ موضوعات پر لکھنے سے دلچسپی ہے۔ ان سے فیس بک آئی ڈی kamin.93اور ٹوئٹر ہینڈل @kamraniat پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔