قرۃ العین حیدر‘ ایک مکمل عہد

رئیس فاطمہ  ہفتہ 17 اگست 2013

اردو ادب کی تاریخ میں قرۃ العین حیدر جیسے خوش نصیب لوگ کم ہی ہوں گے۔ جنھوں نے لازوال شہرت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ بھرپور زندگی نہایت فراغت سے گزاری۔ ان کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ وہ چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئی تھیں۔ تو بالکل بھی غلط نہ ہو گا۔ بات صرف دولت و شہرت تک محدود نہیں۔ بلکہ ننھیال، ددھیال دونوں علمی و ادبی، خانوادے ۔۔۔۔ جس پر انھیں بجا طور پر فخر بھی تھا اور جس کا اظہار انھوں نے اپنے سوانحی ناول ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ میں جگہ جگہ کیا ہے۔ بعض ناقدین ادب نے اسے ’’فیملی ساگا‘‘ کا نام دیا ہے۔ لیکن اس سے اس کی اہمیت کم نہیں ہوتی ’’کار جہاں درا ز ہے‘‘ کے تین حصے ہیں۔

قرۃ العین حیدر 20جنوری 1927ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں اور 21 اگست 2007 کو دلی میں وفات پائی۔ بے شمار انعامات حاصل کیے۔ چار افسانوی مجموعے، پانچ ناولٹ، آٹھ ناول، گیارہ رپورتاژ کے علاوہ بے شمار کتابیں مرتب کیں۔ تقریباً گیارہ مختلف زبانوں کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا۔ چار کتابوں کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ساتھ ہی بچوں کے لیے بھی کئی کہانیوں کی کتابیں لکھیں ۔۔۔۔ ان کی زندگی دیکھئے تو صرف اور صرف ’’کام‘‘ ہی نظر آتا ہے۔۔۔۔ پتہ نہیں اتنی خوبصورت نثر لکھنے والی کا مزاج کیوں برہم رہتا ہے۔۔۔۔۔ اس حد تک کہ لوگ ملنے سے کتراتے تھے، بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے۔۔۔۔۔ اس کی وجہ میری جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ ایک تو انھیں منافقت نہیں آتی تھی دوسرے انھوں نے ایک بھرپور اور توانا تہذیب کو دم توڑتے، بکھرتے دیکھا، صدیوں کے رشتوں کو پامال ہوتے دیکھا۔ ان ہمسایوں کو چھریوں سے ایک دوسرے کو گھائل کرتے دیکھا، جنھوں نے دیوالی پہ چراغ ساتھ جلائے تھے۔

جنھوں نے عید پہ سویاں ایک ہی پلیٹ میں کھائی تھیں، جن کے بچوں نے پتنگیں ساتھ اڑائی تھیں۔ جن کی عورتوں نے سہاگ کی مہندیاں ساتھ ساتھ لگائی تھیں اور دوپٹہ بدل بہنیں بنی تھیں۔ جن کی کنواری لڑکیوں بالیوں نے ساون میں جھولے ساتھ جھولے تھے۔۔۔۔ پھر جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان آئیں۔ تو یہاں ’’اسلام پسندوں‘‘ کا حقیقی چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئیں، جو ایک آزاد ملک میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ اپنے ان ہم مذہبوں کو دیکھ کر رنجیدہ ہو رہی تھیں۔ جنھوں نے بڑی قربانیوں سے دو قومی نظریے کی بنا پر یہ ملک حاصل کیا تھا لیکن اب آپس ہی میں زبانوں، مسلکوں اور علاقائی بنیاد پر لڑ رہے تھے۔ تب انھوں نے سوچا کہ آخر جب آپس ہی میں لڑنا مرنا تھا تو اس کے لیے ملک تقسیم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ کام تو وہاں بھی ہو سکتا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن وہاں لڑائی ہندوؤں اور سکھوں سے تھی، مسلمان آپس میں متحد تھے۔۔۔۔ شاید مسلمانوں کو آپس ہی میں لڑنے مرنے کے لیے ایک علیحدہ ملک کی زیادہ ضرورت تھی۔

جہاں وہ آرام سے ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ سکیں، ایک دوسرے کو اپاہج کر سکیں، اور اپنی عبادت گاہوں اور مزارات کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر سکیں۔ تیسرے یہ کہ ’’آگ کا دریا‘‘ جیسا معرکتہ الآرا ناول لکھنے کے بعد بیوروکریسی کا منفی رویہ اور کچھ اپنے ہی نام نہاد دوستوں کی منافقت نے ان کا دل توڑ دیا۔ چونکہ وہ بہت حساس تھیں، ہر فنکار کی طرح۔ اس لیے یہ سب سہہ نہ سکیں اور مولانا ابوالکلام آزاد کے تاریخی خطبے کو یاد کرتی ہوئی، آنسوؤں سے جھلملاتی آنکھوں کے ساتھ یہاں سے چلی گئیں۔ اور شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ کے امر ہو گئیں۔ شاید پاکستان میں انھیں وہ مقام نہ ملتا جو بھارت میں ملا۔ دراصل وہ ایک ایسا سورج تھیں جس کی آب و تاب کے سامنے تمام ستارے ماند پڑ جاتے ہیں۔ ستارے بھلا سورج کی تابناکی کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟

قرۃ العین حیدر پاکستان میں پی آئی اے سے بھی وابستہ رہیں بلکہ خواتین فضائی میزبانوں کی روایت انھوں ہی نے ڈالی۔ اس وقت ایئرہوسٹس کے طور پر لڑکیوں کو ملازمت کے لیے آمادہ کرنا بہت مشکل تھا۔ لیکن انھوں نے یہ بیڑہ اٹھایا اور ذاتی تعلقات اور اثر و رسوخ استعمال کر کے لڑکیوں کو اس طرف لے آئیں۔ جس دن فلائٹ جانی تھی اس سے ایک دن پہلے بڑے جوش و خروش سے ریہرسل کروائی۔ اس حوالے سے وہ بہت پر جوش اور خوش تھیں۔ لیکن صرف ایک دن پہلے بڑے صوبے کے ایک بیوروکریٹ کی سفارش علاقائی بنیادوں اور تعلقات کی بنا پر ایک ایسے صاحب کے لیے آ گئی، جن کا اس سارے عمل سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ انھیں حکومت نے قرۃ العین حیدر کی جگہ جانے کے لیے منتخب کر لیا۔ وہ اس حق تلفی سے اس قدر دل برداشتہ اور دل شکستہ ہوئیں کہ فوراً ہی پی آئی اے سے استعفیٰ دے دیا۔ انھیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ ’’دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں‘‘ والی کہاوت صادق آ رہی تھی۔ پوری تفصیل ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ میں درج ہے اور میں ایک سابقہ کالم میں اس کا تذکرہ بھی کر چکی ہوں۔

قرۃ العین حیدر کے ناول ہوں، ناولٹ ہوں یا افسانے پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں البتہ ان کے رپورتاژ مجھے زیادہ متاثر نہیں کر سکے۔ اسی طرح ’’چاندنی بیگم‘‘ بھی بہت سے تضادات کا شکار ہے۔ جس کا تفصیلی ذکر میں نے اپنی کتاب ’’قرۃ العین حیدر کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ میں کیا ہے لیکن جہاں تک گردش رنگ چمن ، آگ کا دریا، آخر شب کے ہم سفر اور ’’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘‘ کی بات ہے۔ تو میں کہوں گی یہ تینوں ناول ایک ایسا انسانی اور تاریخی المیہ ہیں جسے فراموش کرنا ممکن نہیں حالانکہ ’’آگ کا دریا‘‘ کے جواب میں ’’سنگم‘‘ اور ’’اداس نسلیں‘‘ لکھے گئے لیکن پڑھنے والے فرق جانتے ہیں۔ ’’آخرشب کے ہم سفر‘‘ میں سابقہ مشرقی پاکستان سانس لیتا نظر آتا ہے۔ انسانوں کی زندگی کا تضاد کس طرح ان کی شخصیت کو تبدیل کر دیتا ہے۔ ریحان الدین احمد جو کہ نام نہاد سوشلسٹ ہیں۔ کس طرح دولت ملنے کے بعد ان کی خود غرض اور کمینی فطرت سامنے آتی ہے۔ اسی طرح نواب قمر الزمان جو ریحان کے ماموں تھے۔

ان کی عالیشان ارجمند منزل میں پادری بینرجی اور الشہر بینرجی جیسے غریب اور بے وقعت میاں بیوی کی بیٹی روزی پناہ لیتی ہے۔ اور پھر ایک دن ایک بڑے آدمی سے شادی کر کے رادھیکا سانیال بن جاتی ہے۔ اپنے ماں باپ اپنے طبقے سے دغا کرتی ہے۔ دیپال سرکار جو کمیونسٹ ہے وہ بھی اپنے طبقے اور آئیڈیاز سے بغاوت کر کے اعلیٰ طبقے میں شامل ہو جاتی ہے۔ قرۃ العین حیدر نے بڑی چابک دستی اور فنکاری سے نام نہاد سوشلسٹوں کا چہرہ دکھایا ہے۔ خاص طور سے روزی اور ریحان۔ اس طرح کے کردار ہم سب نے بھٹو دور میں بہت قریب سے دیکھے ہیں۔ جب بہت سے ’’جیالوں‘‘ نے جیل کاٹی۔ پھر اسی وفاداری کا خراج وصول کر کے پاکستان سے باہر چلے گئے۔ جہاں وہ مکمل طور پر ’’عیش‘‘ کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب سال میں ایک بار پاکستان آتے ہیں۔ اور اپنی کتاب کی رونمائی نہایت تزک و احتشام سے کرتے ہیں۔ تو ان کے توانا چہروں، قیمتی لباس، انگوٹھیوں اور بیش قیمت چشموں کو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ تو وہی ہیں جو تھڑوں پہ سوتے تھے۔

فیس ادا کرنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ پھر ایک شارٹ کٹ دریافت ہوا’’۔۔۔۔۔ سوشلزم۔۔۔۔‘‘ اور اس ’’پارس پتھر‘‘ کو انھوں نے چوم کر جیب میں رکھ لیا اور بوقت ضرورت خوب استعمال کیا۔ اپنے پرانے ساتھیوں سے وہ اب اس طرح بات کرتے ہیں جیسے وہ کسی راجواڑے سے آئے ہوں۔ ان کی بیٹیاں دو دو ہزار کی لپ اسٹک لگاتی، جینز پہنتی نظر آتی ہیں۔ اور یہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ اصل منزل تو ان کی یہی تھی۔ دراصل دولت مندوں سے نفرت اس لیے تھی کہ خود اس سے محروم تھے۔ حسد اور جلن کی بنا پر سوشلسٹ بن گئے اور جب سوشلزم کے پارس پتھر نے انھیں بھی نو دولتیوں کی صف میں لاکھڑا کیا تو یہ سگار بھی اپنے لیڈر کے انداز میں پینے لگے۔۔۔۔!!

سابقہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں انھوں نے ایک ناولٹ بھی لکھا تھا ’’چائے کے باغ‘‘ جس میں چائے کے باغات میں کام کرنے والے مزدوروں کے مسائل سے بھری زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کی ناولوں اور افسانوں کے بیشتر کردار حقیقی ہیں۔ جنھیں انھوں نے زندگی میں کہیں نہ کہیں دیکھا تھا۔ ’’نظارہ درمیاں ہے‘‘ کی ’’تارابائی‘‘ یا ۔۔۔۔’’اکثر اس طرح سے بھی رقص فغاں ہوتا ہے‘‘ کی یونی جمال آراء۔۔۔۔۔ یا ’’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘‘ کی قمرن۔۔۔۔ جس کی زندگی پہ مظفر علی نے بھارت میں ’’انجمن‘‘ نامی فلم بنائی تھی۔ جو چکن کاڑھنے والی عورتوں کی زندگی پہ مبنی تھی، اس فلم میں مرکزی کردار شبانہ اعظمی نے ادا کیا تھا۔

’’کار جہاں دراز ہے‘‘۔۔۔۔۔ کی تیسری جلد ’’شاہراہ حریر‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے ۔ حصہ سوم میں انھوں نے ایک ایسی خاتون کا ذکر کیا ہے۔ جو پی ای سی۔ ایچ سوسائٹی میں اکثر ہمارے گھر آتی تھیں۔ یہ تھیں نام ور رقاصہ ’’میڈم آزوری‘‘ ۔۔۔۔ لیکن اس سوانحی ناول سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا اصلی نام کچھ اور تھا۔ وہ ماں باپ کے رکھے ہوئے نام سے ’’آزوری‘‘ کیسے بنیں ، تمام تفصیل یہاں موجود ہے۔ میڈم آزوری نرسری پہ قائم ایک اسکول ’’قائدین اسکول میں میوزک ٹیچر تھیں۔ اور بچوں کو ٹیبلو وغیرہ کی تیاری کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت کلاسیکی رقص بھی سکھاتی تھیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب انتہا پسندوں نے پر امن معاشرے کو یرغمال نہیں بنایا تھا۔ میرے بھائیوں کے بچے اس اسکول میں پڑھتے تھے۔ یوں ان کی ہم سے واقفیت ہوئی تھی۔ انشاء اللہ کسی دوسرے کالم میں اس کردار سے تفصیلی ملاقات کرواؤں گی۔ اسی طرح ’’سیتا ہَرن‘‘ کی مایا کو ہم نے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں دیکھا تھا۔ دبلی پتلی سی مایا جمیل جو غالباً وہاں لیکچرر تھیں۔ خاموش اور اپنی ذات میں گم رہنے والی تھیں۔ جن لوگوں نے ’’سیتا ہَرن ‘‘ پڑھا تھا۔ اور جو انھیں جانتے تھے وہ انھیں دیکھتے ہی سرگوشیاں کرتے۔۔۔۔۔ ’’وہ دیکھو وہ مایا جمیل ہیں جن کا ذکر قرۃ العین حیدر نے کیا ہے ۔۔۔۔اور ہم سب انھیں یوں چوری چوری دیکھتے کہ کہیں وہ ہماری چوری نہ پکڑ لیں۔۔۔۔۔ پھر نجانے وہ کہاں چلی گئیں۔ بہرحال قرۃ العین حیدر ایک مکمل عہد تھیں اور ان کی وفات کے بعد اس زریں عہد کا بھی خاتمہ ہوگیا۔۔۔۔!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔