اسکولوں والا پاکستان

جاوید قاضی  اتوار 14 اپريل 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

جب سے ہمارے نئے چیف جسٹس آف پاکستان اپنے منصب پر بیٹھے ہیں ، یوں لگتا ہے ایک دم سے بڑی خاموشی سی چھا گئی ہے ۔کہاں گیا سو موٹو ،کدھرکوگئے اچانک کے چھاپے، نجی چیلنز پر چلتی سرخیاں ، وہ باتیں ، وہ فسانے ، وہ ترانے ترے! جیسے کوئی گھمسان کی جنگ تھی جو Judicial Activism   کے سائے تلے برپا ہوئی۔ ہم اس کو نہ بْرا کہتے ہیں نہ بھلا ۔ مگرعدالتی فعالیت  Judicial Activism پر دنیا کی عدالتی تاریخ جو محفوظ کرتی ہے، اس پر تنقید زیادہ اور تعریف کم گوش کرتی ہے۔

ہم جس موڑ آن کھڑے ہیں، وہ ہماری ہی بنائی ہوئی میراث ہے۔ جانا کہاں تھا اور کدھرکو چل پڑے ہیں۔ کبھی صدارتی نظام کی باتیں سننے کو ملتی ہیں،کبھی اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کی ، توکبھی این ایف سی میں صوبوں کا حصہ کم کرنا۔ ہم نے جتنے شوشے چھوڑے وہ اپنے مقام تک پہنچنے کے قابل نہ تھے۔ اور پھر یوں بلآخر سامنے ایک بند گلی ہے۔اور ’’آگے سمندر ہے ‘‘

مولانا جلال الدین رومی اپنی مثنوی میں لکھتے ہیں ۔ ’’جب بلبل باغ سے اڑجاتی ہیں تو ان کی جگہ چوہے لے لیتے ہیں  اور یہی ہوا تھا چائنا میں جب دہقانوں نے گنے کی فصل بچانے کے لیے چڑیوں کو اڑایا ، بھگایا تھا تو ایک خلا پیدا ہوا تھا وہ خلا پھر ٹڈیوں نے پرکیا ۔ ان دہقانوں کی تمام فصل کھا گئیں اور یوں قحط کا سماں پیدا ہوا۔

ہمارے ہاں اب صرف ہم ہی کو پتہ نہیں آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ساری دنیا پہ عیاں ہے۔ ایک عمر ہوئی کاسہ لیسی میں ، کشکول گری میں۔ بڑی طاقتوں نے خوب ہمیں استعمال کیا ۔ ہم بے خبر رہے بحیثیت ریاست ہماری اہم ذمے داری کیا ہے؟ نہ جان ومال کی حفاظت کرسکے ، نہ اسکول ، اسپتال پینے کے لیے صاف پانی، نکاسی کا نظام ، یہاں کی اکثریت کو دے سکے ۔ ہمارا دفاع، ہماری ڈھال یہی لوگ تھے جن سے ہم نے چھت بھی چھین لی، اسکول و اسپتالیں ، ریل اور آبپاشی کا نظام جو یہاں ہمیں انگریزوں کی حاکمیت میں ملا تھا وہ بھی چھین لیا۔

مگر ہم یا مجھ جیسے لوگ جو متوسط طبقے سے انھی سرکاری اسکولوں میں پڑھے ۔ اماں کے دس بچے تھے اور سب سے چھوٹا میں تھا۔ یوں لگتا تھا میرا گھر بورڈنگ ہائوس تھا ۔ بیٹیوں کی تعلیم نوابشاہ شہر میں ممکن نہ تھی تو ابا نے زبیدہ کالج حیدرآباد بھیج دیں ۔ اماں کا کوئی بیٹا اگر اسکول سے بھاگ کے گھر میں چھپ جاتا تو ڈنڈا ڈولی کر کے اسکول پہنچایا جاتا۔ شام کو ٹیوشن دینے جب میرے استاد آتے تو ابا اٹھ کے کھڑے ہوجاتے ان کے احترام میں۔  گھر میں راگ تھا ، موسیقی تھی تو مذہبی تعلیم بھی تھی۔ کہاں تھی اتنی بڑی فیس ۔ اماں صرف اپنی دو بیٹوں کو پٹارو میں پڑھا سکیں ۔ تیسرا بیٹا روتا رہا کہ اسے بھی بھیجا جائے مگرکہاں تھی اتنی آمدنی۔ پھر جب ہم سب پروفیشنل کالجز میں گئے توکہاں تھی اتنی بڑی فیس ۔ تعلیم بھی بہت معیاری تھی۔

میرے والدین کا زمانہ بہتر تھا۔ جب مجھے اولاد ہوئی شروع سے لے کر اب جب پروفیشنل کالج میں ہیں، میرا سب سے بڑا ماہانہ خرچہ بچوں کی فیس رہی۔ اور اب بجلی کا بل اورگیس کا بل ۔

وہ جو اپنے بچوں کو پڑھانے کے قابل نہ رہے وہ اپنے بچے مدرسے بھیج دیتے ہیں اور وہ اسکول میرے گائوں کا جہاں میں پڑھنے جاتا تھا وہاں صرف اور صرف غریبوں کے بچے جاتے ہیں، میرا پرانا کلاس فیلو وہاں پڑھاتا ہے۔میں جب اسکول گھومنے گیا تو اس کی کلاس میں بچے آپس میں باتیں کر رہے تھے اور استاد ٹیبل پر رکھا اپنا کھانا کھا رہا تھا ۔ بہت سی کلاسز میں شاگرد تھے مگر استاد نہیں ۔ وہ نیم کا درخت اور اس کے سائے تلے ’’دکی‘‘ پر پڑا مٹکا۔ زنجیروں میں جکڑا لوہے کا پیالہ سب کے سب وہیں پڑے تھے مگر اس مٹکے میں اب کے بار وہ شفاف پانی نہیں تھا جو ہم پیا کرتے تھے۔ طالب علمی کے زمانے کی پیاس یاد آئی۔

ہم نے جس ہمت سے غربت کی لکیر کی زنجیریں توڑیں وہ سب اسکولوں کے زینوں سے بنیں ۔ ابا یتیم پیدا ہوئے ۔ ماں نے دو چار جو سونے کے ڈینگلے تھے وہ بیچے ، ٹوپیاں سئیں کہ بیٹا پڑھ لے اور وہ باپ اور میری ان پڑھ  ماں کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ بچوں کو پڑھانا ہے ۔ جائیداد میں کچھ بھی نہ چھوڑ سکے مگر علم اتنا دے گئے کہ اس کے دس کے دس بچے نوکریوں سے لگے۔ سرجن بنے ، وکیل و انجنیئربنے اور بیٹیا ں ڈاکٹر و پروفیسر بنیں۔

اور اب کی بار وہ غربت کی لکیریں تو پڑی ہیں مگر اسکول کے سی ہمت کہیں کھو گئی ہے ۔ بلبلیں اڑ گئی ہیں اور اْلو شاخ پر بیٹھے ہیں۔ لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ بچے ہیں جو اسکول نہیں جاتے ۔ ان میں لڑکیوں کا تناسب زیادہ ہے  اور جو جاتے ہیں ان میں اسی فیصد میٹرک بھی نہیں کر پاتے ۔ ان کی میٹرک پھر کسی کام کی نہیں ہوتی۔ جو بچے کمزور جسمانی ساخت رکھتے ہیں ان کے ذہن بھی کمزور ہوتے ہیں۔ ان کو صحیح غذا بھی نہیں ملتی۔ یہ بچے  malnourished  غذائی کمزوری میں مبتلا ہیں ۔ یہ لوگ تو ایک صدی اور بھی غربت کی لکیروں کے نیچے گزاریں گے ۔ سب کچھ اگر صحیح سمت بھی لے لے۔

کالم لکھتے وقت اخبار پر نظر پڑی کہ ورلڈ بینک نے جو 433 ملین ڈالر سندھ حکومت کو دیے تھے کہ دنیا کی بدترین stunting کی سطح جو سندھ میں ہے اس کو کم کر سکے اس پر ورلڈ بینک نے اپنے اعتراضات کھڑے کیے ہیں ، یوں کہئے کہ وہ کرپشن کی نذر ہوگئے ۔ کل تک یہ جو اسکولوں کا پاکستان تھا امیر و غریب سب کے بچے ، رنگ و مذہب کے تفریق کے بغیر انجنیئر اور ڈاکٹر بن سکتے تھے اب کے بار جو رسم چلی ہے اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ تعلیم کے لیے فیسیں چاہئیں اور فیسیں دینے کے لیے شاید کرپشن کا حصہ بننا ہوگا یا پھر اجداد نے دولت ورثے میں چھوڑی ہو۔

یوں لگتا ہے کہ آج غریبوں اور امیروں میں فیسوں نے دیوار کھڑی کردی ہے۔ پیسا پھینک تماشا دیکھ ۔ فیسیں دو اور تعلیم لو۔ مجھے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے کچھ نہ کچھ ورثے میں ملی جائداد کا حصہ بیچنا پڑتا ہے۔ ایک بیٹا امریکا میں ہے اور دوسرا تیاری کر رہا ہے۔ مگر جو مجھ پر گزرتی ہے مجھے وہ ان والدین کو اور قریب کردیتی ہے جو اس راہ سے گزر رہے ہیں ، نہ ان کے بچوں کو احساس ہوگا کہ باپ پے کیا گزر رہی ہے اور اب اتنے سارے سوالیہ نشان ہیں ایسے کئی متوسط و غریب خاندان کے کفالت کاروں پر۔ روزگار چھنے جارہے ہیں ۔ مہنگائی بے لگام  ہوگئی ہے۔

اور اس میں جو پہلی امید کی کرن پھر  پھوٹتی ہے وہ ہے چیف جسٹس آف پاکستان کا آرٹیکل 25A پہ تمام صوبائی حکومتوں و وفاقی حکومت کے اٹارنی جنرل و ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس دینا کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ پانچ سا ل سے سولہ سال تک بچوں کے لیے مفت تعلیم دینے والے شہری کے بنیادی حق پر کیا پیشرفت ہوئی ہے۔

جب اٹھارویں ترمیم سے یہ شق آئین کے بنیادی حقوق والے چیپٹر کا حصہ بنی تو سب اس عمل کو غیر فطری عمل سمجھ رہے تھے ۔ یہ شق آئین کے آرٹیکل 184(3) یا آرٹیکل 199 کے تحت اعلیٰ عدالتوں میں بحیثیت بنیادی حق چیلینج نہیں کی جاسکتی تھی اور اب یہ ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان اپنی طویل خاموشی توڑ کر منظر پر لائے ہیں۔

اس مرتبہ ایک طویل بحث درکار ہے ۔ ڈیم سے بڑا بیانیہ سب سے زیادہ تعظیم اور سب سے عظیم بیانیہ یہی ہوکہ ہمیں ’’اسکولوں والا پاکستان‘‘ چاہیئے۔ مسجد کے بعد سے بڑا گھر کوئی اور نہیں اسکول ہونا چاہیے، ہمیں وہ سارے اسکول جو یرغمال ہوچکے ہیں ، آزاد کرانے ہونگے۔ گلی محلے درخت کے سائے تلے غریبوں کے بچوں کو جمع کرنا ہوگا ان سے مل جل کر چلنا ہوگا ، ان کو کہانیاں سنانی ہونگیں یہ ان گھروں کے بچے ہیں جہاں بھوک اور افلاس رہتی ہے۔ بچے بیچ دیے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے بچے ہیں، یہ بھی خواب دیکھتے ہیں ۔ کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں ، ان کو بھی کھلونے چاہیے ہوتے ہیں۔

یہ کوئی بیس سال کا نسخہ ہے اگر ہم اپنے سرکاری اسکولوں کا معیار واپس اسی جگہ لے آئیں جہاں انگریزوں نے چھوڑا تھا اور اسی طرح سب کے لیے تعلیم سولہ سال تک مفت اور معیاری ہو جس طرح انگریزوں کے دور میں تھا یا خود ستر کی دہائی تک ہوا کرتی تھی۔ اس ملک کی شرح نمو ہو یا ادائیگیوں میں توازن یابرآمدات (Export) ہوں۔ بہت بڑا اور واضح نظر فرق آئے گا۔ ہماری ترقی کی راہ کے ضامن ہمارے اسکول ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔