مایوسی پھیلانے والے

خرم علی راؤ  جمعـء 12 اپريل 2019

یارکیا ہوگیا ، کون سی ایسی آفت آگئی ، نئی والی جو پہلے سے موجود نہیں تھی ۔کیا مہنگائی؟ ، مہنگائی تو اپنی پرانی دوست ہے وہ بھی پکی والی کہ کسی حال میں ساتھ ہی نہیں چھوڑتی یا پھر بے روزگاری تو اس کی کہانی یہ ہے کہ کام کرنے والوں ، محنت کرنے والوں کے لیے کل بھی روزگار تھا آج بھی ہے ہمیشہ رہے گا مگر سطحی قسم کی نقل مارکہ قابلیت رکھنے والے اور ان کو مختلف جگہوں پر مہارت سے کھپانے والے چاچے، مامے اور تائے اب ذرا تھکے تھکے سے نظر آنے لگے ہیں کہ سرکاری سیکٹر نیز پرائیویٹ سیکٹر میں الیکٹرانک گیجٹس کا استعمال بڑھ جانے سے یہ پیرا ٹروپر قسم کے لوگ کچھ زیادہ کھپ نہیں پا رہے ہیں مگر تھوڑا بہت توکام چل ہی رہا ہے نا ان کا، اب بھی دیگر چھوٹے بڑے سماجی، معاشرتی اور علاقائی مسئلے مسائل ہیں تو وہ بھی کم و بیش مدتوں سے ہیں، پھرایسا نیا کیا ہوگیا؟ مایوسی کیوں پھیلا رہے ہو بھائی؟ کیا حاصل کررہے ہو اس منفی پروپیگنڈے سے؟

ذرا غور کریں کہ یہ خدا جانے اتفاق ہے یا کچھ اورکہ جب بھی پاکستان کے لیے کچھ روشن امکانات کسی بھی سطح پر، کسی بھی شعبے میں نظر آنے لگتے ہیں چند گروہ اورکچھ اشخاص منفی باتیں اور افواہیں پھیلانے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ یہ کسی ایک مخصوص سیاسی پارٹی،علاقے یا صوبے کے لوگ نہیں ہیں بلکہ یہ ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ہر شعبے میں موجود نظر اتے ہیں اور بظاہر بڑے منطقی اور متاثر کن انداز میں جھوٹ سچ ملا کر تلبیسی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے ریاست پاکستان کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی یہ عناصرکالا باغ ڈیم بنانے کی راہ میں مختلف جواز تراشتے ہوئے رکاوٹ بنتے نظر آتے ہیں ۔کبھی یہ عناصر ڈاکٹر قدیر خان اور بھٹو صاحب کے جوہری توانائی حاصل کرنے کے منصوبے کو جو آج پاکستان کا بہت بڑا الحمدللہ اثاثہ اور ابلیسی طاقتوں کی آنکھ میں کھٹکتا کانٹا ہے کو اپنے اپنے طریقوں سے روز اول سے سبوتاژ کرنے میں مصروف نظر آتے تھے۔

یادش بخیر یہ وہی طبقہ تھا جو ڈاکٹر صاحب کے پہلے وزٹ اور بھٹو صاحب سے ملاقات کے بعد واپس ہالینڈ جاکر اپنے معاملات سمیٹنے اور پھر دوبارہ واپس آنے کے درمیانی وقفے میں ان کی جانب سے کام کے آغاز کے بارے میں دی گئی ، ابتدائی گائیڈ لائنز یعنی جبتک کہ میں واپس آؤں آپ فلاں فلاں کاموں کو انجام دے کر رکھیں مگر ہوا کیا؟

کم و بیش ایک سال بعد جب ڈاکٹر صاحب آئے تو یہ دیکھ کر حیران اور اس سے زیادہ پریشان ہوگئے کہ لیتھ مشینوں پر ڈپلومہ ہولڈر اور گریجویٹ انجینئرز ایٹم بم بنانے میں جٹے ہوئے تھے،جس پر انھوں نے تلملا کر بھٹو صاحب سے شکایت کی اور واپسی کا ارادہ کیا تو پھر اعلیٰ ترین سطح پر مشاورت کے بعد پروجیکٹ سات سو چھیاسی وجود میں آیا اور بعد کی آنے والی حکومتوں، غلام اسحاق خان اور پاکستان کی بہادر افواج کے بے مثال تعاون اور مدد سے ڈاکٹر صاحب اور ان کے بے شمار رفقاء جنھیں اگر ہم گمنام ہیروز کہیں تو بیجا نہ ہوگا کی شبانہ روز دیوانہ وار محنت اور کوشش اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے جوہری توانائی کے حصول کا یہ پہاڑ سرکیا۔ مگر یہ مایوسی پھیلانے والا طبقہ اس دوران بھی سرگرمِ عمل رہا اور آج بھی ہے۔

کبھی یہ پاکستان مخالف بیانیوں کو بڑی عیاری اور ڈپلومیسی سے سپورٹ کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی یہ پاکستان کو اپنے عدیم النظیر اور بے مثال جغرافیہ اور بے پناہ موجود معدنی ذخائر کی وجہ سے مستقبل قریب و بعید میں حاصل ہونے والے فوائد کا مذاق اڑاتے اور بے یقینی پھیلاتے نظر آتے ہیں۔ جس کی ایک حالیہ مثال کراچی کے نزدیک سمندر میں ملنے والے وسیع اور بہت بڑی مقدار کے حامل تیل اور گیس کے ذخائر کے بارے میں پھیلائی جانے والی افواہیں ہیں۔

اگر یہ ذخائر ملے اور انشااللہ العزیز ملیں گے تو یہ کسی ایک پارٹی ، برادری ، صوبے یا حکومت کی ملکیت نہیں ہونگے بلکہ ریاستِ پاکستان کے ہونگے اور ان سے ملنے والے فوائد براہ راست عوام کو پہنچیں گے، اگر آئل اینڈ گیس ڈرلنگ کمپنیز لاکھوں کروڑوں ڈالر خرچ کرکے ذخائر کی برآمدگی کے ان امکانات اور امیدوں کے بر آنے کے لیے پرجوش ہیں تو نہ جانے کچھ لوگوں کو کیوں بہت تکلیف ہو رہی ہے۔

وہ ان خبروں کو پروپیگنڈہ اور حکومت کی جانب سے اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دینے والا خوشنما جھوٹ قرار دینے پر مصر ہیں۔ کیا فائدہ مایوسی پھیلانے سے؟ اس سوال کا سادہ سا جواب ہے کہ ارے بھئی کچھ نہ کچھ فائدہ تو ان مہارتیوں،منطقیوں اور فنِ گفتگو کے ماہرین کو کہیں نہ کہیں سے تو مل ہی رہا ہے نا اس طرح کا پروپیگنڈہ کرنے سے ،جیسے کہ انڈیا نے کچھ لوگوں کو برسوں سے اپنے پے رول پر رکھ کر کالا باغ ڈیم جیسا ضروری منصوبہ پاکستان میں متنازعہ بنوایا ، رکوایا اور اس درمیان میں اپنے علاقے سے گزرنے والے دریاؤں پر کئی ڈیم بنا کر جو کہ بہت سے ابھی مزید بھی بنائے جا رہے ہیں پاکستان کو بنجر بنانے کے اپنے ماسٹر پلان پر خاموشی اور مکاری سے عمل کرتا رہا۔ اس طرح اس مکروہ کھیل اور سازش سے چند لوگوں کی جیب توضرور بھری گئی لیکن ریاست اور عوام کا تو بھاری نقصان ہوگیا نا۔ دوبارہ واضح رہے کہ یہ قطعا کسی خاص سیاسی پارٹی یا گروہ یا تنظیم کے بارے میں نہیں کہہ رہا ، بلکہ ایسے لوگ ہر جگہ،ہر پارٹی ہر شعبے میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے گھسے ہوئے ہیں۔

تو ایسے ہی مہا پرش بکاؤ قسم کے لوگ جو اپنے مذموم مقاصد کو کبھی علاقائی و قومی ہمدردی کی آڑ میں چھپاتے ہیں تو کبھی عوامی بہبود کے نعروں کے نقاب میں تو کبھی جمہوریت خطرے میں ہونے کی دہائیوں کے پیچھے اور پھر ان کی تجوریاں اور اکاؤنٹس، جائیدادیں اور کاروبار اور منافعے نہ جانے کیسے غیر معمولی رفتار سے ترقی کرتے ہیں اور ملک و عوام کا بھٹہ اسی غیر معمولی رفتار سے بیٹھتا جاتا ہے۔ مایوسی کے یہ نقیب جھوٹ اور پروپیگنڈے کے یہ ماہرین ۔ جہل اور ابتری کے یہ پرستار لیکن اس بات کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ اب وقت بدل چکا ہے اور اطلاعات و علم کے آمدہ سیلابی ریلوں کے ،کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے اور میڈیا کے اس دورِ پر سحر میں اب ان طریقوں سے کم ازکم مایوسی پھیلانا ذرا مشکل ہوگیا ہے۔

لوگ باگ اب سمجھدار ہوگئے ہیں اور اپنے وطن کے اعتبار سے اپنا بھلا برا، دوستوں دشمنوں اور نفع ونقصان بہتر طریقے سے پہچاننے لگے ہیں۔ پھر ہماری شاندار نوجوان نسل اپنے پیشروؤں یعنی ہماری نسل کے مقابلے میں زیادہ علم، تعلیم،اطلاعات ،حب الوطنی اور ذہنی پختگی کی حامل ہے اور جب ہم انٹر نیٹ پرپاکستان دشمنوں کے ہر طرح کے پروپیگنڈے کا توڑ کرتے ہوئے اپنے دفاع کار نوجوانوں کو دیکھتے ہیں تو دل میں خوشی اور امید کی ایک لہر رواں ہوتی ہے اور بے ساختہ ذہن میں حضرت علامہ اقبال کی جواب شکوہ کا یہ آفاقی شعر گونجتا ہے کہ

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے

یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

تو جناب پاکستان کے لیے امیدوں،آرزوؤں اور امنگوں کی ہزاروں لاکھوں شعائیں لیے کا امیدوں کا سورج طلوع ہو رہا ہے ۔ اس لیے مایوسی فروشوں سے بڑے ادب سے ہاتھ باندھ کر مؤدبانہ گزارش ہے کہ کوئی اورکام کوئی اور دھندہ تلاش کریں۔ عین نوازش ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔