جمہوریت پھر خطرے میں آگئی ہے

ظہیر اختر بیدری  پير 15 اپريل 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان نے بالکل درست کہا ہے کہ طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون کے باعث کئی قومیں تباہ ہو گئیں ۔ عمران خان کو یہ بات اس لیے کہنی پڑ رہی ہے کہ ہمارے ملک میں طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون کے مظاہرے اب روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں۔

اس دہرے قانون کی وجہ سے طاقتور لوگ قانون سے بے خوف ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں یہ سلسلہ اگرچہ پرانا ہے لیکن اس کے مظاہرے آج کل کیے جا رہے ہیں کہ ایک عام ناخواندہ انسان بھی اس فرق کو نہ صرف محسوس کر رہا ہے بلکہ شدت سے محسوس کر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑے آدمی کا کلچر اب اس بے رحمانہ طریقے سے ملک میں جاری و ساری ہے کہ معاشرہ دو حصوں میں بٹ گیا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جو کسی معمولی جرم کی وجہ پکڑے جاتے ہیں اور برسوں جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں ان کی ضمانت لینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو سنگین جرائم کا ارتکاب کرتا ہے اور پیشگی ضمانت لے کر آرام سے اپنے ’’ روز مرہ ‘‘ کے کام کرتا رہتا ہے۔

ہمارے علما حضرات بڑے فخر سے اسلامی دور خاص طور پر خلفائے راشدین کے دور میں ہونے والے بے لاگ قانون کی مثالیں پیش کر کے عوام کو بے لاگ قانون کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں، دوسری طرف قانون کے دہرے استعمال کی شدت سے حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس افسوس ناک امتیازی قوانین کی وجہ ملک قانون کے دہرے نظام میں پھنس کر رہ گیا ہے۔

آج کل میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز پر منی لانڈرنگ کے الزامات میں ان کی گرفتاری کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ نیب کی ٹیمیں ان کے دولت خانے پر گرفتاری کے لیے جا رہی ہیں لیکن کارکن نیب کے اہلکاروں کو راستہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ سیاسی کارکن بدقسمتی سے اب ایلیٹ کے باڈی گارڈ بن گئے ہیں اور کھلے عام اپنے لیڈروں کو قانون کی پکڑ سے بچانے کے لیے سرکاری اہلکاروں کے ساتھ لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو شرمندگی کے ساتھ خالی ہاتھ واپس آنا پڑتا ہے۔

ایلیٹ کی اولاد جن پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد ہیں، ملک سے فرار ہو کر مغربی ملکوں میں کھلے بندوں عیش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان پر نہ ملکی قوانین لاگو ہو سکتے ہیں نہ یہ حضرات بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ قانون مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ عام غریب آدمی معمولی جرم میں پکڑا جاتا ہے تو اس کی ضمانت لینے والا کوئی نہیں ہوتا دوسری طرف ایلیٹ کی 50-50 لاکھ کی ضمانت کھڑے کھڑے ہو جاتی ہے۔ ملک کے عوام قانون کے ان کرشموں کو بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں۔ چونکہ ہمارے ملک میں سیاست اب لوٹ مار کے ساتھ بلیک میلنگ کا ذریعہ بھی بن گئی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اسلامی دور میں خلیفۂ وقت کا بیٹا بھی کسی جرم کا ارتکاب کرتا تھا تو اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا تھا جو ایک عام ملزم کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس غیر امتیازی قانون اور انصاف کے نظام کی وجہ ملک میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہوتے تھے۔ اس امتیازی طریقہ کار کا سرچشمہ سرمایہ دارانہ نظام پر عملدرآمد ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام دراصل طبقات پر مبنی نظام ہے چونکہ اس نظام میں اشرافیہ سب سے زیادہ دولت مند طبقہ ہوتی ہے اور اس نظام میں قانون دولت مندوں کے ہاتھوں کا کھلونا بنا رہتا ہے اس لیے ایلیٹ کلاس کو قانون کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہوتی۔

دنیا کی سیاست میں سیاسی کارکن اپنی پارٹی کے منشور کا پجاری ہوتا ہے اس کا ہر کام منشور کے دائرے کے اندر ہوتا ہے لیکن پسماندہ ملکوں خصوصاً پاکستان جیسے سیاسی پسماندگی کے شکار ملک میں کارکنوں کا منشور سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا وہ صرف اپنے لیڈر کا غلام ہوتا ہے۔

حمزہ شہباز کی گرفتاری کے لیے آنے والی نیب کی ٹیم کے ساتھ ’’کارکنوں‘‘ نے جو سلوک کیا اس سے اور کوئی نقصان ہو نہ ہو ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ عوام کے دلوں سے قانون اور قانون کے محافظوں کا خوف جاتا رہا یا یہ احساس شدید تر ہوگیا کہ غریبوں کے ساتھ کچھ اور سلوک ہوتا ہے امیروں کے ساتھ قانون کا انداز دوسرا ہوتا ہے۔

پاکستان 22 کروڑ انسانوں کا ایک بڑا ملک ہے جہاں اشرافیہ سیاست اور اقتدار پر قابض ہے اور عوامی دولت کی لوٹ مارکا سلسلہ جاری ہے۔ آج کل اربوں روپوں کی کرپشن کے حوالے سے اشرافیائی شہزادوں کے خلاف جو کارروائی ہو رہی ہے وہ خواہ اپنی جگہ کتنی ہی درست کیوں نہ ہو اہل سیاست اور ان کے ہمنواؤں کے خیال کے مطابق یہ ظلم ہے جو اپوزیشن پر کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ کارروائیاں دراصل جمہوریت کے خلاف ہیں، اس حوالے سے سب سے پہلی وضاحت یہ ہے کہ اس بدقسمت ملک میں وہ جمہوریت کبھی رہی ہی نہیں جسے عوامی جمہوریت کہا جاتا ہے جس میں عوام کی بالادستی ہوتی ہے۔ اس بدقسمت ملک میں ہمیشہ اشرافیائی جمہوریت رہی ہے جس سے عوام کا صرف اتنا تعلق ہوتا ہے کہ پانچ سال میں ایک بار اشرافیائی امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کا نام ہی جمہوریت رکھا گیا ہے۔

حمزہ شہباز نواز شریف کے بھتیجے اور شہباز شریف کے فرزند ارجمند ہیں ان پر منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں اور اخبارات چیخ رہے ہیں کہ ان کے پاس اس حوالے سے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کسی شہری پر جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے وہ مجرم نہیں ملزم رہتا ہے اسے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو غلط ثابت کرنا ہوتا ہے۔ حمزہ پر بھی الزام ہیں اور الزامات کو غلط ثابت کرنے کا انھیں موقعہ ملنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔