مودی جی! جنگ تباہی لاتی ہے

عابد محمود عزام  جمعرات 11 اپريل 2019

لوک سبھا کی 543 نشستوں پر بھارت میں 11 اپریل سے 19مئی 2019ء تک الیکشن ہونے جا رہے ہیں ۔ اس الیکشن میں اصل مقابلہ بی جے پی کے نریندر مودی اور اس کی اتحادی پارٹی این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) اور انڈین نیشنل کانگریس کے راہول گاندھی اور اس کی اتحادی پارٹی یو۔پی۔اے (یونائیٹڈ پروگریسو الائنس) کے درمیان ہوگا۔ نریندر مودی دوسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں مگر داخلی سطح پر اْنہیں دشوار صورتحال کا سامنا ہے۔

نہ صرف عوام انتہا پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے نریندر مودی سے نفرت کر رہے ہیں، بلکہ بھارت کے دانشوروں اور سیکڑوں سنجیدہ اداکاروں نے بھی عوام سے درخواست کی ہے کہ الیکشن میں مودی کے حق میں ووٹ نہ دیں اور زہریلی، متعصب اور انتہا پسند بی جے پی کو ووٹ کے ذریعے اقتدار سے نکال باہر کریں ۔ان کا کہنا ہے کہ مودی ترقی کا جھانسا دے کر حکومت میں آئے، لیکن نفرت تشدد اور قوم پرستی کی بد ترین مثال قائم کردی ۔آج بھارت خطرے میں ہے، دیس میں نفرت اور تعصب کا اندھیرا پھیلا ہوا ہے۔ بربریت اور سفاکیت کا طوفان مچانے والوں کو ووٹ کے ذریعے شکست دیں۔

یہ بات سب کے سامنے ہے کہ بھارت میں نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد انتہا پسندی اور شدت پسندی میں اضافہ ہوا اور جنگی جنون کا مسئلہ بڑھتا گیا ۔ بی جے پی کے دور حکومت میں بھارت کے پاکستان کے ساتھ حالات کشیدہ ہیں ۔ بھارت نے کنٹرول لائن سے لے کر پاکستان میں دہشتگردی کروانے تک پاکستان کے ساتھ جنگ چھیڑنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، لیکن ہر بار پاکستان کی جانب سے جنگ کو ٹالا گیا۔

مودی سرکار کی سرپرستی میں بھارت میں مسلمانوں پر بھی بے تحاشا مظالم ڈھائے گئے اورکشمیر میں ظلم وستم کی نئی تاریخ رقم کی گئی۔ مودی نے ہر قدم پر انتہاپسندی کو فروغ دیا۔ انتہاپسند ووٹرزکی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے انتخابی منشور میں بھی انتہاپسندی کو فروغ دینا ضروری سمجھا ہے اور آئین کے آرٹیکل 35 اے ختم کرکے بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے عوام کے خصوصی حقوق واپس لینے اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا وعدہ کیا ہے۔

مودی سرکار کی جانب سے بے تحاشا انتہاپسندی، جنگی جنون اور نفرت پھیلانے کی وجہ سے بھارت کے عوام میں نریندر مودی کی مقبولیت بہت کم ہوئی ہے۔ بھارتی لوک سبھا کے انتخابات میں حکمران بی جے پی کو اپنی شکست نظر آرہی ہے، اس لیے ان انتخابات سے پہلے وہ پاکستان دشمنی کی فضا گرما کر ہندو ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وزیراعظم مودی نے ملک میں عام انتخابات سے پیشتر پلوامہ واقعے کو اپنی سیاسی مہم جوئی کے لیے استعمال کیا، پاکستان پر حملے کا ڈرامہ بھی رچایا، مگر اس بری طرح منہ کی کھانی پڑی کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے اور ساری دنیا میں بھارت مذاق بن گیا ۔

بھارتی حکومت جو پاکستان دشمنی اور اسلام دشمنی کے نام پر اپنی سیاست چمکانے اور انتخابات میں جیت کے ایجنڈے پرگامزن تھی۔ اس کی انتہا پسندانہ حکمت عملی نے نہ صرف خود بھارت میں بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی طور پر بھارتی ریاست کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ نریندر مودی حکومت کی جانب سے ہندو آبادی کے ووٹ توڑنے کے لیے پاکستان کی مخالفت کا ڈرامہ فلاپ ہو چکا اور بھارت کے اندر یہ سوچ اور اپروچ ابھر رہی ہے کہ اس کی حکومت نے اپنے عوام کے جذباتی استحصال کی کوشش کی۔

مودی سرکار تو درحقیقت پاکستان کی سلامتی کمزورکرنے کے بھارتی ایجنڈے پر ہی گامزن ہے، تاہم اس نے پاکستان دشمنی کے اپنے ایجنڈے کے تحت جنگی جنون کا تڑکا کچھ زیادہ ہی لگا دیا۔ اس حوالے سے مودی کا پاکستان اور مسلم دشمنی کا اپنا ٹریک ریکارڈ انتہائی خراب ہے۔ اقتدار کی ابتداء ہی کنٹرول لائن پر پاکستان بھارت کشیدگی بڑھانے اور مقبوضہ کشمیر میں حق خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے والے کشمیریوں پر پیلٹ گنوں کی فائرنگ کے نئے ہتھکنڈے اختیارکرنے سے ہوئی، جب کہ انھوں نے اپنے پورے عرصہ اقتدار میں پاکستان دشمنی کا ماحول تبدیل نہیں ہونے دیا ۔ پاکستان بلاشبہ امن کا داعی ہے اور اس کے لیے ہر عالمی اور علاقائی فورم پرکوششیں بروئے کار لاتا رہتا ہے، جب کہ وہ بھارت کے ساتھ بھی کشمیر سمیت تمام تنازعات باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر بھی ہمہ وقت تیار رہتا ہے مگر پاکستان دشمنی کی بنیاد پر امن سے محبت بھارت کے قریب سے بھی ہو کر نہیں گزری ۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کے لیے خیرسگالی اور پائیدار امن کی بار بار خواہش کے باوجود بھارت نے ہمیشہ جنگ کرنے کی کوشش کی ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا کو بتایا ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان میں 16 سے 20 اپریل کے درمیان کارروائی کا خدشہ ہے اور اس حوالے سے پاکستان کے پاس قابل بھروسہ اطلاعات ہیں کہ بھارت تیاری کر رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا دنیا جانتی ہے پاکستان نے ذمے دارانہ اور بھارت نے غیر ذمے دارانہ رویہ اپنایا، لائن آف کنٹرول پر مسلسل فائرنگ جاری ہے، لیکن پاکستان برد باری سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کررہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی بھارت میں انتخابات ہیں، الیکشن کے دوران بھارتی حکومت کی طرف سے ہمت اور جرات کا مظاہرہ مشکل ہے، لیکن انتخابات کے بعد کشمیر، پانی، سیاچن، راہ داری یہ مسائل بیٹھ کر بات چیت سے حل کیے جاسکتے ہیں۔

بھارت ماضی سے کچھ سیکھنے کے لیے آج بھی تیار نہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان چار جنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں ملک کسی نئی جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ پاکستان نے ہمیشہ تمام معاملات مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی کوشش کی ہے، جب کہ بھارت نے ہمیشہ جنگ اور تباہی کی بات کی ہے، جو بھارت کی انتہاپسندی کی کھلی دلیل ہے۔ بھارتی میڈیا بھی آنکھیں بند کرکے حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے، حالانکہ اگر وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھے تو اسے بخوبی معلوم ہو جائے کہ الیکشن میں کامیابی کے لیے مودی حکومت کس قدر گھٹیا انداز سے بھارتی عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اڑھائی ارب انسانوں کے اس خطے میں جنگ کا مطلب دنیا کی آدھی آبادی کو ایٹمی جنگ میں جھونک دینا ہے اور نریندر مودی صرف الیکشن جیتنے کے لیے اڑھائی ارب انسانوں کو جنگ کی آگ میں دھکیلنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔

دنیا میں کہیں پر بھی کوئی حکومت اس طرح اپنے ہی ملک اور قوم کو جنگی جنون میں مبتلا نہیں کرتی جس طرح مودی سرکار اپنے ملک اور قوم کو تباہی کی جانب دھکیل رہی ہے۔ درحقیقت بھارت میں انتخابات جیتنے کے لیے ’’پاکستان اور اسلام دشمنی‘‘ ایک اہم اورکارگر حربہ ہے، جسے بھارت کے سیاست دانوں کی اکثریت اپناتی ہے، جب کہ بی جے پی کی تو بنیاد ہی اسلام اور پاکستان دشمنی پر ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے خلاف سازشوں اور مسلم دشمنی کو فروغ دینا بھارت کی سرشت میں شامل ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ پوری دنیا کے سامنے بھارت کی جنگی جنون کو لائے تاکہ پوری دنیا بھارت کے خوفناک چہرے کو پہچان سکے، اگر بھارت اپنی جنونیت میں پاکستان کی سلامتی کے خلاف کسی جارحیت کی سازش کرے گا تو درحقیقت وہ علاقائی اور عالمی امن وسلامتی سے کھیلے گا، اس صورتحال میں آج عالمی قیادتوں اور انسانی حقوق کے محافظ عالمی اداروں کا امتحان ہے کہ وہ بھارت کے جنونی ہاتھ روکتے ہیں یا علاقائی اور عالمی امن کی بھارت کے ہاتھوں تباہی کی نوبت لاتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔