معصومانہ مکاری

راضیہ سید  جمعرات 18 اپريل 2019
آج کل کے بچوں کی معصومیت میں بھی مکاری ہوتی ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

آج کل کے بچوں کی معصومیت میں بھی مکاری ہوتی ہے۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

عنوان تو یقیناً حیرت انگیز ہے، کیونکہ معصومیت اور مکاری کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن آپ سب سے بس میری یہی التماس ہے کہ آپ معصومانہ انداز سے ہماری مکاری کے اس نظریے کو  ضرور دیکھیے اور ہمیں داد دیجیے۔

نظریہ اس لیے کہ معصومانہ اداکاری کرتے ہوئے ہمیں کئی دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن چند دن پہلے  کی چالاکیاں دیکھ کر ہمیں یہ احساس، بلکہ یقین ہوگیا کہ ہم ایسی سرکاروں سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔

ہمارے دور کے بچوں کی فنکاریاں بس یہی ہوتی تھیں، بہن بھائیوں کے ہوم ورک کے رجسٹر پھاڑ دیے، گلی کا کوئی بلب توڑ دیا، گرمی میں  سوئے ہوئے حقیقتاً ’’معصوم‘‘ افراد کے گھروں کی  ڈور بیل بجادی، چھوٹے بچوں سے آئس کریم اور چپس چھین کر بھاگ گئے، سردیوں میں ڈرائی فروٹس ختم کروا کے بہن بھائیوں اور کزنز کے ساتھ مل کر ان کے سامنے خشک میوہ جات کو مزے لے لے کر کھاتے جن کے پاس اب کچھ بچا ہی نہیں۔ یعنی ہم اپنے آپ کو شرارتوں میں پرائیڈ آف پرفارمنس لیا ہوا سمجھتے تھے۔

لیکن بھلا ہو ہماری گلی میں کھڑی اظہر بھائی کی موٹر سائیکل کا، جس کو گرانے کی تخریبی ویڈیو نے آج کل کے  بچوں کی معصومیت کا پول کھول دیا۔ گلی میں رہنے والے ایک ’’چائنی پائنی‘‘ بچے نے گرا کر  موٹر بائیک کی لائیٹیں ہی توڑ ڈالیں اور اس کے بعد بھاگ گیا۔ ویڈیو موصول ہوئی، جسے دیکھنے کے بعد اب اظہر بھائی پریشان۔ کیوں کہ انھوں نے بھی ضد لگائی ہوئی تھی کہ  ’’میں تے ہونڈا ہی لیساں‘‘ اور نئے ہونڈا صاحب ہی ٹوٹ چکے تھے۔

چلیں اب ایک روایت بن چکی ہے کہ پاکستانی ’’پاک چین دوستی وان شوئے‘‘ کے نعرے کے مطابق چینی لڑکیوں سے شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے تین  فوائد ہوتے ہیں  کہ ایک تو چائنا کی نسل پیدا ہوتی رہتی ہے اور پاکستان چین کی آبادی کا بوجھ برداشت کرکے اس کا ہاتھ بٹاتا ہے ۔ محلے میں ان چائنہ بچوں میں سے کوئی شرارت کرے تو شکایت کرنے  والا بے چارا سمجھ ہی نہیں پاتا کہ یہ دہشتگردی ہوئی کہاں سے ہے؟ اور تیسرا فائدہ کہ چینی خواتین بڑی محنتی ہوتی ہیں۔ بہت سے بچوں کی پیدائش بھی باآسانی اور چوبیس گھنٹے نوکری کرکے پیسے بھی بہت کماتی ہیں۔ یہ سب زریں خیالات ہمارے محلے والوں کے ہیں، ہمارا قصور صرف انھیں لکھنے کا ہے۔

خیر اظہر بھائی نے جب اس بچے کی شکایت اس کی والدہ سے کی تو وہ بہت معصومیت سے بولیں کہ اس نے تو گزشتہ دنوں نذیر انکل کے گھر کے باہر پڑی ہوئی لوہے کی تار پر گر کر اپنا پیٹ ہی زخمی کرلیا، اب آپ خود بتائیں کہ ہم اس کو کیسے سمجھائیں۔

دوسرا واقعہ بھی  ایک اور مکار بچے کے بارے میں ہے ۔ جومیرا خیال ہے کہ امریکا کا بچہ ہوگا اور ناسا سے آیا ہوگا، کیونکہ گلی میں ایک بچہ نہایت معصومیت سے مسیکن سی شکل بنا کر کھڑا تھا۔ قریب ہی ایک انکل ٹائپ شخص موجود تھے، جنہیں دیکھتے ہی اس بچے نے دوڑنے میں عافیت سمجھی۔ اب وہ صاحب غصے میں بڑبڑاتے ہوئے کہہ رہے کہ پتہ نہیں کون الو ہے جو میری گاڑی پر لکیریں کھینچ دیتا ہے۔ ابھی وہ یہی کہہ رہے تھے تو غلطی سے ان کا ہاتھ بیک لائٹ پر گیا اور وہ دہائی دیتی ہوئی زمین پر آرہی۔

اب تو وہ غصے سے آگ بگولا ہوگئے اور کہنے لگے لو اب تو بتیاں بھی گئیں۔ مجھ سے پوچھنے لگے ’’بیٹا یہاں کوئی بچہ تو نہیں آیا تھا؟‘‘

’’انکل یہاں ایک بچہ تھا، میں نے سوچا آپ کا ہوگا اور گاڑی کی پچھلی سمت کھڑا تھا۔‘‘

’’اوہو! تم جیسے ہمسائیوں کا کوئی فائدہ ہے؟ آج ہی میرا سی سی ٹی وی کیمرہ خراب تھا اور اس نوید کے بچے نے یہ مصیبت ڈال دی، وہی سب سے شرارتی ہے، پر دیکھو بیٹا آج کل کے بچوں کی چالاکیاں، ان کے ڈرامے۔ ایسے ٹوٹی ہوئی لائٹ کو ساتھ لگا کر گیا کہ لگا ہی نہیں جیسے ٹوٹی ہوئی ہو۔ لائٹ اس طرح چسپاں تھی اپنی جگہ پر جیسے یہ لیڈر اقتدار سے چپکے پڑے ہیں اور نیب کے اشاروں سے پٹ سے سسٹم سے الگ ہوجاتے ہیں۔‘‘

ایک آخری قصہ تو رہ ہی گیا جو میرے کولیگ نے مجھے سنایا۔ موصوف بازار جارہے تھے اور اتوار کا دن تھا ایک جگہ خوب بھیٹر دیکھی۔ تجسس کے مارے وہیں رک گئے، کیونکہ میڈیا کے لوگوں کو کچھ تو چاہیے ہی ہوتا ہے کہ آخر پیٹ ہمارے ساتھ بھی ہے۔ خیر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک معصوم سا افغان یا پٹھان بچہ ایک چھابہ لیے روئے جارہا ہے کہ ہائے میں لٹ گیا، برباد ہوگیا۔

نصیر ( کولیگ ) کے استفسار پر علم ہوا کہ اس کے پاس مٹی کے کھلونے اور دیگر اشیا تھیں جو وہ فروخت کی غرض سے لایا تھا۔ راہ میں کہیں ٹھوکر لگی اور سب برتن زمین پر گر کر ٹوٹ گئے۔

اس کی آج کی روزی تو گئی ۔ اب سب پریشان ہوکر اس معصوم کو تسلی دے  رہے تھے کہ کچھ نہیں ہوتا اور حسب توفیق اس کی مالی امداد بھی کررہے تھے۔ خیر وہ بچہ آنسو صاف کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

اتنی ہی دیر میں اختر صاحب اور چند احباب دوسری گلی سے آئے تو لوگوں کا رش دیکھ کر ان کی جانب چلے آئے۔ جب سارا واقعہ سنا تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ ’’ارے بھئی مرزا ان کو بھی آج لگ گیا چونا چھوٹے میاں کے ہاتھوں۔ ویسے لگا خوب ہے۔ ہمیں تو پہلے ہی معلوم تھا کہ یہی ہونا ہے۔ وہ پچھلی گلی میں بھی اپنی ٹوکری گرا کر خود کھلونے توڑ کر آیا ہے۔ کرلو گل! آج کل بہت سے حربے ہیں ایسے آسان کمانے کے۔ مٹی کے برتنوں سے اتنی کمائی تھوڑی ہونی تھی جو آپ کے سامنے رونے سے ہوگئی۔‘‘

اب کف افسوس ملنے کے  سوا کوئی چارہ نہ تھا، کیونکہ کئی مخیر حضرات نے بچہ اور معصوم سمجھ کر اس کی اچھی خاصی امداد کی تھی اور وہ کل کا بچہ ان سب کو دھوکا دے کر جاچکا تھا۔ لیکن اہم بات یہ ہے جو میں سوچ رہی تھی کہ یہ بچے خود تو اتنے چالاک نہیں تھے، ان کے پیچھے بہت بڑے مافیاز ہیں جو انھیں ایسا سکھاتے ہیں۔ والدین کا میں اس لیے یہاں نہیں کہوں گی کہ وہ تو بس ان بچوں کو پیدا کرکے ان کی پرورش سے غافل ہوجاتے ہیں۔

کسی بھی گروہ کو یہ بچے دے کر یا کہیں نوکر کروا کے بے فکرے ہوجاتے ہیں۔ یہ بچے جنہیں ماں باپ سے سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ پھر زمانے سے سیکھتے ہیں۔ اور وقت اور زمانہ بہت مشکل استاد ہوتا ہے۔ ان بچوں کو بھی اچھی تربیت اور اعلیٰ اخلاق سکھانے کی ضرورت ہے جو صرف فرد واحد کا نہیں، ہم سب کا فرض ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔