چارجڈ پارکنگ یا لوٹ مار؟

نسیم انجم  ہفتہ 17 اگست 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

جس طرح شہریوں کو مہنگائی، بدنظمی اور دوسری مشکلات نے پریشان کیا ہوا ہے بالکل اسی طرح چارجڈ پارکنگ کی وجہ سے بھی عوام کو ذہنی اذیت اٹھانی پڑتی ہے، جگہ جگہ شاپنگ سینٹرز، شفاخانوں اور دوسری اہم عمارات کا قیام عمل میں آچکا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنی ضرورتوں کے تحت باہر جاتے ہیں اور مختلف جگہوں پرگاڑیاں پارک کرتے ہیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ ابھی اپنے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچا بھی نہ سکے کہ رقم وصول کرنے ایک دو نہیں کئی کارکن دوڑے بھاگے چلے آئے، صاحب! اس جگہ، ذرا اور آگے، اس طرف موڑلیں، بالک ٹھیک، ہدایات دینے کے بعد اس شخص نے رسید بک سے رسید کاٹی اور 20 سے 30 روپے تک بڑی آسانی سے وصول کرلیے کچھ اعتراض کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ ہم تو سرکار یا کنٹونمنٹ کے ملازم ہیں۔ اب آپ ہوگئے لاجواب کہ اس بے چارے کی کیا غلطی؟ وہ تو اپنی ڈیوٹی انجام دے رہا ہے، لیکن وہ بھی بے چارہ نہیں ہے۔

ان کا بھی مختلف پارٹیوں سے تعلق ہے یا پھر آپس میں ہی طے کرلیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں جگہوں پر پارکنگ فیس ہمارا گینگ وصول کرے گا اور پھر اسلحے کے اور طاقت کے بل پر وہ معصوم شہریوں کو بڑی آسانی سے لوٹتے ہیں اور پھر سب اپنا اپنا حصہ تقسیم کرلیتے ہیں اس تقسیم میں پولیس بھی شامل ہوتی ہے، ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ پولیس تو ہر برے کاموں میں ابتدا سے لے کر انتہا تک شامل رہتی ہے، بس اسے اپنا حصہ ملنا چاہیے، باقی جو جس کا دل چاہے کرے؟ اغوا، تشدد، بھتہ خوری اور غیر منصفانہ رویہ جیسے پولیس عوامل کی ملی بھگت کی وجہ ہی سے پروان چڑھے ہیں، مگر تمام پولیس والے بالکل اسی طرح ایک سے نہیں ہوتے جس طرح ہاتھ کی انگلیاں برابر نہیں ہوتی ہیں۔ کچھ تو اس قدر فرض شناس اور ایماندار کہ جان چلی جائے ایمان نہ جائے۔ ایمان دار اور نیک فطرت پولیس اہلکاروں کے کارنامے منظر عام پر آتے ہی رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کی کالی بھیڑوں نے معاشرے کا سکون برباد کردیا ہے۔

آج کل جدید عمارتوں میں نہ کہ پارکنگ ایریا ہوتا ہے بلکہ گارڈ بھی ان جگہوں پر تعینات کیے جاتے ہیں پھر پارکنگ کے حوالے سے کیوں رقم چارج کی جاتی ہے؟ یہ کھلم کھلا  ناانصافی ہے، اس طرح یہ لوگ ایک دن میں ہزاروں روپے کما لیتے ہیں اور خریداروں کی جیبیں خالی کردیتے ہیں چونکہ عید اور شادی بیاہ، تقریبات کے مواقعوں پر ایک ہی گھر سے کئی بار خریداری کے لیے مارکیٹ جانا پڑتا ہے، تو ہر دفعہ خریدارکو گاڑی پارک کرنے کے پیسے دینے پڑتے ہیں اس طرح پورے دن میں ایک ہی گھر سے سو، ڈیڑھ سو روپے آسانی سے کما لیتے ہیں۔ موٹرسائیکلوں کی پارکنگ سے آمدنی الگ حاصل ہوتی ہے، اکثر اوقات ایک دو منٹ کا ہی کام ہوتا ہے لیکن پارکنگ ٹیکس ضرور ادا کرنا پڑتا ہے ٹیکس پر یاد آیا کہ نئی حکومت کوئی مثبت تبدیلی تو لے کر نہیں آئی بلکہ ہر چیز پر ٹیکس لگادیا، پہلے ہی عوام ٹیکس کی مار کھاتے کھاتے زخمی ہوچکے تھے اب مزید لہو لہان کیا جارہا ہے۔

موجودہ حکومت نے بھی حد ہی کردی ہے ہر چیز پر ٹیکس کھانے پینے کی اشیا سے لے کر استعمال کی تمام چیزوں پر ٹیکس لگادیا گیا ہے۔ انسان کے لیے سانس لینا مشکل کردیا ہے۔ہمارے حکمران چاہے وہ سابقہ حکومت کے ہوں یا موجودہ، حج و عمرے کی سعادت سے ضرور سرفراز ہوتے ہیں۔ حج اسلام کا پانچواں رکن ہے جب کہ 4 ارکان توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ بھی ہیں۔ ان پر عمل بھولے سے نہیں کرتے ہیں اگر روایتی انداز میں عمل کرلیا تو کیا کیا؟جب یہ عبادات انسان میں کسی بھی قسم کی تبدیلیاں ہی پیدا نہ کریں۔ تو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ان عبادات کی روح تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ ایک ایمان کو ہی لے لیجیے جب انسان دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے اور اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے رسول پاکﷺ کا امتی ہونے کے ناتے آپ ﷺ کی سیرت پاک پر عمل کرنے کی بجائے بالکل نظرانداز کردیتا ہے نہ اسے غریب نظر آتے ہیں اور نہ بحیثیت حکمران ان کے حقوق کی ادائیگی، وہ ناانصافی کو خوب ہوا دیتا ہے۔

اسے مظلوم کی آہیں سنائی دیتی ہیں اور نہ ہی روز محشر والے دن جہنم کی آگ کا منظر نظر آتا ہے جس میں غاصبوں کو جھونک دیا جائے گا اسی طرح وہ روزہ، زکوٰۃ کے مفہوم سے ناآشنا رہتا ہے۔ ماہ رمضان میں زکوٰۃ کو مستحقین میں تقسیم کرنے کی بجائے اہل ثروت اور صاحب اقتدار اپنی ہی جھولیوں میں ڈال لیتے ہیں، حاجت مند کی جھولی ماہ رمضان میں بھی خالی ہی رہتی ہے کہ زکوٰۃ کی رقم ان تک پہنچ ہی نہیں پاتی ہے سابقہ حکومت نے ’’بے نظیر انکم سپورٹ ‘‘ کے نام سے ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھی تھی جس کی مدد سے محتاج ومساکین کو فائدہ پہنچے، لیکن دراصل یہ ایک سنگین مذاق تھا۔ ایک تو ماہانہ رقم صرف ایک ہزار تھی۔ بے چارے غریب لوگ نہ جانے کن علاقوں، گوٹھ اور دیہاتوں سے رخ کرتے اور رقم سے بھی محروم رہتے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں نہ انھیں دفتر ملتا ہے اور نہ رقم، کچھ لوگوں کو اگر رقم مل بھی جاتی ہے تو ایک ہزار رقم اس مہنگائی کے بدترین دور میں کیا معنی رکھتی ہے۔

سو دو سو کرایہ خرچ کرنے کے بعد سات، آٹھ سو روپے جیب میں جاتے ہیں یہ معمولی سی رقم تو بمشکل ایک دو روز سے زیادہ ہرگز نہیں چل سکتی ہے اور اگر اس رقم سے بھوکے شکم کو بھرنے کے لیے صرف آٹا خرید لیا جائے تو بقیہ چیزیں کہاں سے آئیں گی؟ اور آٹا خود مہنگا ترین ہوگیا ہے۔ علاج معالجہ مرنے جینے کے لیے معقول رقم کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جو غرباء و مساکین کو میسر نہیں۔ہمارے حکمران حج و عمرے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں کے دوروں پر بھی جاتے ہیں وہ وہاں سے کچھ سیکھ کر نہیں آتے، وہاں کے حکمرانوں اور ان کی رعایا کے طرز زندگی اور معاشرت پر نظر نہیں ڈالتے ہیں۔ برطانیہ کی چھوٹی سی مثال لے لیجیے کہ وہاں پر مسافر بسوں میں سفر کرنے کے لیے صرف ایک دفعہ ٹکٹ خریدتا ہے اور وہ ٹکٹ پورے دن چلتا ہے چاہے آپ دن میں دس چکر لگالیں، آپ کو دوبارہ ٹکٹ نہیں لینا پڑے گا۔ وہاں بے روزگاری الاؤنس بھی ہے، گھر بیٹھ کر آپ عزت سے کھانا کھاسکتے ہیں۔ ننھے طالب علموں کے لیے دودھ اور ناشتہ بھی فری ہے اور بھی مراعات ہیں جو رعایا کو دی جاتی ہیں لیکن ہمارے حکمران  دیار غیر کے زریں اصولوں اور اسلامی تعلیمات سے بالکل سبق نہیں سیکھتے، بلکہ جیسے جاتے ہیں ضیافتیں اڑاکر اور تحائف وصول کرکے کورے ہی لوٹ آتے ہیں۔ عوام کی بھلائی کے لیے کوئی کام نہیں کرنا چاہتا ہے بلکہ چارجڈ پارکنگ کی طرح دوسرے کمائی کے ذریعے نکالنے میں آگے آگے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔