نظام انصاف اور پارلیمنٹیرینز کی ذمے داری

ایڈیٹوریل  پير 15 اپريل 2019
پاکستانی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال26 ہزار مقدمات نمٹائے، فیصلوں میں تاخیر کی وجوہات کم کرنا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

پاکستانی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال26 ہزار مقدمات نمٹائے، فیصلوں میں تاخیر کی وجوہات کم کرنا ہے۔ فوٹو: سوشل میڈیا

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ہفتے کو انصاف کی تیز تر فراہمی کے حوالے سے قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں، پاکستانی عدلیہ نے بہترین کارکردگی دکھائی، ایک ماہ بعد سول مقدمات بھی ماڈل کورٹس میں لائیں گے۔محترم چیف جسٹس نے کہا میں  جج بنا تو پہلے دن سے ہی مشن تھا کہ مقدمات کے جلد فیصلے کیے جائیں، ریاست کی ذمے داری ہے کہ سستا اور فوری انصاف فراہم کرے، ماضی میں فیصلوں میں تاخیر کم کرنے کے لیے کئی تجربات کیے گئے، کبھی قانون میں ترمیم کبھی ڈومور کی تجویز دی گئی۔

ہمارے ججز جتنا کام کر رہے ہیں اتنا دنیا میں کوئی نہیں کرتا، ملک میں مجموعی طور پر3 ہزار ججز ہیں جنہوں نے گزشتہ سال34 لاکھ مقدمات نمٹائے، ججز کو اس سے زیادہ ڈومور کا نہیں کہہ سکتے، امریکی سپریم کورٹ سال میں80 سے90 مقدمات نمٹاتی ہے، برطانوی سپریم کورٹ سالانہ100 مقدمات کے فیصلے کرتی ہے جب کہ پاکستانی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال26 ہزار مقدمات نمٹائے، فیصلوں میں تاخیر کی وجوہات کم کرنا ہے۔

محترم چیف جسٹس صاحب نے انصاف کی فوری فراہمی کے حوالے سے جن حقائق اور مشکلات کا ذکر کیا ہے وہ ارباب اختیار کے لیے چشم کشا ہیں‘ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ماضی کی پارلیمنٹ ہو یا آج کی، انصاف کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے کسی نے بھی خلوص دل اور سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔ ارکان پارلیمنٹ کو اپنے استحقاق‘ مراعات اور تنخواہوں میں اضافے کا تو اتنا زیادہ خیال رہتا ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں اس نقطے پر یک جان  دو قالب ہو جاتے ہیں اور کہیں سے بھی مخالفت یا تنقید کی آواز نہیں اٹھتی۔ جہاں تک انصاف کی فوری فراہمی اور عوام کو ریلیف دینے کا معاملہ ہے تو یہ کبھی ارکان پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار جب کہ انصاف میں جلد بازی بعض اوقات انصاف کا تقاضا پورا نہیں کرتی ہے۔ عدلیہ پر مقدمات کی تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ دباؤ ہے جب کہ اس کے مقابل ججز کی تعداد بہت کم ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے انصاف کی فراہمی کے حوالے سے سقوم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہو گا کہ پارلیمنٹ ایسے قوانین کا جائزہ لے‘ جائیداد کے تنازعات کے فیصلے پولیس رپورٹس پر ہوتے ہیں‘ کیا پولیس کا کام ہے کہ فریقین کے حقوق کا تعین کرے‘ انسداد دہشت گردی قانون دیکھیں تو چوری اور زنا بھی دہشت گردی ہے‘ جوڈیشل پالیسی بہتر بنانے کے لیے سفارشات اور ترامیم کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔ بہت سے ایسے  قوانین موجود ہیں جن سے مقدمات کے فیصلوں میں الجھاؤ اور تاخیر پیدا ہوتی ہے لہٰذا پارلیمنٹ کا یہ کام ہے کہ وہ انصاف کے شعبے کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے قانون سازی پر بھرپور توجہ دے۔ پارلیمنٹیرینز کی کارکردگی کا بغور جائزہ لیا جائے تو کچھ ایسے ارکان پارلیمنٹ بھی ملیں گے جنھیں ریاستی اور آئینی قوانین کا علم ہی نہیں ہوگا لہٰذا ایسی صورت میں ان سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ قوانین کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔

لہٰذا یہ ناگزیر ہے کہ ریاستی قوانین کا شعور رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ‘ ماہرین قانون اور عدلیہ مل کر انصاف کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ انصاف کی فوری فراہمی کے لیے ماڈل کورٹس کا قیام خوش آیند ہے جس کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ماڈل کورٹس کے ججز سے کہا کہ وہ سماعت کے ساتھ فیصلہ لکھنا شروع کر دیں‘ ساتھ ساتھ فیصلہ لکھا جاتا رہے تو دلائل مکمل ہوتے ہی فیصلہ بھی تیار ہو گا‘ اعلیٰ عدلیہ ہر سماعت کا مکمل حکمنامہ لکھواتی ہے‘ ساتھ ساتھ فیصلہ لکھا جائے تو سماعت مکمل ہونے کے اگلے ہی روز حتمی فیصلہ آ سکتا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ایک ماہ بعد ماڈل کورٹس میں ایک ایک ججز کا اضافہ کریں گے‘ کوشش ہو گی نئی ماڈل کورٹس سول مقدمات کی ہوں‘ پہلے مرحلے میں فیملی اور کرایہ داری مقدمات نمٹائے جائیں گے‘ کوشش ہے کہ آہستہ آہستہ تمام ججز ماڈل کورٹس کے ججز بن جائیں۔ جن ممالک کا عدالتی نظام مضبوط ہے وہاں امن و امان کی صورت حال بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ خوشحالی اور ترقی کا عمل بھی تیز تر ہے‘ انصاف کی فوری فراہمی شہریوں کا بنیادی حق ہے اس حق کی فراہمی کے لیے ارکان پارلیمنٹ اور عدلیہ کو مل کر کردار ادا کرنا ہو گا اور عدالتوں میں جو مقدمات التوا کا شکار ہیں ان کی راہ میں رکاوٹوں کو جلد از جلد دور کرنا ہو گا تاکہ شہریوں کو فوری اور بروقت انصاف مل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔