فلسطینی اتھارٹی کا مستقبل

ایڈیٹوریل  پير 15 اپريل 2019
سرائیلی وزیراعظم بنجمن یاہو اپنی پانچویں ٹرم کے لیے انتخابات میں کھڑے ہیں

سرائیلی وزیراعظم بنجمن یاہو اپنی پانچویں ٹرم کے لیے انتخابات میں کھڑے ہیں

فلسطین اتھارٹی کی نئی حکومت نے گزشتہ روز حلف اٹھا لیا ہے۔ صدر محمود عباس نے حلف لیا۔ نئی حکومت کا سربراہ الفتح پارٹی کے وفاداروں میں سے ایک کو بنایا گیا ہے جب کہ الفتح کے مد مقابل حماس نے نئی حکومت کو مسترد کر دیا ہے۔ مغربی کنارے پر واقع اس نئی فلسطینی حکومت کا وزیراعظم محمد شتیح کو بنایا گیا ہے۔

جن کی اقتصادی امور پر مہارت کو سراہا جاتا ہے، وہ طویل عرصہ سے محمد عباس کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ وزیر خارجہ ریاض الملکی اور وزیر خزانہ شکری لشارہ پہلے ہی سے ان عہدوں پر قائم ہیں۔ محمد شتیح (Shtayyeh)کو 10مارچ کو فلسطینی وزیراعظم نامزد کیا گیا تھا جب کہ رومی الحمد للہ وزارت داخلہ اور وزارت مذہبی امور کی دیکھ بھال کریں گے تاآنکہ ان دونوں وزارتوں کے لیے دوسرے افراد کا تقرر نہیں کر دیا جاتا۔ نئی حکومت کی تشکیل کے لیے ہونے والے اجلاس میں فلسطینی سیاسی گروپوںکے  مابین اختلافات دور کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اقتدار میں شرکت کے حوالے سے اختلافات دور نہ کیے جا سکے بلکہ مزید الجھنیں پیدا ہو گئیں جس کے نتیجے میں دونوں فریق آپس میں ایک دوسرے کے قریب آنے کے بجائے اور زیادہ دور دور چلے گئے۔

حماس کا کہنا ہے کہ نئی حکومت جائز قومی حکومت ہر گز نہیں بلکہ یہ حکومت باہمی اختلافات کو اور زیادہ ہوا دے گی۔ اسرائیل کے مقبوضہ علاقے یعنی مغربی کنارے پر حالات پہلے ہی فلسطینیوں کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ نئی حکومت کے لیے اولین ذمے داری اقتصادی بحران کو ختم کرنے کے انتظامات کرنا ہوں گے۔ فلسطینی اتھارٹی کو صرف اسرائیل سے مقابلہ ہی درکار نہیں بلکہ امریکا بھی بہانے بہانے سے فلسطینیوں پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کرتا رہتا ہے تاکہ اسرائیل مطمئن رہے اور فلسطینی اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہ کر سکیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن یاہو اپنی پانچویں ٹرم کے لیے انتخابات میں کھڑے ہیں۔

انھوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر وہ جیت گئے تو مغربی کنارے پر قائم کی جانے والی تمام اسرائیلی نوآبادیوں کو اسرائیل میں ضم کر لیں گے اور یہ تمام علاقہ اسرائیل کا حصہ بن جائے گا۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ فلسطینیوں پر جس قدر چاہے ظلم و ستم کرے اس کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی اور نہ ہی ان سے کوئی باز پرس کی جائے گی۔

یوں دیکھا جائے تو فلسطینی اتھارٹی کو اپنی بقا کا مسلہ درپیش ہے اور خطے کی بدلتی ہوئی سیاست میں اس کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔فلسطینیوں کا الفتح گروپ مستقبل میں کیا کرتا ہے اور فلسطینی صدر محمود عباس کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں، اس کا اندازہ نئی اسرائیلی حکومت کے اقدامات سے ہوجائے گا۔اگر نیتن یاہو دوبارہ وزیراعظم بن گئے تو صورتحال خاصی پیچیدہ ہوجائے گی کیونکہ اسرائیل مزید جارحانہ پالیسی اختیار کر ے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔