جھگڑا فرق ہے

آفتاب احمد خانزادہ  اتوار 14 اپريل 2019
aftabkhanzada2@yahoo.com

[email protected]

جان ہیوم نے نوبیل انعام لیتے ہوئے اپنے خطبے میں کہا تھا کہ امن کے سلسلے میں کام کرنے کے دوران یورپ کے تجربات نے میرا دل بڑھایا ہے۔ میں ہمیشہ اس قصے کو بیان کرتا ہوں ، اس لیے کہ یہ اس قدر سادہ ہے مگر اتنا گہرا کہ دنیا کے کسی بھی علاقے کے تنازعے پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ 1979 میں یورپ کی پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے اسٹراسبرگ میرا جانا ہوا تھا، میں نے اسٹرا سبر گ اور Khel کے درمیان کا پل پیدل چل کر عبورکیا تھا۔

اسٹراسبرگ فرانس میں ہے Khel جرمنی میں واقع ہے دونوں شہر ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں میں چلتے چلتے پل کے بیچوں بیچ رک کر تھوڑی دیرکو رک کر سو چ میں پڑ گیا ادھر جرمنی ہے اور ادھر فرانس ۔ آج سے تیس بر س قبل دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد اگر میں اس جگہ کھڑا ہوتا جب صدی میں دوسری بار پچیس ملین افراد لقمہ اجل ہوچکے تھے اور کہتا کہ فکر نہ کرو ۔ تیس سال بعد ہم سب ایک متحد یورپ کا حصہ ہونگے۔

ہمارے تنازعات حل اور جنگیں ختم ہوچکی ہوں گی اور ہم ایک دوسرے کے مفاد کے لیے کام کررہے ہوں گے ۔ تو مجھ کوکسی ذہنی امراض کے ڈاکٹرکے پاس بھیج دیا گیا ہوتا ، مگر آج یہ سب کچھ ہوچکا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ دنیا بھر میں یورپی پارلیمنٹ تنازعات کے حل کیے جانے کاسب سے بہترین نمونہ ہے اور ہر ایک کا فرض ہے، بالخصو ص ان لوگوں کا جو تنازعات کے علاقوں میں رہتے ہیں کہ وہ اس بات پر غورکریں کہ یہ سب کس طرح ہوگیا اور اس کے اصولوں کو اپنے علاقوں کے تنازعات کے حل میں استعمال کریں سارا تنازعہ ہی اختلاف کا ہے فرق نسل کا ہے، مذہب کا یا قومیت کا ہے ، یورپ کے سرخیلوں نے فیصلہ کیا کہ فرق میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا، فرق فطری ہوتاہے فرق دراصل انسانیت کا نچوڑ ہے ، فرق ایک پیدائشی حادثہ ہوتا ہے اور اس کوکبھی نفرت یا تنازعے کا سبب نہیں ہونا چاہیے ۔

فرق کا جواب یہ ہے کہ اس کا احترام کیا جائے اور اس میں امن کا بنیادی اصول مضمر ہے کہ فریق کی بوقلمونی کا احترام کیاجائے تو یورپ کے لوگوں نے ادارے تشکیل دیے جنہوں نے فرق کا احترام کیا، وزیروں کی کونسل ، یورپی کمیشن اور یورپی پارلیمان وغیرہ مگر ان سب کو باہمی معاشی فوائد کے لیے مل کر کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے ۔ انھوں نے خون نہیں اپنا پسینہ بہایا ہے اور اس عمل میں انھوں نے بد اعتمادی کی ساری رکاوٹیں مسمارکردی ہیں اور ایک نیا یورپ وجود میں آیا ہے جو فرق کے احترام کے اقرار کی بنیاد پر روز افزوں ترقی کر رہا ہے ۔

بس یہ ہی کچھ ہم شمالی آئرلینڈ میں کرنے پر آمادہ ہیں ہمارا معاہدہ عوام نے جس کی بھرپور حمایت کی تھی تفاوت کا احترام کرنے والے اداروں کی تشکیل کرتا ہے مگر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہم مل جل کر اپنے باہمی مفاد کے لیے کام کریں گے اور ہم نے اپنے مشترک مفاد میں مل جل کر کام کرنے کی ابتداء کردی تب ہی زخموں کے بھرنے کا عمل شروع ہوگیا ہے تب ہی ہم نے ماضی کی بے اعتمادیوں اور تعصب کو جڑوں سے اکھیڑکر پھینک دیا ہے اور معاہد ے اورتفاوت کے احترام کی بنیاد پر ہمارا نیا معاشرہ وجود میں آئے گا ۔

مغلیہ سلطنت کے بانی بادشاہ بابر نے اپنے بیٹے کے نام وصیت میں لکھا ’’اس ملک میں بہت سے مذہب اور فرقوں کے لوگ رہتے ہیں اس قضیے میں مت الجھنا کیونکہ عقیدوں کے اختلاف کو بدلتے ہوئے موسم کی طرح سمجھنا موسم کے ساتھ جھگڑا نہیں کیاجاتا۔ برسات کی زحمت اور جاڑے کی شدت کے ساتھ جھگڑا نہیں کرتے۔ موسم آتا ہے، اس کو قبول کرتے ہیں اور وہ گزر جاتا ہے ‘‘جب تک انسان سوچتا رہے گا ، گروہ بنتے رہیں گے ، لوگ سو چیں گے تو اختلاف کرتے رہیں گے ، اسی سے زندگی رہتی ہے فرقوں کو ختم کرنے کے بجائے ان کے ساتھ جینا سیکھنا چاہیے قوم کے اندر خارج کرنے کا عمل قوم کوکمزور کردیتا ہے۔ اختلاف اور فرق کے ساتھ جینا اصل بہادری ہے ۔

پاکستان کے اہل دانش بہت کم اس بات پر رائے زنی کرتے ہیں کہ معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے برداشت ایک انتہائی اہم عنصر ہے۔ دنیا میں کوئی بھی دو انسان ایک جیسے خیالات کے نہیں ہوسکتے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی معاملے پر ان کی رائے جدا ہوسکتی ہے ، بھائی بھائی کے خیالات مختلف ہوتے ہیں باپ ، بیٹے کے خیالات مختلف ہوتے ہیں برادری اور فرقوں کے اندر مختلف لوگوں کے خیالات مختلف ہوتے ہیں ، اسی طرح مختلف علاقوں میں مختلف مذاہب، مختلف عقائد اور مختلف نظریات کے لوگ رہتے ہیں سماجیات پر تحقیق کرنے والے اس بات پر پوری طرح متفق ہیں کہ معاشروں کی ترقی میں ایک دوسرے کے خیالات ، عقائد اور نظریات کا احترام معاشرے کو مثبت انداز میں آگے بڑھاتا ہے۔

قیام پاکستان کے وقت بانی پاکستان قائد اعظم کا جو تصورتھا وہ ایک ایسے پاکستان کا تھا جس میں تمام مذاہب کے لوگ تمام صوبوں کے لوگ ، تمام قومیتوں کے لوگ ، تمام فرقوں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے رہیں گے اور ہر شخص کو اپنے نظریات اور عقیدے اور عقیدے پر قائم رہنے کی مکمل آزادی ہوگی لیکن افسوس کم نظر گروہوں نے پاکستان کو ملائیت کی ریاست بنانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں مختلف مذاہب اور مختلف عقیدوں کے درمیان فسادات ہوئے اور نفرتوں کا ایک ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوا جس کی آگ میں پاکستان بری طرح سے جل رہا ہے۔ پاکستان ایک ایسا عجیب و غریب ملک بن گیا ہے جہاں ہر انتہا پسند اپنے نظریے کو صحیح مان کر باقی سب پر جبراً مسلط کردینا چاہتا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے بعض دانشور بھی اسی رو میں بہہ رہے ہیں اور یہ اثرات پاکستانی سیاست میں بھی داخل ہوگئے ہیں کوئی بھی ایک گروپ دوسرے گروہ کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے نفرت انگیزگفتگو ،الزام تراشی،کیچڑ اچھالنا ، مخالفین کو قتل کرنا ایک دوسرے پر حملے کرنا اور کروانا ہمارے معاشرے کاقصہ بنتا جا رہاہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ کوئی گروہ اکیلا ملک اور معاشرے کو ترقی اور خوشحالی کی جانب نہیں لے جاسکتا ۔ مشکلات اور کٹھن صورتحال کا مقابلہ اکیلے نہیں کیاجاسکتا ، ملک بغیر تمام لوگوں کی شرکت کے ترقی نہیں کرسکتا ۔

مارکس نے کہا تھا ’’چونکہ انسان اپنے ماحول سے تشکیل پاتا ہے اس لیے اس کے ماحول کو انسانیت پر مبنی ہوناچاہیے ‘‘ وحشت پر مبنی سماج وحشی ہی تخلیق کرتا ہے نفرت ،عدم برداشت نجانے کتنی قوموں کو تبا ہ و برباد کرچکی ہے اور اب ہم اس کا شکار بنے ہوئے ہیں دنیا میں نئی تاریخ نے جنم لے لیا ہے۔ نئے نظریات ، نئی سو چ اور نئی صبح کا آغاز ہوچکا ہے جس کے اجالے میں دنیا روشن ہوچکی ہے ۔ صدیوں پر انے گلے سڑے زخم مندمل ہورہے ہیں لوگ پیار محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے خو شحالی ، امن کی نئی نئی منزلیں طے کر رہے ہیں ۔ تشدد ، بے اعتمادی ، نفرت کا خاتمہ ہوچکا ہے انسان اپنے سب سے بڑے دشمن غربت اور افلاس کو شکست دے چکا ہے جب کہ ہمارے ملک میں جہل کی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔

اعتقادات نے عقل انسانی کو بے کار کر رکھا ہے، انسانیت کا مستقبل تاریک ہوچکا ہے۔ انسانیت وحشت اور درندگی کے بوجھ کے نیچے پڑی کراہ رہی ہے۔ خدارا جاگ جائیے دنیا کی طرح اختلاف اور فرق کے ساتھ ایک ساتھ جینا شروع کر دیجیے ۔ نفرتوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیجیے پھر دیکھیں ہم کس طرح فتح مند ہوکر رہیں گے اور ترقی اور خوشحالی ہمارا نصیب ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔