لوگ خیرات دیدیتے ہیں، ٹیکس نہیں دیتے

ظفر سجاد  اتوار 14 اپريل 2019
پیچیدہ ٹیکس نظام اور قومی اجتماعی زندگی کے فقدان کا احاطہ کرتا فیچر

پیچیدہ ٹیکس نظام اور قومی اجتماعی زندگی کے فقدان کا احاطہ کرتا فیچر

ملک کے موجوہ وزیر اعظم تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تاسف بھرے لہجے میں کہا ’’لوگ خیرات دیدیتے ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے‘‘ عوام نے ان کی اس بات کو بڑے ہلکے پھلکے انداز میں لیا۔

اکثریت نے کہا کہ ہمارا ٹیکس حکومتیں اور بیوروکریسی کھا جاتی ہے۔ ہمارے ٹیکس اور خون پسینے کی کمائی سے یہ لوگ اندرون اور بیرون ممالک عیش کرتے ہیں، جائیدادیں بناتے ہیں، رنگ رلیاں مناتے ہیں، اپنے بچوں کو بیرون ممالک تعلیم دلواتے ہیں، معمولی بیماریوں کا علاج بھی باہر سے کرواتے ہیں، ہمارے ہی ٹیکسوں کی رقم سے تھوڑے بہت ترقیاتی کام کروا کر احسان بھی ہم پر جتاتے ہیں ۔

کسی بھی ملک میں عوام کے ٹیکس ادا نہ کرنے کی بڑی وجہ ملک میں قومی اجتماعی زندگی کا فقدان اور عوام کا اپنی حکومت اور قیادت پر عدم اعتماد ہے۔ یہ رجحان مثبت نہیں ہوتا اور اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں، آ ج تک کسی نے اس سنگین مسئلے کی جانب توجہ نہیں دی کہ ہماری قومی و مِلی اجتماعی زندگی زوال پذیر ہے، نفسانفسی، انفرادی زندگی اور خود غرضی کا رجحان بڑھ رہا ہے، اس کی تمام تر ذمہ داری ہماری لیڈرشپ اور سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔

قیام پاکستان کے بعد پاکستانی عوام کی شناخت ’’پاکستانی قوم ‘‘ کے طور پر اُبھری تھی۔ منزل ایک تھی۔ پہلی منزل پاکستان کا حصول اور دوسری منزل ملکی وقومی ترقی اور عوام کی خوشحالی تھی۔ مگر پے درپے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ قوم بکھرتی گئی اور کسی نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا۔ سقوط ڈھاکہ کا المیہ رونما ہوگیا۔ اجتماعیت کا خاتمہ ہوگیا، قوم گروہوں میں بِٹ گئی، مفادات کے حصول کی جنگ شروع ہوگئی، گروہ اکٹھے کر کے ملک میں حکومت کرنے کا رجحان اور کلچر شروع ہوا، قومی سرمائے کی بندربانٹ شروع ہوگئی۔ ملک کی تقدیر بنے ہوئے ’’لیڈروں‘‘ نے قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹا اور یہ رقم اپنے ملک میں رکھنے کی بجائے بیرون ممالک بجھوا دی، بیرون ممالک بنکوں میں سرمایہ رکھا، جائیدادیں خریدیں، عیش وآرام کیا، عوام کی حالت ناگفتہ بہ ہو گئی۔

اس تمام تر صورتحال میں بھی عوام سے یہ توقع رکھی جا رہی ہے کہ وہ اب بھی دل وجان سے ٹیکس دیں۔ اگرچہ موجودہ حکومت عوام کو یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ اب ان کی رقم اور ٹیکس کسی غلط جگہ خرچ نہیں ہوگا۔ عمران خان نے یقین دلانے کیلئے وزیر اعظم کے اخراجات میں 30% تک کمی کی ہے۔ علامت کے طور پر فالتو گاڑیاں اور بھینسیں فروحت کردی ہیں، فالتو عملہ دوسرے محکموں میں بھجوادیا ہے۔ پُرتعیش کھانوں کی بجائے مہمانوں کو صرف چائے او ر بسکٹ پیش کئے جا رہے مگر عوام کا یہ حال ہے کہ ’’دودھ کا جلا چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے‘‘ پھر لوگ یہ بھی سوچتے ہیں کہ ابھی تو خزانہ ہی خالی ہے، ہمارے ٹیکسوں اور خون پسینے کی کمائی سے اگر یہ بھر گیا تو کیاگارنٹی ہے کہ دوبارہ قومی سرمائے کی بندربانٹ نہیں ہوگی؟

قوم میں اجتماعی زندگی کا تصور صرف وہی’’راہنما‘‘ پیدا کر پاتے ہیں کہ جو اس کی اہمیت سے آگاہ ہوتے ہیں، ایسے راہنما اپنے کردار یا فعل سے عوام کو مایوس نہیں کرتے، یہ راہنما اپنی جھوٹی انا کے غلام نہیں ہوتے، دولت کی ہوس میں مبتلا نہیں ہوتے، صرف اپنے آپ یااپنے خاندان کو انسان نہیں سمجھتے بلکہ عوام کے احساسات اور محسوسات کی زیادہ پرواہ کرتے ہیں۔ یہ ایسی پالیساں بناتے ہیں کہ عوام کے دلوں میں حب الوطنی اور ملک کیلئے قربانی کے جذبات پیدا ہوں، یہ اپنے خاندان اور حواریوں کو نوازنے کی بجائے قومی فلاح وبہبود کے پروگرام بناتے ہیں، پاکستان میںقومی اجتماعی زندگی کا تصور ختم ہو کر انفرادی زندگیوں میں بدل گیا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب عوام کو ریاست کی طرف سے زندگیوں، علاج معالجہ، صحت اور روزگار کا تحفظ نہیں ہے۔

قومی اجتماعی زندگی کا تصور اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب راہنما اور ریاست ملک میں رہنے والے ہر فردکی زندگی، صحت، تعلیم، خوراک اور روزگار کی ذمہ داری لیتی ہے، قوم کو احساس دلاتی ہے کہ آ پ کا ٹیکس اور خون پسینے کی جو کمائی حکومتی سطح پر جمع کی گئی ہے وہ قوم کی اجتماعی حالت بہتر بنانے پر خرچ ہوگی، حکومتیں احساس دلاتی ہیں کہ آپ کے ٹیکس کی معمولی قوم سے بھی آپ کی اپنی انفرادی زندگی کو تحفظ حاصل ہوگا اور وقت پڑنے پر یہی رقم کئی گنا کرکے آپ پر خرچ کی جائے گی، ترقی یافتہ ممالک میں شہری اپنے ٹیکس کو ہی اپنی اصل ’’سیونگ‘‘ (جمع پونجی) سمجھتے ہیں کہ بوقت ضرورت ریاست ان کی ہر ذمہ داری پوری کرے گی۔

انفرادی طور پر خیرات اور صدقات دینے سے ہماری انفرادی زندگی کا پہلو سامنے آرہا ہے کہ لوگ اپنے طور پر صدقہ وخیرات کرکے عافیت اور دنیا سنوارنے کی کوشش کر رہے ہیں، عام تصور ہے کہ صدقہ وخیرات کا دس گنا اّجر دنیا میں اور ستر گّنا آخرت میں ملے گا۔ حالانکہ محض انفرادی صدقہ وخیرات اسلام کے مجموعی معاشی نظام کی ضِد ہے۔ اسلام میں خیرات صدقات اور زکواۃ کا بنیادی تصور یہی ہے کہ آپ کی زکوٰۃ پر پہلا حق آپ کے اُن عزیزوں، رشتہ داروں، ہمسایوں اور جاننے والوں کا ہے کہ جنہیں آپ ذاتی طور پر جانتے ہیں مگر اس کے ساتھ اسلام میں معیشت کا اجتماعی نظام بھی رائج رہا ہے اور آج بھی ہے کہ ریاست کے پاس بھی اتنا سرمایہ ہونا چاہیے کہ اجتماعی مفاد کے منصوبے بنائے جا سکیں اور اجتماعی طور پر لوگوں کی فلاح و بہبود پر توجہ دی جا سکے۔

پاکستانی حکمرانوں نے کبھی نہیں سو چا ہوگا کہ ان کی ہوس دولت اور مفادات نے قومی اجتماعی زندگی کا شیرازہ بکھیر دیا ہے، عوام اپنی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں ۔ ملکی خزانے خالی ہیں۔ قرضوں کا نہ اترنے والا بوجھ چڑھ چکا ہے۔ پوری قوم عدم تحفظ کے احساس سے دوچار ہے، ترقیاتی کاموں کے معاملات میں بھی حکمرانوں کی ذاتی پسند و نا پسند نے عوام کو بیزار کر دیا ہے۔

وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ صرف اٹھارہ لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں اُن میں بھی دس لاکھ ملازمت پیشہ افراد ہیں کہ جنہیں ٹیکس کاٹ کر باقی تنخواہ ادا کی جاتی ہے، باقی کل 8 لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ اعدادو شمار ٹھیک نہیں ہیں، اب تمام یوٹیلٹی بِِلوں کے ساتھ زبردستی ٹیکس وصول کئے جا رہے ہیں، جائیدادوں اور گاڑیوں کی خریدوفروخت میں بھاری ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں۔ ضروریات زندگی کی تقربیاً ہر شے پر GST ) جنرل سیلز ٹیکس) اور دوسرے ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں اور ٹیکسوں کا یہ بوجھ نادار عوام پر لاد دیا گیا ہے۔ ماچس پر بھیGST لگا دیا گیا ہے۔ اس وقت صرف کھلی سبزی پھل اور دودھ دہی پر GSTٓ اور دوسرے ٹیکس نہیں ہیں وگرنہ پیکنگ والی تمام اشیاء پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ GST کے علاوہ کسٹم ڈیوٹی اور کئی د وسرے ٹیکس بھی اشیاء کی فروخت سے پہلے ہی وصول کر لئے جاتے ہیں ۔ اگر بلاواسطہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد دیکھیں تو پورا ملک ہی ٹیکس گزار ہے۔

بجلی چوری اور ٹیکس چوری کے طریقے متعلقہ محکموں کے بددیانت افسران اور اہلکار ہی بتاتے ہیں بلکہ مجبور کرتے ہیں جو ان کے ساتھ تعاون نہ کرے اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔ اب پاکستان کا تجارتی کلچر ہی ٹیکس چوری اور’’باہمی تعاون‘‘کی بنیادوں پر قائم ہے، ایمانداری کے ساتھ کام کرنے والے مقابلہ ہی نہیں کر سکتے، ایک ماہراقتصادیات کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیکس کے نظام کی حالت بہت خراب ہے، کم ازکم چالیس برسوں سے ٹیکس چوری کرنے کی دوڑ شروع ہو چکی ہے اور اس کے ذمہ دار متعلقہ افسران اور اہلکار ہیں جو تاجروں اور صنعتکاروں کو ٹیکس چوری کا مشورہ اور ترغیب دیتے ہیں اور ساتھ ہی دوسرے تاجروں اور صنعتکاروں کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ جو ٹیکس بجلی اورگیس چوری کر کے کس قدر خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ اقتصادیات کے اس ماہر کا کہنا ہے کہ وطنِِِِ عزیز پاکستان میں تاجر وں اور ایف بی آر کے افسران اور ملازمین کی خوشحالی کی اصل وجہ ہی باہمی تعاون ہے،

انھوں نے کہا کہ سیاستدانوں کے ساتھ تاجروں اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کے افسران اور ملازمین کا بھی احتساب ہونا چاہیے، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پورے ملک میں عام افراد بھی جائیدادوں کی انتہائی کم مالیت ظاہر کر کے رجسٹریاں کرواتے ہیں جس سے حکومت کو ہر سال کم ازکم 20 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے، ظاہر ہے یہ کام بھی مِلی بھگت سے ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اپریزمنٹ کسٹمکے افسران کے شاہانہ ٹھاٹ باٹھ دیکھیں جائیں تو انسان دنگ رہ جاتا ہے، یہ وہ افسران ہیں کہ جو درآمدشدہ مال کی انتہائی کم ڈیوٹی لگا کر درآمد کنندگان کو فائدہ پہنچاتے ہیں، انھیں تو مالی فائدہ ہو جاتا ہے مگر حکومت کو اس مَد میں بھی اربوں روپے سالانہ نقصان ہوتا ہے۔ یہی حال واپڈا اور گیس کے افسران اور اہلکاروں کا ہے، سب کو معلوم ہے کہ ان سرکاری ملازمین کی خوشحالی کی اصل وجہ کیا ہے مگر آج تک ان سے نہیں پوچھا گیا کہ ’’آپ ذرائع آمدن سے بڑھ کر پُر تعیش زندگی کیسے گزار رہے ہیں؟‘‘

ایک واقفِ حال کا کہنا ہے کہ میاں برادران، جہانگیرترین، علیم خان اور دوسرے تمام سیاستدانوں سے تو تفتیش ہو رہی ہے کہ ان کی دولت میں بے پناہ اضافہ کی کیا وجہ ہے مگر ابھی تک اُن سرکاری اہلکاروں کو گرفتار نہیں کیا گیا جو ٹیکس، بجلی اور گیس چوری میں ان کے سہولت کار اور معاون تھے۔ اس لحاظ سے کرپشن کے خلاف یہ مہم صرف سیاسی عناد ہے اور سیاسی فائدے کیلئے ہے وگرنہ اگر مقصد کرپشن کی روک تھام ہوتا تو ان سیاسی افراد کے سرکاری سہولت کاروں کو پہلے پکڑا جاتا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیاسی افراد براہ راست کرپشن، کمیشن یارشوت میں عموماً ملوث نہیں ہوتے بلکہ یہ اپنے عہدوں کا فائدہ اٹھا کر ٹیکس ، بجلی اور گیس چوری کرتے ہیںاور دوسری مراعات حاصل کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ سب مِل ملا کر ہوتا ہے اگر موجودہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ بدعنوانی کے خلاف واقعی سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے ان کے سہولت کار بدعنوان سرکاری عناصر پر بھی ہاتھ ڈالا جائے۔

تحریک انصاف کے چیئرمین موجودہ وزیراعظم عمران خان کی اس نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا کہ وہ واقعی بدعنوانی کے خاتمے کے خواشمند ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیںآرہا کہ اس عفریت کا مقابلہ کیسے ممکن ہے۔ ٹیکس، بجلی اور گیس کی چوری ہمارے تجارتی کلچرکا سب سے اہم حصّہ اور جّزو ہے اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ اب اسے اکھاڑنا مشکل نظر آتا ہے مگر ارادہ پُختہ ہو تو بڑی سے بڑی مشکل بھی آسان ہو جاتی ہے۔

پیچیدہ نظام ٹیکس
ماہرین ٹیکس کا کہنا ہے کہ ریاست کے ’’معاشی بقراطوں‘‘ نے ٹیکس کا نظام اس قدر پیچیدہ کردیا ہے کہ عام لوگ اس نظام میں داخل ہوتے ہوئے ہی ڈرتے ہیں ۔ ایک بنک آفیسر نے کہا کہ میری تنحواہ میں سے باقاعدگی کے ساتھ ٹیکس منہا کیا جاتا ہے ۔ 4 لاکھ سے زائد سالانہ آمدنی والے تمام تنخواہ دار افراد کی تنخواہ کے ساتھ ہی مختلف شرح سے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے۔ مگر ہم لوگ GST اور دوسرے ٹیکسز بھی ادا کرتے ہیں ۔ اب ٹیکس نظام کے مطابق ہم اپنے گوشواروں میں دہرے ٹیکسوں کا اندراج کرکے ریفنڈ مانگ سکتے ہیں مگر جب ہم لوگ ریفنڈکا کلیم کرتے ہیں تو ایک نیا ’’پنڈورابکس‘‘کھل جاتا ہے، لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں ۔ دنیا میں ٹیکس نظام کو اتنا آسان بنایا جاتا ہے کہ عام لوگ باآسانی ٹیکس نیٹ ورک میں آجاتے ہیں، یہاں عام لوگ تو درکنار ماہر اقتصادیات بھی اس نظام کو نہیں سمجھ پا رہے۔

ٹیکس وصول کرنا غیر اسلامی نہیں ہے
ایک مشہور عالم دین اور صوفی بزرگ اپنے مریدین کو اکثر یہ کہتے تھے کہ ٹیکس چوری جائز ہے کیونکہ اسلام میں زکوٰۃ اور عشر کے علاوہ کسی اور ٹیکس کا تصور نہیں ہے۔ انھیں شائد اس بات کا علم نہیں تھا کہ اسلامی ریاست کی وسعت پذیری کے ساتھ دوسرے ٹیکسز کا نظام قائم کر دیا گیا تھا، پہلے حضرت عمرِ فاروقؓ نے باقاعدہ دوسرے ٹیکسز کاآغاز کیا ۔ پھر دوسرے مسلمان حکمرانوں نے بھی اس ٹیکس نیٹ ورک میں اضافہ کیا۔ ریاست کی ضروریات کے مطابق ٹیکس لگانا ضروری ہوتے ہیں، اصل مسئلہ ٹیکسوں کو جائز اور مساوی طریقے سے عوام پر خرچ کرنا ہے۔

بڑے سرمایہ کار ملازمت پیشہ افراد سے بھی کم ٹیکس دیتے ہیں
ایف بی آر نے ایسے دوہزار متمول افراد کی تفصیلی جانچ پڑتال کیلئے نوٹس جاری کردیئے ہیں کہ جن کے ماہانہ اخراجا ت کروڑوں میں ہیں۔ مگر وہ معمولی سا ٹیکس ادا کر رہے ہیں، حالانکہ ایسے افراد کی تعداد کم ازکم 32 ہزار ہے جو اپنی اصل آمدنی کے مقابلے میں کئی سو گنا کم آمدنی ظاہر کر کے چند ہزار روپے میں ٹیکس ادا کرتے ہیں، ایف بی آر کے ایک ریٹائر اعلی افسر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑی لگژری رہائش گاہوں (1000گز کورڈ ایریا )کی تعداد 2 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ان رہائش گاہوں اور ان کے مکینوں کے ماہانہ اخراجات ان کا شاہانہ رہن سہن بیرون ممالک سیروتفریح، بچوں کا غیر ممالک میں تعلیم حاصل کرنا ہوٹلنگ اور فنکشنز دیکھے جائیں تو آمدنی کا فوراً اندازہ ہو جاتا ہے مگر یہ لوگ تنحواہ دار افراد سے کہیں کم ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ انھوں نے تاسف سے کہا کہ ٹیکس چوری کے طریقے خود ایف بی آر کے افسران اور ملازمین بتاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔