اردو ادب میں ناول کا مقام

شاہد سردار  اتوار 14 اپريل 2019

عام طور پر ادبی نشستوں میں لوگ پوچھتے ہیں کہ اردو میں ہر صنف نے ترقی کی اور مقبولیت بھی حاصل کی لیکن اردو میں ناول اتنا پیچھے کیوں رہ گیا؟

دراصل کہانی، افسانہ اور ناول میں بہت فرق ہوا ہے۔ روسی، انگریزی اور فرنچ مصنفین اتنے موٹے موٹے ناول لکھتے تھے اور ان میں تفصیل اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ اردو پڑھا لکھا شخص ان کو دیکھ کر ہی احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ۔ اور پھر ناول کی حقیقت ایک یہ بھی ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے کئی صفحات کو اگر چھوڑ بھی دیا جائے تو اس کی تفصیل میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ دوسری اہم چیز مقبولیت اور شہرت تھی۔

اردو کے کتنے ممتاز ناول دوسری زبانوں میں ترجمہ کیے گئے اور انھوں نے مقبولیت بھی پائی، کیونکہ ایک زمانے میں لوگوں کو پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اس لیے کتابوں وغیرہ کی خریداری بھی بہت بڑی تعداد میں ہوتی تھی۔ ہمارے اردو ناشرکتاب کا معاوضہ شرمناک حد تک کم دیا کرتے تھے اور کہیں فریاد یا شنوائی نہیں ہوتی تھی۔ اس وجہ سے اردو لکھنے والوں کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ مہینوں کی سخت محنت کے بعد کوئی شاہکار پیدا کریں۔

ناول کے مقابلے میں اردو کی شاعری یا غزل نے بلاشبہ قابل رشک ترقی کی کیونکہ ایک زمانے میں شرفا، رئیس اور پڑھے لکھے لوگ بذات خود شاعری میں دلچسپی رکھتے تھے۔ بڑے بڑے نامور شاعروں کو منت سماجت کرکے بلاتے اور انھیں غم روزگار سے بے نیاز کردیتے، اس زمانے میں شعرا کا پیشہ صرف شاعری تھا، حکمران اور امرا کے علاوہ عام لوگ بھی شاعری کے دلدادہ تھے۔

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ اردو کا آغاز قصے کہانیوں سے ضرور ہوا اور ہر دوسرے گھر میں بڑی بوڑھیاں چراغ جلتے ہی اپنے گھروں یا خاندانوں کے بچوں کو کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ دراصل قصے کہانی کا استعارہ جوں جوں پھیلتا رہا کہانیوں اور افسانوں میں وسعت بھی پیدا ہونے لگی اور رنگ بھی پیدا ہوگئے۔ افسانہ ہو یا کہانی اسے لکھنے میں وقت کم خرچ ہوتا تھا اور بہت جلد نتیجہ نکل آتا تھا۔ اردو میں ناول کا آغاز ’’امراؤ جان ادا‘‘ سے ہوا۔ مرزا ہادی رسوا کا تحریر کردہ یہ ناول بے حد پسند کیا گیا، برصغیر پاک و ہند میں اس ناول پر متعدد فلمیں بھی بنیں جن میں ہمارے ہاں حسن طارق کی اسی ناول کے نام پر مبنی فلم شاہکار کا درجہ آج تک اختیار کیے ہوئے ہے۔

اس ناول کی شاندار پذیرائی کے بعد ’’مراۃ العروس‘‘ ڈپٹی نذیر احمد نے قائدین و ناقدین کے آگے پیش کرکے حد درجہ داد و تحسین سمیٹی، اس ناول پر ہمارے ہاں متعدد ڈرامہ سیریل بنائے گئے۔ مرزا ہادی رسوا، ڈپٹی نذیر احمد کے ساتھ راشدالخیری، سجاد حیدر یلدرم اور ان کی صاحبزادی قرۃ العین حیدر کے ساتھ عبدالحلیم شرر کے تحریر کردہ ناولز بھی بہت مشہور ہوئے، ان کے تعاقب میں غلام عباس، شوکت صدیقی، نسیم حجازی، انتظار حسین، ممتاز مفتی، عبداللہ حسین، قدرت اللہ شہاب، ابن صفی، رضیہ بٹ، بشریٰ رحمن، خدیجہ مستور، اے آر خاتون، بانو قدسیہ اور مستنصر حسین تارڑ وغیرہ ناول نگاروں میں بہت نمایاں ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد ابن صفی نے اردو میں ناول کا ایک بالکل منفرد انداز متعارف کرایا۔ جو بچے، بڑے، بوڑھے اور خواتین سبھی بہت شوق سے پڑھتے تھے اور انھیں اپنے تکیے کے نیچے رکھتے تھے، ان کے تحریر کردہ تمام ناول اس دور میں ’’بیسٹ سیلر‘‘ کہے جاتے تھے۔ اسی طرح ناول نگاروں میں مستنصر حسین تارڑ نے علمی اور ادبی حلقوں کو اپنے متعدد ناولوں کے ذریعے ورطہ حیرت میں ڈال دیا، بلاشبہ مستنصر حسین تارڑ کا ناولز کی دنیا میں ایک جداگانہ مقام ہے۔ ان کا تحریر کردہ پہلا ناول ’’پیار کا پہلا شہر‘‘ انتہائی مقبول ہوا اور خاصے طویل عرصے بیسٹ سیلر کے مقام پر فائز رہا، اب تک اس ناول کے پچاس سے زائد ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ کا ناول ’’بہاؤ‘‘ بھی ان کے قلم کا لازوال فن پارہ کہا جاسکتا ہے جس نے ایک ناممکن دنیا کو ممکن کر دکھایا۔ تین عشروں قبل شایع ہونے والے اس ناول کا شمار اب کلاسیک میں ہوتا ہے۔ تارڑ صاحب کا تحریر کردہ ایک اور ناول ’’راکھ‘‘ بھی ہمارے ذہن کے پردے پر ابھر رہا ہے جسے 1999 میں بہترین ناول کا وزیر اعظم ادبی ایوارڈ کا مستحق گردانا گیا، اس ناول کا مرکزی خیال ’’سقوط ڈھاکہ‘‘ تھا۔

ہمارے مطالعے اور مشاہدے کے مطابق اردو ادب میں ناول کی صنف میں جو کارہائے نمایاں سر انجام پائے اور جنھیں اردو ادب و ناول کے حوالے سے کلاسیک، لازوال یا امر کہے جاسکتے ہیں ان میں قرۃ العین حیدر کا ’’آگ کا دریا‘‘، نسیم حجازی کا ’’خاک اور خون‘‘، قدرت اللہ شہاب کا ’’یا خدا‘‘، شوکت صدیقی کا ’’خدا کی بستی‘‘، عبداللہ حسین کا ’’اداس نسلیں‘‘ اور مستنصر حسین تارڑ کا ’’بہاؤ‘‘ اور ’’راکھ‘‘ بلاشبہ ایسے فن پارے ہیں جن کی توصیف اور مرکزی خیال کو بیان کرنے کے لیے اس طرح کے کئی صفحات درکار ہوں گے، لہٰذا دریا کو کوزے میں سمیٹتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ مندرجہ بالا ناولز آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی پلکوں سے پڑھنے کے قابل ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے قاری اس کے مرکزی خیال میں خود بخود جذب ہوکے خود کو ان کی کہانی اور اس کے کردار کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔

گوکہ مندرجہ بالا ناول کلاسیکی ناولوں میں شمار قطار ہوتے ہیں اور ان مصنفین کے بعض دوسرے ناول بھی اردو ادب کے ماتھے کا جھومر کہے جانے کے لائق ہیں لیکن اردو ہی کے بعض جید لوگوں اور ناقدین کے مطابق ’’ہمارے ناولز مغربی ناولوں جیسا دیرپا تاثر پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔‘‘ اور رائے عامہ بھی ہے کہ اردو ادب عالمی دنیا تک نہیں پہنچ سکا، لیکن اسی سرزمین کی داستانیں کہنے والے یہاں کے انگریزی لکھنے والے ادیب بین الاقوامی اعزازات حاصل کر رہے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ہمارے ملک میں ’’ترجمے کا شعبہ‘‘ بہت کمزور اور نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی اردو ادب کے حوالے سے ناول کا المیہ بھی کہا جاسکتا ہے۔

جیسے ہر پودا ہر زمین میں پھل پھول نہیں سکتا۔ بالکل اسی طرح متعدد غیر ملکی ناولوں کے ساتھ بھی ہماری ادبی سرزمین نے کچھ اچھا سلوک روا نہیں رکھا اور یوں وہ یہاں پنپ نہیں سکے اور یہ پاکستان کی ادبی نرسری میں سرسری سے زیادہ توجہ حاصل نہ کرسکے۔ اور کم و بیش ہمارے ہاں کے بیشتر بڑے اور لازوال اردو ناولز کے ساتھ بھی غیر ممالک کی زمین پر یہی کچھ ہوا، اور ہمارے خیال میں اس پر بحث کرنا فضول ہی ہوگا۔

بہرکیف بالائی سطور میں ہم نے جن ناولوں کے نام رقم کیے انھیں پڑھنے کے بعد ہماری سوچ میں ایک نہیں بے شمار تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور ان ناولوں کے مصنفین سے ایک ’’بے عنوان عقیدت‘‘ کا رشتہ استوار ہوگی اور رہتی سانسوں تک یہ رشتہ قائم رہے گا۔ ہم جیسے لوگ جنھیں ادب سے متعارف ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں، چند فکشن تحاریر پڑھ کر خود کو ’’توپ چیز ‘‘ سمجھتے ہیں۔ لیکن ادب کیا ہے؟ حق قلم کیا ہے؟ تحریر کا اسلوب یا انداز بیاں کیا ہوتا ہے؟ یہ بلاشبہ ہمیں ان ناولوں اور ان کے مصنفین کی خداداد صلاحیتوں نے بتایا اور جتایا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔