یہ صورت گر کچھ خوابوں کے

رفیع الزمان زبیری  جمعرات 11 اپريل 2019

ڈاکٹر طاہر مسعود صحافی ہیں اور صحافیوں کے استاد بھی ۔ انھوں نے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیات سے کیے گئے انٹرویو ’’یہ صورت گرکچھ خوابوں کے‘‘ عنوان سے کتابی شکل میں شایع کیے ہیں جو مختلف موضوعات پر فکر انگیز خیالات کا خزانہ ہیں۔ برمحل سوال اور ان سوالوں کا جواب پڑھنے والے کو سوچنے پر مجبورکردیتا ہے۔ اس کتاب کا پہلا حصہ 80ء کی دہائی میں شایع ہوا تھا، اب دوسرے حصے میں چالیس سے زیادہ مشاہیرکے انٹرویو شایع ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے سوال کیا، کیا اسلامی انقلاب صرف جمہوری راستوں سے لانا چاہیے، قوت اور ہتھیار کو بھی تو انقلاب لانے کا ذریعہ بنایا گیا ہے؟ مولانا نے جواب دیا کہ ’’ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کہ کسی مصنوعی ذریعے سے کوئی ایسا انقلاب برپا کردیا جائے جس کے لیے معاشرہ ذہنی و اخلاقی طور پر تیار نہ ہو، وہ انقلاب کبھی پائیدار نہیں ہوسکتا۔

احمد جاوید اقبال اکادمی میں ڈائریکٹر تھے ۔ اسلامی تاریخ و فلسفہ، منطق، علم کلام اور تصوف پر ان کی دسترس حیرت انگیز تھی۔ طاہر مسعود نے ان سے پوچھا کہ یہ جو آج کل رجحان ہے دین دار آدمی اسے سمجھا جاتا ہے جس کا ایک مخصوص گیٹ اپ ہو اور باطنی اوصاف پیچھے چلے گئے ہیں؟

احمد جاوید نے جواب دیا ’’یہ وہ رویہ ہے جو جرثومہ موت کی طرح امت کے جسد کوکھا چکا ہے۔ دین کے دیے ہوئے اوریجنل نظام ترجیحات کو زندہ رکھنے اور اسی کو مدار تعلیم و تربیت بنانے کی ذمے داری علما پر تھی اور ہے۔‘‘

ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی پاکستان کے وزیر تعلیم تھے،کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے، ان سے طاہر مسعود نے پوچھا ’’ بحیثیت ماہر تعلیم موجودہ نظام تعلیم کے بارے میں آپ کیا تصور رکھتے ہیں؟ ‘‘ ڈاکٹر قریشی نے جواب دیا ’’میں موجودہ نظام تعلیم کے خلاف ہوں۔ میں اسے ختم کرکے ایک بہتر اور بامقصد نظام تعلیم رائج کرنے کا خواہش مند رہا ہوں۔‘‘

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ کا تعلق شعبہ ابلاغ عامہ سے تھا، وہ اردو صحافت کے منجھے ہوئے اداریہ نویس رہے ہیں۔ طاہر مسعود نے ان سے سوال کیا، جامعات کے شعبہ ابلاغ سے پڑھ کر نکلنے والے طلبا کے ذرایع ابلاغ سے وابستہ ہونے سے کیا صحافت کا معیار بلند ہوا ہے؟ پروفیسر صاحب نے جواب دیا کہ مجموعی طور پر تو یہ نظر آتا ہے کہ صحافت کے معیار میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے بلکہ اس کے برعکس کمی آئی ہے۔ صحافت اور ذرایع ابلاغ سے تعلق رکھنے والی دو شخصیات ڈاکٹر نثار زبیری اور میر خلیل الرحمن سے بھی اپنے انٹرویو میں دلچسپ گفتگوکی۔ اردو ڈائجسٹ کے الطاف حسن قریشی اور محمد صلاح الدین سے ڈاکٹر طاہر مسعود کا مکالمہ بڑا فکر انگیز ہے۔

انھوں نے صلاح الدین سے پوچھا کہ صحافت کے اس پیشے میں آپ کو بہت عزت و شہرت ملی کیا آپ اس پیشے سے مطمئن ہیں؟ صلاح الدین نے جواب دیا ’’ہر پیشے میں اطمینان کا اظہار دو باتوں پر ہے ایک تو یہ کہ بجائے خود اس پیشے کی ہمارے معاشرے میں کیا اہمیت ہے اورکیا اس کا وقار اور احترام ہے اور دوسری بات یہ کہ جس پیشے سے آدمی منسلک ہے اس میں خود اس نے اپنے طور پر جو خدمات انجام دی ہیں، اس پیشے نے ذاتی طور پر اسے کتنی عزت دی اور معاشرے میں اس کا کتنا احترام کیا گیا۔‘‘

طاہر مسعود ، ضمیر نیازی کے مداحوں میں شامل تھے اور ان سے رابطے میں رہتے تھے۔اپنے انٹرویو میں انھوں نے ان سے سوال کیا کہ کیا صحافت اپنی ذمے داریاں پورے طورپر ادا کر رہی ہے؟ ضمیر نیازی نے جواب دیا ’’پورے طور پر نہیں،کچھ افراد یہ کردار ادا کر رہے ہیں۔ لوگ عبدالستار ایدھی اور اختر حمید خاں کے اداروں کو نہیں جانتے، انھیں جانتے ہیں۔ زاہدہ حنا کا شمار جدید اردو افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر طاہر مسعود نے ان سے سوال کیا آپ بھی قرۃ العین کی طرح تاریخ سے، ماضی سے آنے والی روشنی سے، بہت انسپائر ہوتی ہیں؟ زاہدہ حنا نے جواب دیا تاریخ کے بغیرکوئی بھی چیز معنویت نہیں رکھتی۔

ڈاکٹرطاہر مسعود کہتے ہیں کہ انھیں تین باتوں نے انور شعور کی شاعری کا احساس دلایا ہے۔ سادگی، انفرادیت اور گہرائی۔ ان کا شعر ہے:

صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میں

اور بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ

انور شعور سے ان کی شعر گوئی پر گفتگو کرتے ہوئے طاہر مسعود نے پوچھا، کیا نوآموز شاعر کے لیے کسی استاد کی شاگردگی اختیار کرنا ضروری ہے؟ انور شعور نے جواب دیا ’’ہر فن میں کمال حاصل کرنے کے لیے کسی نہ کسی استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔

آصف فرخی ادب اور ادیبوں کی خدمت میں بھی پیش پیش ہیں۔ طاہر مسعود نے ان سے پوچھا ، ادب ایک چھوٹے سے طبقے کا شوق فضول بن کر رہ گیا ہے۔ جیسے پہلے افسانے شوق سے پڑھے جاتے تھے، ادبی رسائل کی جو سرکولیشن تھی اور جیسا چرچا ہوتا تھا، وہ ماحول نہیں رہا ۔ اس کی جگہ دوسری چیزوں نے لے لی جیسے ٹیلی ویژن وغیرہ ۔ آصف فرخی نے جواب دیا۔ ’’میں نہیں سمجھتا کہ اس کو ہم ادب کی موت یا ادب کے اندر نقائص کے پیدا ہوجانے سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یہ اصل میں معاشرے کے اندر جو زوال کا ایک عمل جاری ہے، اس کے اظہارکی ایک صورت ہے۔ اس کا لامحالہ نتیجہ اسی قسم کی صورت سے نکلے گا۔ ہمارا معاشرہ جس تیزی سے کتاب دشمن معاشرے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے اس کو دیکھ کر خوف محسوس ہوتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر طاہر مسعود نے کمال احمد رضوی کا بھی انٹرویوکیا ۔ ٹیلی ویژن کے ڈراموں کے بارے میں گفتگوکے بعد ڈاکٹر صاحب نے کمال احمد سے پوچھا ’’ فلم انڈسٹری کی زبوں حالی کے پیش نظر اسے قومیا لینے کی تجویزکے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ کمال احمد نے جواب دیا ’’ اب کیا قومیائیں گے ۔ جو ادارے قومیائے گئے، ان کا اپنا کیا حال ہے ۔ وی سی آر گھرگھر پہنچ چکا ہے۔ سینما ہاؤس ٹوٹ چکے ہیں۔ ان کی جگہ شاپنگ سینٹرکھل گئے ہیں بلکہ اب تو ادبی کتابوں کی دکانیں بند ہو رہی ہیں۔ جو نئے اسٹال لگ رہے ہیں ، ان پرگھٹیا درجے کے رسالے بک رہے ہیں ۔ایسی کسی دکان پر جا کر آپ فانی بد ایونی کا مجموعہ کلام مانگیں، وہ حیرت سے آپ کا منہ تکے گا ۔

طاہر مسعود نے پھر پوچھا ٹیلی ویژن کے تعلیم یافتہ اداکار مثلاً طلعت حسین ، شکیل، عثمان پیرزادہ وغیرہ فلم انڈسٹری گئے، منہ کی کھا کر واپس آئے۔ کیا یہ لوگ اچھے لکھنے والوں کے ساتھ مل کرکوئی ایسی اکیڈمی قائم نہیں کرسکتے جو معیاری اور اچھی فلمیں بناکر عوام کا مذاق بہتر بنائیں ؟ کمال احمد رضوی نے جواب دیا۔ ان اداکاروں میں آپس میں کمیونیکیشن نہیں ہے۔ دو تین اداکاروں کو ایک کمرے میں بند کردیں، تھوڑی دیر میں واپس آکر آپ دیکھیں گے ان کے پرخچے اڑے ہوئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔