ہائے یہ جواں مرگی

اسلم خان  جمعـء 16 اگست 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

موت زندگی کے کھیل کی آخری منزل ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ لیکن ہم دنیا دار جانتے بوجھتے اپنی منزل کی طرف بڑھتے ہوئے اس سے بے خبر رہنا چاہتے ہیں، اس لیے توکہتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی عمر اس نرمل کی قربت کا استعارہ ہے۔

میرے لیے موت‘ دکھوں سے نجات دلانے والا نسخہ کیمیا رہی ہے، جب طویل بیماری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دکھوں سے فرار کا کوئی راستہ نہیں رہتا‘ تمام دوا‘ دارو بے اثر ہو جاتے ہیں تو پھر بے بسی کے عالم میں چاہنے والے اپنے پیاروں کے لیے مشکلات کے خاتمے کی تمنا کرتے ہیں، پروردگار عالم سے گڑ گڑا کر دعا مانگتے ہیں کہ بیمار لادوا کی منزل آسان کر دے‘ اسے پر سکون موت عطا کر دے۔ اس وقت موت بیماریوں اور دکھوں سے نجات کا واحد راستہ ہوتی ہے۔

ابھی چند ماہ پہلے ہم سب لاہور کے فوجی شفا خانے (CMH) میں اپنے پیارے شاہ جی‘ گروپ ایڈیٹر روزنامہ ایکسپریس  جناب عباس اطہر کے کرب اور اذیت کے خاتمے کی زیر لب دعا کر رہے تھے، دلیری اور جواں مردی سے کینسر جیسے موذی مرض کا مقابلہ کرنے والے شاہ جی کے آہنی اعصاب کو طویل بیماری نے دھیرے دھیرے توڑ کر رکھ دیا تھا۔

اس سے پہلے اس کالم نگار کو کم از کم دو مرتبہ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مدتوں پہلے جب میرے بابا جی حاجی محمد رمضان خاں بڑھاپے کی پیچیدگیوں کی وجہ سے بے بس ہو گئے تو خاموشی سے راہ عدم کے ہوئے،اس طرح ہمدم دیرینہ عدنان رحمت کے والد گرامی گردوں کی بیماری کا شکار ہو کر آناً فاناً اسپتال داخل ہوئے‘ آخری دو راتیں ان کے ہمراہ گزارنے اور ان کی اذیت اور تکلیف کو دیکھتے ہوئے خاموشی سے ان کی منزل آسان کرنے کی دعا مانگتا رہا کہ بے بسی میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور میرے پیارے بھائی حضرت مولانا محمد یوسف خاں جو اس تیزی سے رخصت ہوئے کہ ہمیں الوداع کہنے کا موقع بھی نہ ملا۔

ان کے تبدیلی قلب کے کامیاب آپریشن کے بعد یہ کالم نگار اپنے شاہ جی‘ جناب عباس اطہر کے لیے شفا کی تلاش میں سنگا پور روانہ ہو چکا تھا، وہیں پر اطلاع ملی کہ کامیاب آپریشن کے بعد نا معلوم وجوہ کی بنا پر سانس زہریلے ہو گئے تھے جب سانس بھی زہر آلود ہو جائیں تو زندگی دور اور موت قریب ہو جایا کرتی ہے، مجھ بدنصیب کو تو آخری کندھا دینا بھی نصیب نہ ہوا لیکن میرا وفا شعار بھائی مجھے Good Bye کہنے سنگا پور کے ساحلوں پر میرے سامنے مجسم ہو گیا تھا اور اس کے چند لمحوں بعد ان کے انتقال پر ملال کی اطلاع مادی ذرائع سے بھی مل گئی تھی لیکن موت کا تلخ پہلو‘ انتہائی تکیف دہ انداز گزشتہ دنوں یکے بعد دیگرے کچھ اس طرح سامنے آیا کہ … جان کو ہلا کر رکھ دیا اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعا نکلی کہ اے کاش ان جواں مرگ پیاروں کی جگہ مجھے موت اچک لیتی۔

برادرم میاں محمود الرشید کو اپنے لاڈلے صاحبزادے حافظ حسین محمود کی ناگہانی رحلت کا پہاڑ جیسا دکھ نہ دیکھنا پڑتا۔ حافظ حسین محمود‘ ایف ایس سی کا امتحان دے کر فارغ ہوا تھا۔ میاں صاحب کے دونوں بیٹے اپنی تینوں بہنوں سے بہت چھوٹے تھے، بڑی منتوں اور مرادوں کی وجہ سے بہت لاڈلے تھے۔ مرحوم حافظ حسین محمود غیر معمولی طور پر متحرک تھا جسے نظم و ضبط میں لانے کے لیے میاں صاحب نے مریدکے کے قریب اقامتی ادارے ’’چاند باغ‘‘ اسکول میں داخل کرا دیا تھا، چاند باغ پنجاب کے فوجی گورنر غلام جیلانی خان کے ذہن رسا کی تخلیق تھا۔ جہاں عام طور پر بڑے شہروں سے دور دیہات اور قصبات کے بڑے زمینداروں کے بچے زیر تعلیم ہیں یہاں محمود الرشید کے ہمراہ اس کالم نگار کو مدتوں پہلے یہ مثالی طرز کی درس گاہ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔

20 سالہ حافظ حسین محمود تو جِم جاتا تھا ،کسی بیماری کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ آخری شب اس کی تہجد گزار والدہ اس کے کمرے کی روشنی دیکھ کر وہاں گئی تو حسین جاگ رہا تھا، اس کے سر میں درد تھا، ماں سے ٹھنڈا شربت مانگا۔کسی بھی ناگہانی سے بے خبر ماں نے بے چین ہو کر کہا، تمہارے والد کو اٹھا دوں تو اس سعادت مند بچے نے کہا ابو ناراض ہوں گے۔ ماں جگمگاتے لیپ ٹاپ کو دیکھ کر ناراض ہوئی اور اسے بند کرنے کا کہا… اور دکھیاری ماں کا بیٹے سے آخری مکالمہ تھا جو نیند کی حالت میں خاموشی سے اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ اس کی خبر ملتے ہی میرے دل سے یہ فریاد نکلی، کاش حافظ حسین محمود کی جگہ مجھے بلاوا آ جاتا نصف صدی دیکھ لی، اب اور جی کر کیا لینا ہے۔

اس سے چند دن پہلے میرا دوست‘ پیارا ہم جماعت عاطف واشنگٹن میں جان‘ جانِ آفریں کے سپرد کر گیا تھا۔ اس کی جواں مرگی نے بھی مجھے دہلا کر رکھا تھا لیکن یہ سب کچھ ناگہانی نہیں تھا جواں سال عاطف بٹ لاہور میں کاروباری علوم کی درس گاہ (LUMS)  میں میرے ساتھ شریک سبق رہا، چند ہفتوں کی رفاقت نے اس کا گرویدہ کر دیا۔ مایہ ناز امریکی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل عاطف کا تعلیمی ریکارڈ بڑا شاندار تھا۔ وہ کتابی کیڑا تھا، مجھے بھی ہر نئی کتاب کے بارے میں باخبر رکھتا‘ میری حیات زندگی سے مماثلت رکھنے والے آسٹریلوی قلمکار کی داستان حیات (SHANTARAM) کا تحفہ عطا کیا۔ لاہور آتا تو نت نئی جگہوں کو متعارف کراتا۔ اس کے جگر میں رسولی کی تشخیص ہوئی تھی، اس نے ہنستے مسکراتے مردانہ وار موت کو گلے لگایا۔ اس کی جوان مرگی نے بھی توڑ کر رکھ دیا تھا۔

ایسی جواں مرگی پر رسمی تعزیت‘ یہ کھوکھلے الفاظ سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ تین چار دن میاں صاحب کے گھر جاتا رہا اور خاموشی سے ایک طرف بیٹھ کر درود شریف کا ورد کرتا کہ ایک لفظ بولنے کا حوصلہ نہ کر سکا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔