کرکٹ میں بھی’’تبدیلی آئی رے‘‘

سلیم خالق  اتوار 14 اپريل 2019
اب یہ نہ ہو کہ آغاز اچھا لینے کے بعد موجودہ حکام بھی سابقہ آفیشلز کے نقش قدم پر چل پڑیں۔ فوٹو: فائل

اب یہ نہ ہو کہ آغاز اچھا لینے کے بعد موجودہ حکام بھی سابقہ آفیشلز کے نقش قدم پر چل پڑیں۔ فوٹو: فائل

’’تبدیلی آئی رے تبدیلی آئی رے‘‘ میرے ایک صحافی دوست اکثر یہ گانا گنگناتے ہوئے مجھے تنگ کرتے کہ کرکٹ میں کون سی تبدیلی آئی، سوائے احسان مانی کے سارے تو پرانے لوگ ہی کام کر رہے ہیں، میں ان کوجواب نہیں دیتا مگر اس رات ڈنر پر بحث چھڑگئی، میں نے انھیں گنوانا شروع کیا۔

ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی، ڈائریکٹر مارکیٹنگ نائلہ بھٹی، ڈائریکٹر سیکیورٹی اینڈ اینٹی کرپشن کرنل (ر) محمد اعظم مستعفی ہو چکے، اب جی ایم مارکیٹنگ صہیب شیخ اپنے ساتھی کامل کے ساتھ گھر چلے گئے، ایم ڈی وسیم خان انگلینڈ سے آ گئے، دبئی سے ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی آ چکے ہیں، عثمان واہلہ سائیڈ لائن ہو گئے اور ذاکر خان پھر فرنٹ فٹ پر آ کر بیٹنگ کر رہے ہیں، کیا یہ سب تبدیلی نہیں۔

اس پر انھوں نے کہا کہ ’’ہاں یار بات تو تم صحیح کر رہے ہو‘‘۔ ویسے یہ احسان مانی کا کمال ہے کہ انھوں نے اتنی عمدگی سے پی سی بی میں آپریشن کلین اپ کیا کہ کسی کو احساس تک نہیں ہوا، نجم سیٹھی کی تقریباً  تمام قریبی شخصیات گھر جا چکیں باقی غیرفعال ہیں،مگر اس دوران کوئی انگلی اٹھا کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا، بدقسمتی سے پی سی بی میں آ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ بس یہ ادارہ انہی کی وجہ سے قائم ہے، وہ نہ ہوتے تو تباہ ہو جاتا، ٹیم ان کی وجہ سے جیتی،کرکٹ ان کی وجہ سے ہو رہی ہے۔

یہ سوچ فرعونیت لے آتی ہے اور ایسے لوگ اپنے سامنے سب کو حقیر سمجھتے ہیں، مگر پھر ایک دن جب وہ عہدے سے فارغ ہوتے ہیں تو ان کے قدموں تلے زمین سرک جاتی اورانھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ توکچھ نہیں تھے بلکہ ادارہ سب سے اہم ہے،آپ کو اگر اس کی حالیہ جیتی جاتی مثال دیکھنا ہوتو نجم سیٹھی کو دیکھ لیں، اسی لیے وہ اب تک یہ حقیقت تسلیم نہیں کر پا رہے کہ چیئرمین بورڈ نہیں رہے اور نہ آئندہ کوئی چانس ہے۔

انھوں نے ذاتی جاگیر کی طرح پی سی بی کو چلایا اور ہر شعبے میں اپنے من پسند لوگ تعینات کیے تاکہ کنٹرول برقرار رہے،مگر اب سیٹھی صاحب نہیں رہے اور ان کی باقیات بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں، میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا کہ موجودہ چیئرمین احسان مانی کا انداز الگ ہے، وہ ٹی ٹوئنٹی نہیں پرانے دور کی ون ڈے کرکٹ والے کھلاڑی ہیں، پہلے وکٹ پر سیٹ ہوں گے پھر اسٹروکس کھیلیں گے، اس میں بھی ایسا نہیں ہوگا کہ خطرات مول لیں، اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے شاٹس کھیلنا شروع کر دیے ہیں۔

بدقسمتی سے پی سی بی میں ایک ’’پی ایس ایل مافیا‘‘ بھی بن چکی،اس کے بعض لوگ تو چلے گئے جبکہ کئی اب بھی باقی ہیں، فرنچائزز کے چند لوگوں کے ساتھ مل کروہ سمجھتے ہیں کہ لیگ انھوں نے شروع کرائی، اسپانسر شپ معاہدے انھوں نے کرائے،غیرملکی کھلاڑی ان کی وجہ سے شامل ہوئے،فرنچائز ٹیمیں انھوں نے فروخت کیں، حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے سب کچھ پی سی بی کی وجہ سے ہوا،ان کی جگہ ایکس وائی زیڈ کوئی بھی ہوتا تو یہی سب کچھ ہونا تھا، یہ سوچ نجم سیٹھی نے پروان چڑھائی تھی،ان کی جگہ کوئی اور چیئرمین بھی اگر ارادہ کرتا تو لیگ کرا دیتا۔

اربوں روپے کسی بورڈ کے پاس موجود ہوں تو وہ کیوں ایسا نہیں کرسکتا، کھلاڑی اور اسپانسرز اسی کے نام پر آگے آتے ہیں،مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں نائلہ بھٹی بھی خود کو بہت بڑی شخصیت سمجھتی تھیں مگر ایسا نہیں تھا اس کا احساس انھیں گذشتہ برس نیشنل اسٹیڈیم میں پی ایس ایل فائنل کے دوران بخوبی ہوگیا، صہیب شیخ اور ان کے بعض قریبی لوگ رواں برس لیگ کے دوران ایسے گھومتے رہے جیسا پورا ایونٹ انھوں نے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے، میں یہ سب دیکھتا اور دل ہی دل میں مسکراتے رہتا مجھے پتا تھا کہ ایونٹ کے بعد ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

اب جب استعفے سامنے آئے تو کوئی حیرت نہیں ہوئی، مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کے ایک صاحب مجھ سے ناراض ہو گئے تھے، وہ ایک پی ایس ایل ایڈیشن کے دوران بار بار فرنچائز کے ایسے ایریا میں پائے جاتے جہاں پلیئرز، مینجمنٹ اور میچ آفیشلز کے سوا کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی، مذکورہ ٹیم نے اینٹی کرپشن یونٹ کو اس کی شکایت کر دی، ہر بار ان کا جواب ہوتا کہ وضو کرنے گیا تھا، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اتنے بڑے دبئی اسٹیڈیم میں کتنی ایسی جگہ ہیں جہاں وضو کیلیے جایا جا سکتا ہے، میں نے پی سی بی کی تصدیق کے بعد یہ خبر ان کا نام لیے بغیر شائع کی تھی۔

اس کے علاوہ مارکیٹنگ کے بعض افراد کے پاس پلاٹس اور قیمتی کاریں آنے کی بھی خفیہ تحقیقات ہو رہی تھیں،اب بورڈ کو مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ کو فعال کرنا ہو گا،یہ طریقہ کار درست نہیں کہ ایک مخصوص رقم لے کر تمام رائٹس کسی کمپنی کو دے دیے جائیں، آپ کا اتنا بڑا ادارہ ہے،خود کیوں نہیں مختلف اسپانسرز کے پاس جاتے جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا، اس سے زیادہ ریونیو حاصل ہوگا،ٹھنڈے کمرے میں بیٹھ کر مارکیٹنگ نہیں ہوتی اس کیلیے بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے، امید ہے نئے لوگ یہ بات سمجھتے ہوں گے۔

پی سی بی میں اینٹی کرپشن یونٹ کے سابق سربراہ کرنل (ر) اعظم کے دور میں فکسنگ اسکینڈلز سامنے آئے،ان کا جانا بھی یقینی ہی تھا،آپ شاید یہ بات نہ مانیں سابقہ دور میں بورڈ آفیشلز کی فون کالز تک ریکارڈ کی جاتی تھیں، شریف آفیشلزجاسوسی کے خدشے سے لوگوں سے بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے،ایف بی آئی کے دفتر جیسا ماحول تھا، میڈیا ڈپارٹمنٹ پر نجم سیٹھی نے مکمل کنٹرول رکھا، کیسے؟

میں اس کی زیادہ تفصیل میں بھی نہیں جانا چاہوں گا، مگراس دور میں ٹویٹر مافیا کا راج تھا، جو مخالف ہوتا اس کا جینا محال کر دیا جاتا، کردار کشی کی جاتی اور شکایات کا انبار لگا دیا جاتا، اب سمیع برنی نے میڈیا ڈپارٹمنٹ سنبھال لیا ہے،بعض معاملات پر اختلاف رائے کے باوجود میں یہی کہوں گا کہ ان سے قابل ڈائریکٹر میڈیا پی سی بی کے پاس کبھی نہیں آیا،بس جس دن انھوں نے یہ بات سمجھ لی کہ آئی سی سی اور پی سی بی کے کام میں بڑا فرق ہے مزید بہتری آئے گی، ماضی کے ادوار میں سوائے ڈائریکٹر کے کوئی آپ کو کسی معاملے پر اپ ڈیٹ کرنے کا مجاز نہ تھا اور وہ ہاتھ نہیں آتے تھے۔

اب آپ کسی بھی آفیشل کو فون کریں وہ معلومات فراہم کرے گا، مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں بھی نئے لوگ لائے جا رہے ہیں، بس اب یہ نہ ہو کہ آغاز اچھا لینے کے بعد موجودہ حکام بھی سابقہ آفیشلز کے نقش قدم پر چل پڑیں، انھیں قدم زمین پررکھتے ہوئے کرکٹ کی بہتری کیلیے اقدامات کرنا ہوں گے، پی ایس ایل میں ابھی بہت بہتری لانا ہے، اچھی ٹیم بنائیں، فرنچائز حکام کو چوتھے ایڈیشن کے بعد سے لفٹ نہیں کرائی انھیں ملاقات کیلیے بلائیں مسائل پوچھیں اور حل کریں، ایک باقاعدہ پی ایس ایل ڈائریکٹر کا تقرر کریں جو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے، امید ہے کہ بہتری کا سلسلہ جاری رہے گااورمستقبل میں ہمیں اپنی رائے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔